فلسطین ، جمہوریت اور ہم…

سید حسام احمد  جمعـء 22 اگست 2014

رسول کریم ؐ کا فرمان ہے کہ ’’تمام مسلمانوں کا خون برابر ہے ، وہ اپنے کمزوروں کا تحفظ کرتے ہیں اور وہ دشمن کے خلاف ایک ہاتھ کی مانند ہیں‘‘ مگر پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ آج فلسطین کے مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا جارہا ہے ، ان کے گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے ۔ اللہ کی زمین فلسطین کے مسلمانوں پر تنگ کردی گئی ہے اور ہم یہاں پاکستان میں بیٹھ کر شدت سے اپنے بھائیوں کا غم محسوس کررہے ہیں، ان کی تکلیف پر تڑپ رہے ہیں اور ان کے حالات پر افسردہ ہیں اور یقینا یہ پاکستان کے لوگوں کے ایمان ہی کی نشانی ہے ۔

مگرسوال یہ ہے کہ اس ظلم پر پاکستانی پرنٹ میڈیا میں لکھا بھی گیا، ٹی وی پر بہت کچھ نشر کیا گیا ۔ سیاسی جماعتوں اور لوگوں نے مظاہرے بھی کیے مگر فکری طور پر لوگوں نے رونے دھونے کے سوا بھی کوئی حل پیش کیا؟ کیا ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ مظاہرے اور جلسے جلوسوں کے ذریعے اپنے غصے کا اظہار کریں یا حقیقتاً ایک ایسے حل کی طرف پیش قدمی کریں جو واقعتاً فلسطین کے مسلمانوں کا مسئلہ حل کرے ؟

آخر وہ کیا چیز ہے جس نے ہمارے ہاتھ باندھ رکھے ہیں اور وہ کیا عوامل ہیں جنہوں نے ہمیں بے بس کردیا ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے درد کو تو محسوس تو کرتے ہیں مگر اپنے غصے کے اظہار سے آگے نہیں بڑھ سکتے ؟

آخر ہمارے درمیان سامراجی قوتوں کی جانب سے کھینچی گئی مصنوعی سرحدیں کیوں ہیں جو کہ مسلمانوں کے ایمان کے بھی خلاف ہیں۔ جو یہ کہتی ہیں کہ پاکستان کے مسلمانوں کا خون فلسطین، برما، افغانستان اور شام کے مسلمانوں سے افضل ہے جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ تمام مسلمانوں کا خون برابر ہے ان ہی سرحدوں نے نیوکلیئر ہتھیاروں سے لیس فوج کو اس بات سے روک رکھا ہے کہ وہ اپنے کمزور بھائیوں کی مدد کریں۔ آپ ہی بتائیں کیا فلسطین پاکستان سے اتنا ہی دور نہیں جتنا عراق سندھ سے تھا جب محمد بن قاسم مظلوم مسلمان عورتوں کی پکار پر لبیک کہتا ہوا ان کی مدد کے لیے آیا تھا؟ کیا یہ سرحدیں ہی نہیں جس نے مسلمانوں کو دشمن کے خلاف ایک ہاتھ بننے سے روک رکھا ہے ۔

میرا سوال ہے ان لوگوں سے جو خلافت کے علاوہ کسی اور چیز کو بطور حل پیش کرتے ہیں ۔ وہ بتائیں کیا وہ ان مصنوعی سرحدوں کی موجودگی میں فلسطین کے مسلمانوں کے لیے چندہ اکٹھا کرنے اور مظاہروں کے علاوہ کچھ کرسکتے ہیں؟ جن کا یہ کہنا ہے کہ خلافت تو بس ایک خواب ہے جسے کچھ دیوانوں نے پکڑ رکھا ہے تو میں ان سے کہتا ہوں وہ آگے بڑھیں اور جرات کرتے ہوئے مسلمانوں کو بتائیں کہ ان کے نزدیک فلسطین کے مسلمانوں کی حفاظت بھی اب ایک خواب ہی ہے اور مسلم علاقوں سے استعماری قوتوں کا انخلا بھی ایک خواب ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ وقت مسلم دنیا میں انقلاب کا دور دورہ ہے ۔ امت کے اندر تبدیلی کی لہر دوڑ گئی ہے ۔ امت نے خوف کی دیوار کو گرا دیا ہے اور وہ اپنے حکمرانوں کے احتساب کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہے ۔ ہماری آنکھوں کے سامنے وہ حکمران جو دہائیوں سے اقتدار پر قابض تھے اقتدار سے نکالے گئے ۔ امت میں تحریک اور ہلچل سے سخت خوفزدہ ہمارے دشمنوں کی کوشش یہی ہے کہ کسی طرح وہ ہمیں حقیقی حل کے قیام کی طرف جانے کے بجائے انقلاب کو ہائی جیک کرلیں اور مسلم دنیا میں اپنے نظاموں یعنی جمہوریت کو محفوظ کرلیں۔ ہم نے دیکھا کہ تیونس، لیبیا، یمن اور مصر میں ایسا ہی ہوا کہ انقلاب کو ہائی جیک کرلیا گیا۔ جب کہ شام میں ایسا نہ ہوسکا۔ وہاں مسلمان اب بھی اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں ۔

تبدیلی کی ضرورت اور خواہش صرف عرب نہیں بلکہ عجم کے مسلمانوں میں بھی شدت سے زور پکڑ رہی ہے ۔ مگر پاکستان کے مسلمانوں نے جب بھی تبدیلی کی خواہش کا اظہار کیا اور اس کے لیے سڑکوں پر آئے تو حکمران طبقے کی کوشش رہی کہ وہ پاکستان کے عوام کی اس خواہش کو دباکر یا اس کو وقت کے حکمران کی شخصیت اور اس کو ہٹانے کی کوشش تک محدود کردیا جائے تاکہ نظام کو بچایا جاسکے۔

اس لیے جب بھی پاکستان کے مسلمان تبدیلی کے لیے متحرک ہوئے، حکمران طبقے نے نت نئے نعروں کے ذریعے ان کی کوششوں اور تبدیلی کے لیے جذبات کو ایک مخصوص رخ دے کر نظام کو بچا لیا جو اصل میں تمام مصائب کی جڑ ہے۔ جب تبدیلی کی خواہش نے پاکستان میں انگڑائی لی تو ایوب خان اقتدار میں آئے اور اس نے ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کا نعرہ لگایا۔ مگر عوام ایوب خان کے حل کی ناکامی کے بعد ایک بار پھر تبدیلی کے خواہش مند ہوئے، اور ذوالفقار علی بھٹو اٹھے اور ’’عوامی جمہوریت‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔

لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی جمہوریت بھی ناکامی سے دوچار ہوئی اور عوام دوبارہ سڑکوں پر آئے تو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا اور ’’اسلامی جمہوریت‘‘ کا راگ الاپا۔ ضیاء الحق کی اسلامی جمہوریت بھی عوام کے مسائل حل کرنے سے قاصر رہی تو پھر جنرل پرویز مشرف صاحب منظر عام پر آئے اور انھوں نے ’’حقیقی جمہوریت‘‘ کا نیا علم بلند کیا۔ اور آج جب مسائل ہیں کہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔

آج عمران خان اور طاہر القادری عوام کی تبدیلی کی خواہش کو مخصوص رخ دینے کے لیے جمہوری نظام کو بچانے کی خاطر ’’صاف ستھری جمہوریت‘‘ کا عزم لیے دمادم مست قلندر کرنے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

البرٹ آئن سٹائن نے شاید پاکستان ہی کے لیے کہا تھا کہ ایک ہی کام کو بار بار ایک ہی طریقے سے دہرائے جانے اور پھر مختلف نتائج کی توقع رکھنے کو پاگل پن کے سوا کچھ نہیں کہتے ۔

اس لیے آج یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ کیا عوام جمہوری طریقے سے جمہوریت کی برطرفی کے بعد جمہوریت ہی کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں یا حقیقی حل اور حقیقی نظام کے قیام کے لیے اپنی جدوجہد صرف کریں گے ۔ یہ انتہائی اہم بات ہے کہ کیا آپ ہر اْس کوشش کو مسترد کرتے ہیں جو پاکستان میں خلافت کے قیام کے علاوہ اور کسی حل پر مشتمل ہو یا ہمیشہ کی طرح اس بار بھی حکمران طبقے کے جال میں پھنسنے کو اور فٹبال بننے کو تیار ہیں؟

یقینا یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اپنے بہتر مستقبل کی خاطر اس جمہوری سرکس کا انکار کریں اور اس نظام خلافت کے قیام کا مطالبہ کریں جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ۔ اور حکمراں طبقہ چاہے جتنی کوشش کرے مگر یہ ادراک کر لے کہ وہ کبھی کبھار پوری قوم کو ضرور بے وقوف بنا سکتا ہے ، کچھ لوگوں کو ہمیشہ بھی بے وقوف بنایا جاسکتا ہے مگر وہ ہمیشہ پوری قوم کو دھوکا نہیں دے سکتا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔