(کھیل کود) - فلپ ہیوز کی موت نے دنیائے کرکٹ کو نمناک کردیا

محمود فیاض  جمعرات 27 نومبر 2014
  فلپ ہیوز کو ایک باونسر انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں لے گئی جہاں دو روز تک زندگی نے اپنی آخری کوشش کی اور بلآخر آج موت کی ابدی حقیقت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ فوٹو: اے ایف پی

فلپ ہیوز کو ایک باونسر انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں لے گئی جہاں دو روز تک زندگی نے اپنی آخری کوشش کی اور بلآخر آج موت کی ابدی حقیقت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ فوٹو: اے ایف پی

کرکٹ گراونڈز میں آج اداسی کے بادل چھا گئے ۔ چھبیس سالہ ابھرتے ہوئے آسٹریلوی کھلاڑی کو ڈومیسٹک میچ کے دوران ایک فاسٹ باولر سین ایبٹ کا باونسر انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں لے گیا جہاں دو روز تک زندگی نے اپنی آخری کوشش کی اور بلآخر آج موت کی ابدی حقیقت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ۔ جواں سال موت ہوتی ہی ایسی ہے ، اسکی اداسی اور دکھ ہر شخص محسوس کرتا ہے- یہی وجہ ہے کہ فلپ ہیوز کی موت نے نا صرف کرکٹ کے کھلاڑیوں اور شائقین کو اداس اور دکھی کیا ہے بلکہ اس حادثاتی سانحہ کا اثر ہر شخص محسوس کر رہا ہے ۔

کرکٹ کے بڑے کھلاڑیوں نے اپنے تعزیتی پیغامات میں دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اس حادثے کو ایک بڑا نقصان قرار دیا ہے اور اداسی اور دکھ کی لہر پوری دنیائے کرکٹ میں محسوس کی جا رہی ہے۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والے شارجہ ٹیسٹ کا آج کا کھیل کل تک کے لئے روک دیا گیا ہے ، جبکہ آسٹریلوی جھنڈا بھی سرنگوں رہے گا ۔

زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے اور دکھ کتنا بھی گہرا ہو وقت اسکو بھرنے میں ہمیشہ کامیاب رہتا ہے۔ لیکن زندگی سے بھرپور کھیل کے میدانوں سے موت کی خبر آنا کئی ایک سوالوں کو بھی ذہنوں میں ابھارتا ہے۔ کیا یہ ایک خطرناک کھیل ہے؟ کیا مزید حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے ؟ کیا کسی کھیل کو اس قدر جارحانہ ہونا چاہیے ؟ ویسے تو ہر کھیل میں ہی کچھ نا کچھ خطرے کا پہلو ہوتا ہے جو سنسنی خیزی کی حد تک ضروری بھی سمجھا جاتا ہے  لیکن ہر کھیل کی طرح کرکٹ میں ایسے قوانین بھی بنائے گئے ہیں جس سے اس طرح کے حادثے کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔  باونسر جو کہ فاسٹ بولر کا ایک خطرناک حربہ ہے اسکو بھی قوانین کی نکیل ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے  اور اب بولر ایک محدود تعداد میں ہی اس ہتھیار کا استعمال کر سکتا ہے۔ اسکے باوجود ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔

حفاظتی ہیلمٹ کی موجودگی کے باوجود  فلپ ہیوز کو لگنے والا باونسر جان لیوا ثابت ہوا ۔  یہ بات کھیل میں استعمال ہونے والے حفاظتی سامان کی کوالٹی پر بھی ایک سوالیہ نشان چھوڑتی ہے۔  ایک زمانے میں کھلاڑی حفاظتی ہیلمٹ کے استعمال بہت کم کرتے تھے۔  اکثر تو با لکل  نہیں کرتے تھے اور اس بات پر فخر بھی کرتے تھے کہ وہ تیز گیندوں کا سامنا ننگے سر کرتے ہیں۔  لیکن جیسے جیسے سر پر لگنے والی چوٹوں کے واقعات میں اضافہ ہوتا گیا سمجھدار کھلاڑیوں نے ہیلمٹ کا استعمال کرنا شروع کر دیا  بلکہ ہیلمٹ کے استعمال نے بلے بازوں کو خطرناک بولرز کے سامنے زیادہ اعتماد سے کھیلنے کا موقع دیا اور کرکٹ کی موجودہ تیزی میں کچھ ہاتھ کھلاڑیوں کا حفاظتی سامان پر اعتماد کا بھی ہے۔  لیکن اس حادثے کے بعد بہت سے کھلاڑی ہیلمٹ کے باوجود باونسر پھینکنے والے بولر کے دباؤ میں آ جائیں گے۔

اس بات کا کھوج لگایا جانا بھی ضروری ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں استعمال ہونے والا حفاظت سامان بھی کیا اسی معیار کا ہے جو انٹر نیشنل کرکٹ میں استعمال ہوتا ہے ؟ ایسے حادثات کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ حفاظتی سامان خصوصاً  ہیلیمٹ کے کوالٹی کو خاص طور پر چیک کیا جائے  اور  حفاظتی سامان بنانے والی کمپنیوں کو بھی ذمہ دار بنایا جائے تاکہ ایسے حادثات کی صورت میں انکے خلاف بھی کروائی کی جا سکتی ہے۔

جیسے ہر نیا حادثہ پرانے زخم بھی ہرے کر دیتا ہے  ویسے ہی فلپ ہیوز کی موت نے کرکٹ کے میدانوں میں ہونے والے سارے حادثے ایک بار پھر ذہنوں میں تازہ کر دیے ہیں- صرف پچھلے چند ماہ کے واقعات کو دیکھیں تو ہمیں ذوالفقار بھٹی  اور ڈیرن رنڈل جیسے کھلاڑی بھی یاد آ جاتے ہیں جو انہی میدانوں میں زخمی ہو کر جان کی بازی ہار گئے ۔ اسکے علاوہ  وہ جو پچھلے کچھ سالوں میں کرکٹ کی محبت میں ہی اس دنیا سے چلے گئے۔  ایان فولی جو سینے پر لگنے والی چوٹ کی ٹریٹمنٹ کے دوران ہارٹ اٹیک کا شکار ہو گیا- سید فاقر علی جو کھیلتے ہوئے دل کی بازی  ہار گیا ، ولفرڈ سلاک جو  چونتیس سال کی عمر میں زندگی سے ریٹائر ہو گیا ۔ اِس کے علاوہ بنگلہ دیشی کھلاڑی رامن لامبا جو فیلڈنگ کرتے ہوئے سر پر لگنے والی بال سے زخمی ہو کر کھیل کا میدان اور دنیا ایک ساتھ ہی چھوڑ گیا۔  وسیم راجہ جو سرے اوور ففٹی کا میچ کھیلتے ہوئے  بیہوش ہوئے اور پھر ہوش میں نہیں آئے۔

 کرکٹ کی دنیا ان سب ناموں کو اُس وقت تک یاد رکھے گی  جب تک کھیل کے میدان آباد رہیں گے لیکن آج کا دن اداس اور غمگین ہے ان سب کی یاد میں-

 نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔