امریکا، بھارت بڑھتے ہوئے تعلقات

 ہفتہ 2 اگست 2014
امریکا ہو یا بھارت پاکستان کی مدد اور تعاون کے بغیر افغانستان اور وسط ایشیا میں اپنے تجارتی مفادات حاصل نہیں کر سکتے،فوٹو:فائل

امریکا ہو یا بھارت پاکستان کی مدد اور تعاون کے بغیر افغانستان اور وسط ایشیا میں اپنے تجارتی مفادات حاصل نہیں کر سکتے،فوٹو:فائل

امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری بھارت کے دورے پر ہیں۔ گزشتہ روز انھوں نے نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے اہم ملاقات کی ہے۔ انھوں نے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے بھی ملاقات کی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ان ملاقاتوں کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں فریقین نے تجارت، نیوکلیئر سپلائر گروپ اور دیگر شعبوں میں تعاون پر اتفاق کیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس عزم کا اظہار کیا کہ امریکا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل نشست کے لیے اصلاحات چاہتا ہے۔ یہ اطلاع بھی سامنے آئی ہے کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے دوران کہا کہ بھارت ڈبلیو ٹی او (عالمی تجارتی تنظیم) کی مخالفت ترک کر دے اور ڈبلیو ٹی او کی اصلاحات کو مزید آگے بڑھانے کے لیے امریکا کا ساتھ دے۔ یاد رہے کہ بھارت نے جمعرات کو کسٹمز کے طریقہ کار کے حوالے سے عالمی تجارتی تنظیم کے ایک اہم معاہدے کو ویٹو کر دیا تھا۔ ڈبلیو ٹی او کے اجلاس میں شرکت کرنے والے نمائندوں کے حوالے سے یہ خبر شایع ہوئی کہ بھارت کے اس اقدام کے دور رس اثرات ہوں گے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا حالیہ دورہ بھارت اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے امریکا کے صدر اوباما کی انتظامیہ اور وزیر اعظم نریندر مودی انتظامیہ کے درمیان تعلقات کار کی نوعیت پر پیش رفت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جمعرات کو بھارت نے ڈبلیو ٹی او معاہدے کو ویٹو کر کے عالمی تجارتی معاملات میں اپنی قوت و اہمیت کو منوانے کی کوشش کی ہے اور امریکا کو پیغام دیا ہے کہ عالمی تجارت میں بھارتی مفادات کا بھی تحفظ ہونا چاہیے۔بظاہر یہ ایک اچھی چال ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے شاید بھارتی اہمیت کو کسی حد تک تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اس عالمی معاہدے کی مخالفت ترک کر دے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے حوالے سے بھارت کی حمایت کی جائے گی۔ اس وقت بیشتر عالمی معاملات خصوصاً جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا میں امریکا اور بھارت ایک پیج پر نظر آتے ہیں۔ امریکا بھارت کے ساتھ ایٹمی شعبے میں بھی غیر معمولی تعاون کر رہا ہے اور جنوبی ایشیا، وسط ایشیا کے حوالے سے بھی بھارت اور امریکا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے نظر آتے ہیں۔

حالیہ دورے کے دوران بھی پرانا راگ الاپا گیا ہے کہ پاکستان ممبئی حملوں کے ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے اور دونوں ملکوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ القاعدہ اور لشکر طیبہ کے اڈے اور نیٹ ورک ختم کیے جائیں۔اس طرح بھارت نے پاکستان کے خلاف اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کیا اور اس میں بھارت کو بھی شریک کیا ہے۔ امریکا اور بھارت عالمی اسٹرٹیجک امور پر بھی یکساں سوچ رکھتے ہیں اوردونوں ملکوں کے مفادات میں خاصی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ امریکا جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ وسط ایشیا میں بھارت کو اہم کردار دینے کا وکیل اور اس کا مددگار ہے۔

اس طرح امریکا بحر ہند کے تجارتی و اسٹرٹیجک معاملات میں بھی بھارتی کردار کو بڑھانا چاہتا ہے۔ اس طرح وہ چین کا اقتصادی گھراؤ کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ یہ امریکا ہی نہیں بلکہ یورپی یونین کی خواہش بھی ہوسکتی ہے۔ جہاں تک ڈبلیو ٹی او کا تعلق ہے تو بھارت نے محض شو آف پاور کے لیے ٹی ایف اے (Trade Facilitation) یعنی تجارتی سہولتوں کے معاہدے کو ویٹو کیا ہے۔ اب وہ اس میں اپنی مرضی کی ایک دو شقیں شامل کر کے اس کی توثیق کر دے گا۔ اگر بھارت اس معاہدے میں کوئی تبدیلی نہیں بھی کراتا تب بھی وہ اسی کی توثیق کر کے امریکا پر احسان کر دے گا اور اس کی بھاری قیمت وصول کرے گا۔بھارت کی یہ بھی ایک اہم چال ہے جو کامیاب ہوتی نظر آتی ہے۔ جان کیری کا دورہ بھارت بنیادی طور پر اسٹرٹیجک نوعیت کے معاملات طے کرنے کے لیے ہے۔

امریکا اور بھارت نئے دور کے اتحادی بن کر ابھر رہے ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یہ اتحاد بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سارے منظرنامے میں پاکستان کہیں نظر نہیں آ رہا۔ پاکستان اس وقت دہشت گردوں کے خلاف انتہائی اہم جنگ لڑ رہا ہے۔ پاک فوج شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں سے برسرپیکار ہے۔ ادھر شمالی وزیرستان سے دہشت گرد فرار ہو کر افغانستان میں پناہ لے رہے ہیں۔ اس آپریشن کے آغاز سے پہلے بھی طالبان کی قیادت افغانستان میں موجود تھی۔ افغان انتظامیہ کھلے عام ان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔

افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی فوجیں بھی تعینات ہیں۔ اس کے باوجود حالیہ دنوں میں افغانستان سے پاکستان میں دراندازی ہو رہی ہے۔ گزشتہ روز بھی پاکستان کی قبائلی ایجنسی باجوڑ میں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے کارروائی کی۔ یہ صورت حال خاصی غور طلب ہے۔ امریکا اور بھارت کو اپنے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کا حق حاصل ہے لیکن پاکستان کو بھی اس منظرنامے میں اپنے کردار کا تعین کرنا چاہیے۔

پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اہم ترین اتحادی ہے۔ اس جنگ میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے لیکن امریکا اور مغربی ممالک نے اسٹرٹیجک معاملات ہوں یا عالمی تجارتی معاملات ان میں بھارت کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ پاکستان کے مفادات کا اتنا خیال نہیں رکھا جتنا کہ پاکستان اس کا مستحق ہے۔ پاکستان کی حکومت کو ان امور پر توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان کو امریکا یا بھارت پر کوئی اعتراض کیے بغیر اپنی اہمیت منوانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔

پاکستان وسط ایشیا و افغانستان کا دروازہ ہے۔ امریکا ہو یا بھارت پاکستان کی مدد اور تعاون کے بغیر افغانستان اور وسط ایشیا میں اپنے تجارتی مفادات حاصل نہیں کر سکتے۔ پاکستان بحر ہند کے اسٹرٹیجک اور تجارتی معاملات میں بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کو اپنی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے اور اس اہمیت کو منوانے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر امریکا بھارت کی خاطر سلامتی کونسل کی رکنیت کے لیے جدوجہد کرتا ہے یا اسے عالمی تجارتی لین دین میں فائدہ پہنچاتا ہے تو پاکستان بھی بہت سے فوائد حاصل کر سکتا ہے۔

اس کے لیے ضرورت بہتر منصوبہ بندی اور اپنے اہداف کا واضع تعین کرنے کی ہے۔ پاکستان عالمی کھیل کا اہم کھلاڑی ہے۔ اگر عالمی شطرنج کی اس بساط پر اچھی شاطرانہ چالیں چلی جائیں تو پاکستان بھی وسط ایشیا اور بحر ہند کے اسٹرٹیجک اور تجارتی معاملات میں امریکا اور طاقتور اقوام کی مجبوری بن سکتا ہے۔ ان اہداف کے حصول کے لیے پاکستان کو ہر صورت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنی ہو گی خصوصاً شمالی وزیرستان کو ہمیشہ کے لیے دہشت گردوں سے پاک کرنا ہو گا جس کا آغاز تو کر دیا گیا ہے بس اسے اس کے منطقی انجام تک پہچانے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔