عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے کیسے لڑنا ہے یہ ہم جانتے ہیں، سپریم کورٹ

نمائندہ ایکسپریس  جمعـء 31 اکتوبر 2014
کمیشن کے ذریعے تقرریوں سے متعلق نظرثانی درخواست پر فیصلہ محفوظ، اختیار وزیراعظم کو ہے تو نظام وضع ہونا چاہیے،جسٹس امیرہانی۔ فوٹو: فائل

کمیشن کے ذریعے تقرریوں سے متعلق نظرثانی درخواست پر فیصلہ محفوظ، اختیار وزیراعظم کو ہے تو نظام وضع ہونا چاہیے،جسٹس امیرہانی۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ای او بی آئی کو ڈی ایچ اے اور دیگر افراد وکمپنیوں سے خریدی گئیں جائیدادوں کا جائزہ لیکر انہیں اپنے پاس رکھنے یا واپس کرنے کے اس بارے میں حتمی فیصلہ کرکے30دن کے اندر رپورٹ دینے کی ہدایت کی ہے۔

جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے چیئرمین ای او بی آئی کوکہا اگر جائیدادیں واپس کرنی ہیں تو بورڈ اس بارے میں پالیسی بناکر تین دسمبر تک حتمی شکل دے، بینچ کا کہنا تھا عدالت عوام کے مفادکیلئے لڑے گی لیکن ای او بی آئی کے مفادات کا اصل تحفظ بورڈ نے خودکرنا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا ڈی ایچ اے کے وکیل عرفان قادر ہم سے لڑیں گے اور ہم بھی عوام کیلیے لڑیں گے،فاضل جج نے کہا بادی النظر میں غریب مزدوروں کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے اور اس سارے فراڈ میں ای او بی آئی نے دلال کا کردار ادا کیا۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا ای او بی آئی ڈیڑھ لاکھ مزدوروںکا ادارہ ہے، بورڈ نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس ادارے کوکس طرح چلانا ہے، مزدوروں کے مفاد کیلیے لڑنا ادارے کی ذمہ داری ہے، عدالت ان کے ساتھ کھڑی ہے لیکن ثبوت ادارے نے لاکر دینے ہیں،عوام کے مفادات کے تحفظ کیلیے کیسے لڑنا ہے یہ ہم جانتے ہیں،عوام کا اس سے بڑھ کر مفاد نہیں ہوسکتا کہ مزدوروں کے خون پسینے کی کمائی محفوظ ہو۔

ایڈن گارڈن کے وکیل طارق محمود نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق جائیدادکی اس خرید وفروخت میں مجرمانہ سرگرمی نظر نہیں آئی، سب کچھ قانون کے مطابق ہوا ہے۔عدالت نے مقدمے میں فریق بننے کیلیے خالد رشیدکی درخواست پر ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن اور ای او بی آئی کو نوٹس جاری کردیا۔سپریم کورٹ نے خود مختار اداروں کے سربراہان کی تقرریوں کیلیے کمیشن قائم کرنے کے فیصلے کیخلاف حکومت کی نظرثانی اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ آئین کا آرٹیکل19 حکومت کوکابینہ کے ذریعے کام کرنے کا اختیار دیتا ہے اور پارلیمانی جمہوری نظام میں اس کا سربراہ وزیراعظم ہوتا ہے جسے ان تقرریوںکا اختیار حاصل ہے مگرکمیشن کے قیام کے ذریعے وزیر اعظم کے اس اختیار پر قدغن لگادی گئی ہے ۔ اٹارنی جنرل نے مزید کہا چیئرمین پیمرا کا تقرر 4 سال کیلیے صدر کرتا ہے اور دوبارہ تقرری بھی ہو سکتی ہے جبکہ ارکان کے تقررکیلئے پیمرا کا اپنا قانون موجود ہے،اسی طرح اوگرا اور ایس ای سی پی چیئرمین کی تقرری حکومت کا اختیار ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔