امریکا میں سیاہ فام افراد کے ساتھ نا انصافی، ظلم اور نسل پرستی کی اندوہناک داستان

سید عاصم محمود  اتوار 14 دسمبر 2014
ابراہام لنکن نےغلامی کاخاتمہ تو کردیا مگرانکےنظریاتی وارث آج تک امریکا میں سفید فام اکثریت کی آمرانہ ذہنیت بدل نہ سکے۔ فوٹو : فائل

ابراہام لنکن نےغلامی کاخاتمہ تو کردیا مگرانکےنظریاتی وارث آج تک امریکا میں سفید فام اکثریت کی آمرانہ ذہنیت بدل نہ سکے۔ فوٹو : فائل

یہ 20 اگست 1955ء کی بات ہے، چودہ سالہ سیاہ فام لڑکا، ایمٹ ٹل اپنے نانا، موز رائٹ کے ساتھ امریکی ریاست ،مسیسیپی کے گاؤں، منی پہنچا۔ ایمٹ ٹل اپنی ماں کے ساتھ شکاگو رہتا تھا۔ وہ ایک کھلنڈرا اور شرارتی بچہ تھا۔ اپنی شرارتوں سے دوسروں کو ہنساتا اور خود بھی خوش ہوتا۔28 اگست کو وہ  رشتے دار دوستوں کے ساتھ گاؤں کے اکلوتے جنرل سٹور پر کچھ چیزیں خریدنے گیا۔ تب مالک دکان، رائے برائٹ کی 21 سالہ بیوی کیرولین گاہکوں کی مانگیں پوری کرنے میں مصروف تھی۔

اس زمانے میں امریکا بدستور نسل پرستی(Racism) کا شکار تھا۔ سیاہ فاموں سے اکثر جگہوں پر غیر انسانی سلوک ہوتا۔ عوامی مقامات پر ان کے لیے پانی پینے کی جگہیں الگ تھیں۔ وہ مخصوص سینماؤں میں فلم دیکھتے۔ ان کے محلے بھی علیحدہ تھے۔ حتیٰ کہ بعض ہوٹلوں کے باہر یہ بورڈ لگا ہوتا:’’ یہاں کتوں اور نیگروز کا داخلہ بند ہے۔‘‘ خصوصاً دیہی علاقوں میں مقیم سفید فام سیاہ فاموں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے۔ یہ تھا وہ نسل پرستانہ ماحول جب ایمٹ سٹل(Emmett Till) اور کیرولین کا ٹکراؤ ہوا۔

ایمٹ شکاگو کی شہری فضا میں پلا بڑھا تھا جہاں ماحول نسبتاً آزاد تھا۔ جب بچے گولیاں ٹافیاں خرید چکے، تو کیرولین انہیں دیکھنے دکان کے دروازے پر چلی آئی۔ ایمٹ نے یہ دیکھ کر اس کی طرف ہاتھ ہلایا، (گڈبائے ’’میم‘‘ کہنے کے بجائے) گڈبائے کہا اور پھر سیٹی بجاتا دوستوں کے ساتھ چل پڑا۔ دیہاتی عورت یہی سمجھی کہ ’’کالا لونڈا‘‘ اس سے فلرٹ کررہا تھا۔اسے اتنا شدید غصہ آیا کہ سامنے کھڑی اپنی کار کی طرف لپکی تاکہ بندوق نکال سکے۔ جیسے ہی اس نے بندوق تھامی، لڑکے قدرتاً اتنے خوفزدہ ہوئے کہ وہاں سے دڑکی لگاگئے۔ شہر ہوتا، تو شاید مالکہ دکان اس معمولی واقعے کو فراموش کردیتی مگر کیرولین نے اسے انا کا مسئلہ بنالیا۔

اس کا خاوند کسی کام سے قریبی قصبے گیا ہوا تھا۔ وہ 27 اگست کی شام واپس آیا۔ کیرولین نے رے برائٹ کو خوب نمک مرچ لگا کر واقعے کی تفصیل بتائی۔ رے کو شدید طیش آیا۔ اس نے اپنے سوتیلے بھائی، میلام کو ساتھ لیا اور رات دو بچے موز رائٹ کے گھر پہنچ گیا۔انہوں نے گن پوائنٹ پر خوفزدہ ایمٹ کو اغوا کیا اور اسے ایک دوست کے فارم پر لے گئے۔ وہاں انہوں نے لڑکے پر وحشیانہ تشدد کیا۔

اس کی آنکھوں پر پستول ماری اور ایک آنکھ باہر نکال دی۔ پھر چہرے پر گولیاں مار کر اسے ہلاک کر ڈالا۔ بعدازں لاش پنکھے سے باندھ کر دریا برد کرڈالی۔تین دن بعد مچھیروں نے لاش دریافت کرلی۔ سیاہ فام لڑکے کی مسخ شدہ لاش نے سبھی دیکھنے والوں کو متاثر کیا۔ دکھی اور دل گرفتہ ماں، میمی نے لاش شکاگو منگوانے پر اصرار کیا۔ نیز اس کی تمنا پر ایمٹ کو کھلے تابوت میں قبرستان لے جایا گیا۔ مدعا یہ تھا کہ شقی القلب سفید فاموں نے اس کے راج دلارے پر جو لرزہ خیز ظلم ڈھایا تھا،سبھی اس کا مشاہدہ کر سکیں۔

سیاہ فاموں کے اخبارات نے ایمٹ کے کٹے پھٹے چہرے کی تصاویر شائع کیں۔ نیز واقعہِ قتل کو تفصیل سے بیان کیا۔ یہ واقعہ اتنا خوفناک تھا کہ امریکا بھر کے سیاہ فاموں میں غم و غصہ پیدا ہوگیا۔ یہ عیاں تھا کہ دونوں سفید فام قاتل حسب روایت اپنے آپ کو برتر و اعلیٰ اور سیاہ فام مقتول کو غلام و گھٹیا مخلوق سمجھتے تھے۔ لہٰذا جب آزاد شہری ماحول میں پلے بڑھے سیاہ فام لڑکے نے ایک سفید فام دیہی عورت کے ساتھ معمولی مذاق کیا، تو ’’وائٹ سپرمیسی‘‘ اسے برداشت نہ کرسکی۔بہرحال مقامی پولیس نے دونوں قاتلوں کو گرفتار کرلیا۔ اس پر امریکا میں سفید فام برتری کی قائل تنظیموں نے شور مچا دیا۔

سفید فام میڈیا ایمٹ اور اس کی ماں پر مختلف الزامات لگانے لگا۔ مقصد یہی تھا کہ انہیں آوارہ مزاج اور بدمعاش ثابت کیا جاسکے۔ مقامی پولیس سفید فام افسروں  پر مشتمل تھی اور عدالت میں بیٹھے جج بھی! چناں چہ مقدمہ صرف پانچ دن (19 تا 23 ستمبر 1955ء) چلا…اور واضح شہادتوں اور ثبوتوں کے باوجود دونوں قاتلوں کو رہا کردیا گیا۔اس کھلی ناانصافی نے امریکی سیاہ فاموں کو مزید غم و غصے سے بھردیا۔ وہ پہلے ہی اپنے حقوق حاصل کرنے کی خاطر سول رائٹس تحریک چلا رہے تھے۔ اس انصاف کے قتل نے تحریک کو ایندھن فراہم کیا اور اسے جاندار و متحرک بنادیا۔ امریکی مؤرخین و صحافی لکھتے ہیں ’’ایمٹ ٹل کا کیس سیاہ فام سول رائٹس موومنٹ کا پہلا مقدمہ تھا جسے قومی شہرت ملی۔اس واقعہ پہ مشہور سنگیت کار و گلوکار،باب ڈائلن نے ایک نغمہ بھی لکھا :He was a black skin boy, So he was born to die.

اب امریکی سیاہ فاموں کو احساس ہوا کہ جب تک وہ ظلم کے خلاف عملی قدم نہیں اٹھاتے، سفید فام ان سے جانوروں جیسا سلوک کرتے رہیں گے۔ چناں چہ ڈھائی ماہ بعد منٹگمری شہر میں 42 سالہ سیاہ فام خاتون روزا پارکس نے بس میں سفید فاموں کے لیے نشست چھوڑنے سے انکار کردیا۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ انسان اور شہری ہونے کے ناتے اس کے حقوق کیا ہیں؟

امریکی سیاہ فاموں نے پھر مارٹن لوتھر کنگ کی زیر قیادت 1954ء تا 1968ء بھرپور انداز میں سول رائٹس تحریک چلائی اور اس دوران سفید فام اکثریت سے بزور اپنے کئی حقوق حاصل کرلیے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ تحریک متکبر اور جھوٹی انا کے مارے لاکھوں سفید فاموں کی ذہنیت نہیں بدل سکی… وہ آج بھی سیاہ فاموں کو جانور، قابل نفرت، غنڈہ، بدمعاش سمجھتے اور ان سے توہین آمیز سلوک کرتے ہیں۔یہ نسل پرستی امریکی پولیس اور نچلی عدالتوں میں سب سے زیادہ ہے۔

ایک  رپورٹ کے مطابق امریکا میں ’’ہر 28 گھنٹے بعد‘‘  امریکی پولیس کسی نہ کسی سیاہ فام کو گرفتار کرتی ہے۔ پولیس میں یہ نظریہ راسخ ہو چکا کہ سیاہ فام ہی ہر قسم کے جرائم میں ملوث ہیں۔ لہٰذا امریکی پولیس کی ذہنیت یہ بن چکی:

٭ ’’سیاہ فام… مجرم ہے تا ایں وہ اپنے آپ کو معصوم ثابت  کردے۔

٭ سفید فام… معصوم ہے، تا ایں اس پر جرم ثابت ہو جائے۔

امریکی سفید فام پولیس میں یہ ذہنیت اتنی زیادہ جڑ پکڑ چکی کہ اب وہ خصوصاً ہر غریب سیاہ فام کو مشکوک سمجھتے ،اس سے ذلت آمیز سلوک کرتے،حتی کہ معمولی بات پہ گولی مار دیتے ہیں۔حال ہی میں سفید فام پولیس افسروں نے معمولی جرائم میں ملوث سیاہ فاموں کو گولیاں مار دیں۔ان دلدوز واقعات  کے خلاف امریکی عوام نے زبردست مظاہرے کیے۔اسی ذہنیت کا اظہار سفید فام پولیس افسر ڈیرن ولسن نے عدالت میں کیا۔ 9 اگست 2014ء کی دوپہر موصوف نے امریکی شہر، فرگوسن میں ایک غیر مسلح 18 سالہ سیاہ فام لڑکے، مائیکل براؤن کو گولی مار دی۔ لڑکے کا ’’جرم‘‘ یہ تھا کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ گلی کے درمیان چل رہا تھا۔ بعدازاں ڈیرن ولسن نے عدالت میں بتایا ’’مجھے وہ ’’شیطان‘‘ محسوس ہوا… اور جب میں نے اسے گولیاں ماریں تو وہ اور زیادہ ڈراؤنا اور مکروہ ہوگیا۔‘‘

فرگوسن قصبے کی آبادی21 ہزار ہے۔ 1970ء میں یہاں 99فیصد سفید فام آباد تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ وہ ہجرت کر گئے اور ان کی جگہ سیاہ فام یہاں چلے آئے۔ چنانچہ آج قصبے کی 65 فیصد آبادی سیاہ فام اور 30 فیصد سفید فام ہے۔ اس طرح قصبے میں سیاہ فام اکثریت میں آ گئے۔

اس دوران فرگوسن کی مقامی پولیس میں اکثریت سفید فاموں کی رہی جو ’’وائٹ سپرمیسی‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔چناں چہ وہ معمولی باتوں پر سیاہ فام لڑکوں اور نوجوانوں کو پکڑ لیتے‘ انہیں گالیاں دیتے۔ یقیناً امریکی پولیس فورس میں اچھے سفید فام افسر و سپاہی بھی موجود ہیں‘ لیکن ان کی تعداد کم ہے۔ نیز وہ نسل پرستی کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھا پاتے۔

نسل پرست سفید فام افسروں کو تنگ کرنے کے لیے فرگوسن کے شرارتی سیاہ فام لڑکے چھوٹی موٹی غیر قانونی کارروائیاں کرنے لگے۔ مثلاً کسی سفید فام کے جنرل اسٹور سے کوئی معمولی شے چرا لینا، کوڑا سڑک پر پھینک دینا۔جب مائیکل براؤن اپنے دوست‘ ڈورین کے ساتھ بیچ سڑک پر چل رہا تھا تو یہ بھی ایک معمولی شرارت تھی ۔لیکن ڈیرن ولسن نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا۔

ڈیرن ولسن نے دونوں لڑکوں کو سائڈ پر چلنے کا کہا مگر انہوں نے سنی ان سنی کر دی۔ ولسن نے پھر پستول نکالا اور لڑکوں کو دھمکانا چاہا۔ براؤن بھاگنے کے بجائے اس سے گتھم گتھا ہو گیا۔ ولسن نے طیش میں آ کر کئی گولیاں غیر مسلح براؤن کے جسم میں اتار دیں اور وہ موقع پر ہی چل بسا۔ ولسن پر سفید فام برتری کابھوت سوار تھا۔ چنانچہ وہ ایک سیاہ فام کے ہاتھوں اپنی بے عزتی برداشت نہ کر سکا اور 18 سالہ لڑکے کو گولیوں سے بھون ڈالا… انسٹھ سال قبل ایمٹ نے بھی معمولی حرکت کی تھی مگرسفید فام انا  اپنی توہین برداشت نہیںکر سکی۔اب گرینڈ جیوری نے فیصلہ کرنا تھا کہ ڈیرن ولسن نے جرم کیا یا نہیں؟ یہ گرینڈ جیوری مقامی معززین پر مشتمل ہوتی ہے۔

سرکاری وکیل ان کے سامنے ثبوت و گواہ پیش کرتا ہے۔ گرینڈ جیوری عموماً چار پانچ دن میں فیصلہ کر لیتی ہے لیکن ڈیرن ولسن کے معاملے میں کیا ہوا؟وہ تین ماہ تک تفتیش کرتی رہی۔ اُدھر سرکاری وکیل بھی نسل پرستی کا پیروکار تھا۔ اس کی  کوشش رہی کہ کسی طرح ڈیرن پر مقدمہ نہ چلنے پائے۔ چنانچہ 24 نومبر کو گرینڈ جیوری نے قرار دیا کہ ڈیرن ولسن سے جرم سرزد نہیں ہوا… گویا وہ  بے گناہ قرار پایا۔ یوں سفید فام برتری کے جنون نے پھر عدل و انصاف کا خون کر ڈالا۔یہی ڈراما 3دسمبر کو بھی کھیلا گیا جب نیویارک پولیس کے سفید فام افسر،ڈئنیل پانٹالیو کو جیوری نے آزاد کر دیا۔پانٹالیو نے 17 جولائی کو 43 سالہ سیاہ فام،ایرک گارنر کا گلا گھونٹ کر اسے ہلاک کر دیا تھا۔مقتول غیر مسلح تھا اور ’’جرم‘‘غیر ٹیکس شدہ سگریٹ فروخت کرنا تھا۔

امریکا میں تقریباً چار کروڑ سیاہ فام بستے ہیں۔ ان کی اکثریت ایسے سیاہ فاموں کی اولاد ہے جو سترہویں صدی میں افریقا سے بہ حیثیت غلام امریکا لائے گئے۔ انیسویں صدی میں انہیں ابراہم لنکن کی صورت نجات دہندہ ملا جس نے امریکا میں غلامی کی لعنت کا خاتمہ کر دیا۔ لیکن وہ بھی سفید فام برتری کا تکبر اپنے ہم نسلوں کی سرشت سے ختم نہیں کر سکے۔سیاہ فام فرشتہ نہیں ،خصوصاً شہروں میں بہت سے کالے جرائم میں ملوث ہیں۔ لیکن  سیاہ فاموں کی اکثریت جرائم پیشہ کیوں ہے؟بڑی وجہ یہی ہے کہ آج بھی سفید فام اکثریت ہر سطح پر ان سے امتیازی سلوک کررہی ہے۔ امریکی انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹیں افشا کرتی ہیں کہ بنیادی شعبہ ہائے زندگی… تعلیم‘ ملازمت اور ہاؤسنگ میں سیاہ فاموں اور غیر امریکیوں کے ساتھ نسلی امتیاز برتا جاتا ہے۔ نتیجتاً ترقی کی راہ نہ پا کر کئی سیاہ فام نوجوان مجرم بن جاتے ہیں۔

مزید برآں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ امریکا کو پولیس اسٹیٹ بنا چکی۔ اب وہاں محض شک پر پولیس کسی بھی شہری کو گرفتار کر سکتی ہے۔ اس مسئلے کو اسلحے کے پھیلاؤ نے مزید گھمبیر بنا ڈالا۔ ایک رپورٹ کی رو سے آج امریکا میں ہر 100 میں سے ’’90‘‘ افراد کوئی نہ کوئی اسلحہ رکھتے ہیں۔ چناں چہ حال یہ ہو چکا کہ کوئی امریکی نفسیاتی مریض بن جائے‘ تو وہ اپنا اسلحہ نکال کر اجنبیوں کو بھون ڈالتا ہے۔ امریکی معاشرے کا یہ نیا رنگ و روپ بڑا عبرت ناک اور دوسرے معاشروں  کے لیے سبق آموز ہے جو امریکی مادہ پرستی اپنا رہے ہیں۔

نبی کریم ﷺکااعلانِ حق
امریکا متکبر سفید فاموں اور اقلیتی سیاہ فاموں کے مابین جس جنگ کانشانہ بنا ہوا ہے‘ اسے سوا چودہ سو برس قبل نبی کریم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے ذریعے ختم کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اے لوگو! کسی عربی کو عجمی یا کسی عجمی کو عربی پر‘ کالے کو گورے یا گورے کو کالے پر‘ آقا کو غلام یا غلام کو آقا پر کوئی فوقیت نہیں… بزرگی اور فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔‘‘

رحمت ا للعالمینﷺ نے درج بالا حکم کے ذریعے غلامی کو بھی ختم کر ڈالا جس سے غیر مسلم آج بھی نبرد آزما ہیں۔ امریکی معاشرے میں سیاہ فاموں سے نسلی و امتیازی سلوک نے اس لیے بھی جنم لیا کہ انہیں عدل و انصاف میسر نہیںآتا۔ امریکی قانون سفید فام سے نرمی جبکہ سیاہ فام سے سختی برتتا ہے۔ دین اسلام میں ایسے منافقانہ قانون کا بھی کوئی وجود نہیں۔ قرآن پاک میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے:

’’اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لیے سچی گواہی دو ،خواہ اس میں تمہارے یا تمہارے ماں باپ یا رشتے داروں کا نقصان ہو جائے۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر ( تو دونوں کا) خدا خیر خواہ ہے۔ تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کی راہ نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچیدہ (جھوٹی) شہادت دو گے یا شہادت سے بچنا چاہو گے ،تو جان لو ،خدا تمہارے سب اعمال سے واقف ہے۔ (سورہ النساء۔135)n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔