انقلاب اور حقیقی آزادی کے لیے

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  منگل 2 ستمبر 2014
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

اﷲ رب العزت نے مسلمانان پاک و ہند کی عظیم الشان قربانیوں کے نتیجے میں مسلمانوں کو ایک ارض پاک کا تحفہ بطور امانت عطا کیا۔ مسلمانوں کے عزم و حوصلے اور ان کی جد وجہد کو آخر کار بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں کامیاب و کامران کرایا۔

اس ارض کے حصول اور جد وجہد پاکستان کے لیے لاکھوں کلمہ گو مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ مورخ کے تحریری بیانات اور تاریخ کے صفحات اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ مسلمانان ہند نے اپنے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کا مطالبہ صرف اور صرف اس لیے انگریزوں اور ہندوؤں کے سامنے کیا تھا کہ وہ ایک ایسی ریاست کے خواہشمند تھے کہ جہاں پر اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی، رفاعی معاشرہ قائم کرسکیں جس کے قوانین قرآن و سنت اور اسلام کے سنہری اصولوں کے عین مطابق ہوں۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے متعدد مرتبہ اس بات کا اعلان کیا تھا کہ ’’پاکستان میں اسلام کے اصولوں کے مطابق حکومت تشکیل دی جائے گی‘‘ قائد اعظم محمد علی جناح نے علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کے ہاتھوں پرچم کشائی کرائی اور اس موقعے پر اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ ’’قیام پاکستان کے سلسلے میں علماء نے تاریخی کردار ادا کیا ہے‘‘ پاکستان کی بدقسمتی کہ قائد اعظم محمد علی جناح 11 ستمبر 1948 کو اس دنیا سے چلے گئے اس کے بعد لیاقت علی خان نے بہت مجبوری اور دباؤ کے بعد مارچ 1949 میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی اور دیگر علمائے کرام کا تیار کردہ ’’قرارداد مقاصد‘‘ کو منظور کرایا۔

اس قرار داد مقاصد میں اسلام اور قرآن کے طرز حکومت و ریاست کے اصول کو اور ارض پاکستان کے طرز حکمرانی کو اسلام کے اصولوں کے مطابق ڈھالنے کا اعلان کیا گیا مگر اسلام اور پاکستان دشمن عناصر نے لیاقت علی خان کو 1951 میں شہید کردیا اور اس کے بعد پاکستان کے ساتھ گزشتہ 67 سالوں سے جو کچھ ہو رہا ہے اس کا اندازہ پاکستان کے عوام زیادہ بہتر طور پر کرسکتے ہیں۔

ارض پاکستان مصائب و مشکلات سے نبرد آزما ہوتا ہوا 1970 کے سال میں داخل ہوگیا۔ اسی سال دوسرے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر یحییٰ خان نے پاکستان کے دونوں حصوں میں انتخابات کرائے۔ پاکستان کے اس انتخابی نتائج نے تاریخ عالم خاص طور پر مسلم امہ کے حوالے سے وہ تاریخ رقم کی جس کی نظیر اور مثال دنیا کے کسی ملک میں نظر نہیں آتی۔ پاکستان 1971 سے ہی تقسیم کے خلاف تھا۔ دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ ہم نے جن مقاصد، جن اصول و ضوابط اور نعرے کے زور پر پاکستان حاصل کیا تھا یعنی ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اﷲ‘‘ اس سے یکسر انحراف کیا۔ 1949 کے قرارداد مقاصد کو صرف کاغذ ہی کی سطح پر برقرار رکھا۔ جس ارض پاک کے حصول اور قیام کے لیے لاکھوں ماؤں نے اپنے بیٹوں کو قربان کیا۔

لاکھوں بہنوں نے اپنے بھائیوں کی حیات کا نذرانہ پیش کیا۔ ہزاروں خواتین نے سر پر بیوگی کا تاج سجایا، لاکھوں بیٹیاں یتیم ہوئیں۔ ان کے مقدس خون سے لکھی گئی کہانی اور ارض پاکستان کی زمین کو محروم و فراموش کردیا گیا۔ پاکستان دو لخت ہوکر آج ہم سب کے سامنے ہے، پاکستان کا وجود بری طرح سے زخموں سے چور چور ہے۔ اس ارض پاک کا خیر خواہ کوئی 67 سال سے سامنے نہ آسکا جو صحیح معنوں میں رہنمائی کرسکے۔

اﷲ رب العزت نے مسلمانوں کی صداؤں کو عرش بریں پر سنا تھا کہ دھرتی پر میرے بندے ’’مجھ سے ایسی سرزمین کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ جہاں پر اسلام اور قرآن کے اصول و ضوابط اور قانون تشکیل دیا جائے گا۔ معاشرہ اسلام کے اصول پر چلایا جائے گا۔ مسلمانوں کی قربانی، ان کی آرزوؤں کی تکمیل ان کے ارادے و نیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اﷲ رب العزت نے اس ارض پاکستان کو رمضان المبارک کی عظیم رات 27 ویں شب کو مسلمانان ہند کے لیے قائم فرمایا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ رب سے کیا ہوا وعدہ بھول گئے جو انھوں نے اس کے قیام کے سلسلے میں کیا تھا۔

پاکستان کے اوپر ہونے والے ظلم اور تاریکی کے بادل صاف ہونا شروع ہوچکے ہیں پاکستان اپنے ان ہی راستوں پر چل پڑا ہے جس کی خاطر لاکھوں مسلمانوں نے قربانی دی تھی۔ اﷲ رب العزت نے اس ہوا کو اس ارض پاک پر چلانا شروع کردیا ہے جس کی لہروں سے ارض پاک پر آباد مسلمانوں کے قلوب ایمان، اتحاد، محبت اور وطن دوستی سے منور ہوں گے جس کے بارے میں برسوں پہلے شعرا نے اس انداز میں وضاحت کی تھی:

یہ دیس جگمگائے گا نور لا الٰہ الا اﷲ سے
کفر تلملائے گا نور لا الٰہ الا اﷲ سے

ارض پاکستان کے وجود پر آباد مسلمانوں کے ساتھ اس کا اہم مذہب، ہم وطن کلمہ گو مسلمان بھائی گزشتہ 67 برسوں سے جو ظلم کرتا چلا آرہا تھا ظلم، نا انصافی، رشوت خوری، اقربا پروری، نفرت، دشمنی یہ سب کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ انشاء اﷲ پاکستان کے ستم رسیدہ اور معصوم و مظلوم بہت جلد وہ خوش خبری اپنی کانوں میں سنیں گے جس کے بارے میں انھوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔ ارض پاک پر آباد مسلمانوں کو اس دور کی ظلمت سے بچانے کے لیے جس طرح محمد بن قاسم نے عورتوں اور بچوں کی عفت و عصمت بچانے کی خاطر اس پاک و ہند پر ایک تاریخ ساز کارنامہ سر انجام دیا جس طرح مسلمانان عالم اس کو اپنا نجات دہندہ تصور کرتے ہیں۔ اسی قسم کا ایک مرد مومن ایک مرد قلندر وقت کا مسیحا، پاکستانی قوم کا اور تمام عالم کے انسانیت کا حقیقی اور سچا خیر خواہ مقرر ہوچکا ہے جو اپنی فکر و خیالات اور اپنی تعلیمات سے پاکستان کے مسلمانوں کے قلب میں ایمان کی روشنی اجاگر کرے گا۔ ارض پاک سے محبت کرنے والے ابھی بے شمار بند گان خدا اس ارض پاک پر رات و دن رب کے حضور سجدہ ریز ہیں۔

یہ وطن، یہ ارض پاک مسلمانان پاکستان کا ہے اس ارض پاک کے بارے میں غلط تصورات، منفی سوچ رکھنے والا خود تباہ ہوجائے گا اس کو توڑنے والا اور تقسیم کرنے والا خود فنا ہوجائے گا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانان پاکستان تمام باتوں کو نظر انداز کرکے اپنے اندر حقیقی ایمانی روح کو اجاگر کریں۔ ایمان کی دولت سے شیطان کو شکست دیں۔ آخر ہزاروں برس پہلے نمرود جیسے شیطان نے بھی تو حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈال دیا تھا لیکن آگ نے حضرت ابراہیم ؑ کو محفوظ رکھا۔ اپنے ایمان کو تازہ کریں، اپنے رب کے حضور دعا کریں، اپنے گناہوں سے توبہ کریں، اﷲ رب العزت ضرور آپ کی فریاد اور دعاؤں کو سنیں گے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ارض پاک کا مسلمان آج جس تباہی و بربادی کے مقام پر آکھڑا ہوا ہے انھی جیسا انسان اپنے بھائیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ انسانیت سے انسانیت کا رشتہ ختم ہوچکا ہے اور سب سے بڑھ کر ظلم و بربریت اور نا انصافی نے ارض پاک کے مسلمانوں کو خودکشی کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ پاکستان کے عوام اس صورت حال سے صرف اس صورت میں نکل سکتے ہیں کہ وہ اپنے حقیقی مالک سے رابطہ کریں۔ وہ مالک ہی اس انسان کی پریشانی، ظلم اور نا انصافی کے درمیان گزری ہوئی زندگانی پر رحم کرے گا۔ ورنہ حکمران پاکستان نے اور پاکستان کے اعلیٰ طبقے نے پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کو جیتے جی ہی ماردیا ہے۔ ظلم اور تاریکی کے اندھیرے میں گم پاکستان کے مسلمانوں کے لیے شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

نظم و ضبط کو اپنا میر کارواں جانو
وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبان اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نگہباں اس کے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔