زرداری پیپلز پارٹی پنجاب کو متحرک کرنے میں کامیاب

خالد قیوم  بدھ 15 اکتوبر 2014
آئین کے تحت نگران حکومت اور انتخابات کے وقت کا تعین ہمیں ہی کرنا ہے جب ہمیں سوٹ کرے گا اس وقت ہی انتخابات ہوں گے، آصف زرداری فوٹو : فائل

آئین کے تحت نگران حکومت اور انتخابات کے وقت کا تعین ہمیں ہی کرنا ہے جب ہمیں سوٹ کرے گا اس وقت ہی انتخابات ہوں گے، آصف زرداری فوٹو : فائل

لاہور: پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی لاہور میں سیاسی سرگرمیاں طوفانی رہیں۔ وہ عید سے قبل لاہور تشریف لائے اور اپنے سیاسی کیریئر میں پہلی مرتبہ لاہور میں پارٹی کارکنوں کے درمیان عید منائی اس سے ان کے اس دورہ لاہور کی اہمیت اور سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

لاہو رپہنچنے کے فوراً بعد انہوں نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے منصورہ جا کر ملاقات کی۔ اس ملاقات میں پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت بھی ان کے ہمراہ موجود تھی۔ وہ امیر جماعت اسلامی سے اپنے پہلے دورہ لاہور میں بھی ملاقات کرچکے ہیں لیکن حالیہ ملاقات میں ان کے ہمراہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی، مخدوم امین فہیم، میاں منظور احمد وٹو اور قمر زمان کائرہ بھی موجود تھے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ ملاقات حالیہ سیاسی بحران کے تناظر میں تھی اور آصف زرداری اس ملاقات کے حوالے سے اپنی پارٹی قیادت کو بھی اعتماد میں لینا چاہتے تھے۔ امیر جماعت اسلامی کا حالیہ سیاسی بحران میں بڑا مثبت کردار چلا آرہا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے دورے کا آغاز سراج الحق سے ملاقات کرکے کیا، پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے 32 سال بعد جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ کا 40 روز میں دوسری مرتبہ دورہ کیا۔ 1982 میں بیگم نصرت بھٹو منصورہ آئیں تھیں۔اس کے بعد آصف زرداری نے مسلم لیگ(ق) کی اعلیٰ قیادت چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کی۔

یہ ملاقات بھی حالیہ سیاسی بحران کے تناظر میں ہی تھی۔ ان ملاقاتوں کے کیا نتائج نکلے اس کا پتہ وقت گزرنے کے ساتھ چل جائے گا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ زرداری صاحب کو ان ملاقاتوں سے کچھ حاصل نہیں ہوا ان کی بات میں اس لئے وزن نہیں ہے کہ اگر زرداری صاحب مایوس ہوتے تو وہ دوسری بار سراج الحق اور چوہدری برادران سے ملاقات نہ کرتے۔ ان ملاقاتوں کا حتمی نتیجہ یہی نکلے گا کہ حالیہ بحران خوش اسلوبی سے اختتام پذیر ہو جائے گا جس کے آثار نظر آرہے ہیں کیونکہ دھرنے عملاً ختم ہو چکے ہیں۔

ان ملاقاتوں کے بعد ان کاوہ کام شروع ہوا جس کا پیپلزپارٹی کو عرصے سے انتظار تھا، آصف زرداری بلاول ہاؤس بیٹھے اور پنجاب کی قیادت اور اضلاع کی سطح تک کارکنوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ ملاقاتیں 18 اکتوبر کو کراچی میںہونے والے جلسے کے تناظر میں تھیں اور اس کا دوسرا اور سب سے اہم مقصد پنجاب میں پیپلزپارٹی کو متحرک کرنا تھا۔ آصف علی زرداری کے ذہن میں اس حوالے سے کیا ترجیحات ہیں اور وہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے حالیہ دھرنوں اور جلسوں کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں اس کا اندازہ بالمشافہ ملاقات میں ہوا۔ گزشتہ دنوں ان سے بلاول ہاؤس لاہور میں ایک ظہرانے پر ملاقات ہوئی۔

اس موقع پر سابق صدر آصف زرداری کا کہنا تھا کہ ہم نواز شریف کے ساتھ نہیں سسٹم اور جمہوریت کے ساتھ ہیں اور اس سسٹم میں ہم اپوزیشن ہیں۔ آئین کے تحت نگران حکومت اور انتخابات کے وقت کا تعین ہم نے ہی کرنا ہے جب ہمیں سوٹ کرے گا اس وقت ہی انتخابات ہوں گے اور یہ انتخابات 3 سال بعد یا 4 سال بعد بھی ہو سکتے ہیں۔ وہ نواز شریف کی غلطیوں اور ناکامیوں کا دفاع کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں لیکن عمران خان اور طاہرالقادری کو یہ مشورہ ضرور دیتے ہیں کہ وہ اپنے مطالبات میں لچک پیدا کریں، ملک کوآئینی بحران کا شکار نہ کریں، وہ مطالبے کریں جن کو پورا کرنے کی آئین میں گنجائش ہو، صرف سوا سال گزرنے کے بعد کسی حکومت کو گرانا یا وزیراعظم سے استعفیٰ طلب کرنا جمہوری سیاست نہیں ہے۔

اس سے ملک میں آئینی بحران پیدا ہوگا اور غیر جمہوری قوتیں فائدہ اٹھائیں گی۔ پیپلزپارٹی نہ تو مسلم لیگ (ن) کی اتحادی اور نہ اس کے سیاسی فکرو فلسفے سے اتفاق کرتی ہے اور نہ ہی آئندہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کا کوئی پروگرام ہے۔ پیپلزپارٹی کی پہلی ترجیح جمہوریت اور آئین کو بچانا ہے، یہ اتفاق ہے کہ اس وقت مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے۔ سابق صدر کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے انہوں نے 2013ء کے انتخابات کو آر اوز کا الیکشن کہا تھا اگر اس وقت کہہ دیتا کہ میں حلف نہیں لیتا اور عمران خان سمیت دوسری جماعتیں بھی ہمارے ساتھ آجاتیں تو اس سے ملک میں بحران پیدا ہوجاتا اور سال ضائع ہو جاتا۔

ہم نواز شریف سے ایشوز پر لڑیں گے ،کرسی پر نہیں۔ انہوں نے عمران خان کی تندو تیز زبان کو غیر سیاسی اور غیر مناسب قراردیا اور کہا کہ اس کا آغاز شہباز شریف نے کیا تھا اور انتہا عمران خان نے کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے آہستہ آہستہ ختم ہو جائیں گے اور یہ جو جلسے ہیں جنہوں نے بڑے جلسے دیکھے نہیں ہیں وہ ان سے مرعوب ہوں گے، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا ہے۔ بے نظیر بھٹو جہاں کھڑی ہوتی تھیں وہاں جلسہ ہوجاتا تھا ، لاہور اور کراچی میں بے نظیر بھٹو کے جلسوں کا آج تک کوئی ریکارڈ نہیں توڑ سکا ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو کبھی بھی تنظیم سازی کا موقع نہیں مل سکا وہ خود 11 سال تک جیل میں رہے اور بے نظیر بھٹو جلا وطنی میں رہی ہیں۔

ہمیں پارٹی کی تنظیم سازی کا موقع نہیں ملا ہے اب ہم ہر یونین کونسل ، محلے اور گاؤں تک انتہائی سائنسی بنیادوں پر ورکر تک رابطہ کریں گے اور ہر محلے اور گاؤں کی تصویرکمپیوٹر کے ایک کلک پر ہو گی۔ ا س ملاقات میں سابق صدر نے میاں منظور وٹو کا بطور خاص ذکر کیا ، وہ میاں منظوراحمد وٹو کی کارکردگی سے مطمئن ہیں اور پنجاب کی صدارت کیلئے انہیں ہی موزوں ترین شخصیت سمجھتے ہیں۔

اس سے یہی لگتا ہے کہ فی الحال آصف زرداری پنجاب کی قیادت کو تبدیل کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں اور جیالوں کو میاں منظور وٹو کے ساتھ ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ اشرف سوہنا اور اس کے ساتھیوں نے بلاول ہاؤس پارٹی اجلاس میں میاں منظور وٹو کے خلاف احتجاج بھی کیا لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس احتجاج سے منظور وٹوکی پارٹی پوزیشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آصف زرداری اشرف سوہنا کی بڑی عزت کرتے ہیں، ان کا تعلق ورکر کلاس سے ہے، آصف زرداری نے انہیں وزیر بھی بنوایا لیکن انہوں نے بلاول ہاؤس میں جو کچھ کیا آصف زرداری کو یقیناً دکھ ہوا ہوگا۔ سابق وزیر مملکت سید صمصام بخاری اور اشرف سوہنا کے اوکاڑہ کی مقامی پارٹی سیاست میں بھی میاں منظور وٹو سے اختلافات چل رہے ہیں۔

سابق صدر آصف علی زردری کے دورہ لاہور کے مثبت نتائج مرتب ہوئے ہیں۔ بڑی دیر بعد پارٹی قیادت نے پنجاب میں سیاسی سرگرمی دکھائی ہے، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اگلا میدان جنگ پنجاب ہی ہوگا۔ پنجاب میں ورکرز اپنے جو پرابلم محسوس کر رہے تھے وہ لیڈر شپ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے ہیں، لیڈر شپ نے اس کا جائزہ بھی لیا ہے۔ 30 نومبر کو بلاول بھٹو نے پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس پرلاہور آنا ہے اس کیلئے اچھا ہے کہ اس سے پہلے ہی ورکروں کی بھڑاس نکل گئی ہے۔

سابق صدر نے سیاسی میدان میں رول ادا کیا ہے، ملاقاتیں ہوئی ہیں، باقی جماعتیں جنہوں نے پیپلزپارٹی کو رائیٹ آف کردیا تھا کہ یہ ختم ہوگئی ہے اور سیاسی قوت نہیں رہی ہے سابق صدر کے دورے سے پیپلز پارٹی دوبارہ متحرک ہوئی ہے اور پیپلزپارٹی کاگراف اوپر گیا ہے۔ آصف زرداری اچھی طرح جانتے ہیں کہ پنجاب ہی مستقبل کی سیاست کا مرکز ہے۔ بلاول بھٹو بھی یہی چاہتے ہیں۔ اب پنجاب پیپلز پارٹی کو بھی اپنا متحرک اور جاندار کردار ادا کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔