وہ فصل ِ گُل جو بن کھلے مر جھا گئی …

 اتوار 21 دسمبر 2014

میرا قلم، میری حیات آہ ! سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور ۔آہ ! معصوم بچے ۔آہ ! وہ پھول جو بن کھلے مرجھا گئے۔آہ! مائیں دروازے تکتی ہی رہ گئیں۔جن کو والدین نے پھول تک نہ مارا تھا ، نام نہاد مسلمانوں نے نہ جانے کس جرم کی پاداش میں اُنھیں گولیوں سے بھون ڈالا۔ابھی تو اسکول کا ٹائم بھی ختم نہیں ہوا تھا کہ اِجل نے آن گھیرا ۔ ابھی تو آنکھو ں نے خواب دیکھنا بھی شروع نہیں کیے تھے اور زندگی نے پلک جھپک لی ۔آہ ، آنسو ، آہیں، سسکیاں۔آہ ! 16 دسمبر ۔ جس نے اپنی سیاہ بختی کی روایات کو بر قرار رکھا اور 132 معصوموں کو نگل لیا ۔

وطن عزیز میں سورج کے طلوع ہوتے ہی ہر لب پر دعا ہوتی ہے یا رب آج کا سورج خوشیاں لے کر نمودار ہوا ہو ۔ 16 دسمبر کی صبح بھی حسب معمول اسی دعا سے نمودار ہوئی بچے اور بڑے معمول کے مطابق اپنی اپنی مصروفیات میں مگن ہوئے ہی تھے کہ اچانک نیوز چینلز پر بریکنگ نیوز کے ڈبے گھومنا شروع ہوگئے۔ خبر کے نشر ہوتے ہی ہر انسانی ذہن اور لب پر سُوال تھا ارے کوئی تو ان انسانی شکلوں والے حیوانوں سے پوچھے ان معصوموں کا کیا قصور تھا ؟انھوں نے کس کا کیا بگاڑا تھا ؟ یہ تو اتنے معصوم تھے ان ننھے فرشتوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اُن کا تعلق کس مکتبہ فکر سے ہے وہ تو خود کو فقط مسلمان سمجھتے تھے۔

یہ کم سن تو مذہبی و لسانی سوچ سے پاک تھے۔ آخر ان کا کیا قصور تھا ؟ ان کو کیوں اور کس تعصب کا نشانہ بنایا! خون میں رنگے کپڑوں کو دیکھ کر میری آنکھوں میں یہ سوچ کر آنسو آگئے، ابھی کچھ لمحے قبل اس کی ماں نے اپنے چاند کو اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ہوگا اور ان پھول سے رخساروں پر بوسا بھی دیا ہوگا جو اب اُس کے اپنے ہی خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔ اگر کسی بچے نے کہا ہوگا ماما میں آج اسکول نہیں جاؤنگی یا جاؤنگا تو ماں نے واپسی پر چاکلیٹ دینے کا وعدہ کیا ہوگا، شاید کسی بچے کا ٹیسٹ ہوگا اور وہ ماں سے یہ دعا لے کر گیا ہوگا۔

جس وقت یہ پُرسوز واقعہ پیش آیا ناجانے کتنی مائیں اپنے نونہالوں کے لیے اُن کی پسند کا کھانا تیار کر رہی ہوں گی ۔کوئی اپنے بچے کے کپڑوں پر استری کررہی ہوگی ۔ بڑے یا چھوٹے بہن بھائی اِن کا انتظار کر رہے ہونگے ، شاید کسی بچے نے صُبح اسکول جانے کی جلدی میں ناشتہ بھی نہیں کیا ہوگا ، شاید کسی نے اپنے والدین سے شام میں آوٹنگ پر جانے کا پروگرام بنایا ہوا ہوگا ، ہوسکتا ہے کسی بچے نے سردیوں کی چھٹوں کو بھرپور انجوائے کرنے کا پروگرام بھی بنایا ہوا ہو ۔ میٹرک کلاس کے بچے کتنی مرتبہ اپنے والدین سے مستقبل کی منصوبہ بندی شیئر کرچکے ہونگے۔ جس وقت یہ المناک واقعہ پیش آیا اُسوقت اسکول (آرمی پبلک ، پشاور) میں میٹرک کلاس کی الوداعی تقریب منائی جا رہی تھی۔

شاید نام نہاد مسلمان کے کلمہ پڑھنے کا حکم دینے سے چند لمحے قبل اُن معصوموں نے زندگی کے نئے دور کی ابتدا ء کرنے کے حوالے سے آپس میں گفتگو کی ہوگی۔کتنے چہروں پر اپنے روشن مستقبل کے حوالے سے مُسکان اُبھری ہوگی۔

میرا ذہن رات بھر اس پُرسوز واقعے کے متعلق سوچتا رہا ۔ اِن خیالات کی بوچھاڑ نے انسان ہونے کے ناطے مجھے رات بھرسونے نہیں دیا مگر چند انسانی شکلوں کے حیوان بہت آرام سے سوئے ہونگے کیونکہ وہ بڑے فخر سے اس انسانیت سُوز واقعے کی ذمے داری قبول بھی کرچکے۔ جب کہ اُس کی ماں کی آنکھ سے تو یقینا نیند روٹھ گئی ہوگی جس کا بچہ کل تک اُس کی گود میں مگر آج لحد میں سو رہا ہے۔ جب باپ نے اپنی پری کو سپرد خاک کیا ہوگا تو یقینا اُس کی لاشعور میں گونجنے والے الفاظ،بابا مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔

بابا میں نے دہشتگرد انکل سے بولا تھا، میری نیلی آنکھوں والی گڑیا لے لو، مگر مجھے چھوڑ دو! بابا میں نے دہشتگرد انکل سے یہ بھی بولا میرے بابا کو جب پتہ چلے گا تو وہ تم کو بہت ڈانٹیں گے ۔ مگر بابا ! انکل نے ایک نہ سُنی اور ماما کے ہاتھوں سے دُھلے میرے اسکول یونیفارم کو میرے ہی خون سے خون آلود کر دیا ۔

جب اس قسم کے الفاظ باپ کے شعور سے ٹکرا رہے ہونگے تو اُس کی کیا حالت ہوئی ہوگی ؟وہ باپ کیا سوچ رہا ہوگا صُبح جس کی اُنگلی پکڑ کر اسکول لے کر گیا تھا اب قبر کے حوالے کر رہا ہوں ۔ ماں کے ذہن میں اپنے لاڈلے ، لاڈلی کی پہلے دن سے آخری دن کی تصویر گھوم رہی ہوگی۔ بہن ، بھائیوں کی نگاہیں تلاش کر رہی ہونگی ۔

میرے کانوں میں احمد ندیم قاسمی کی نظم کے الفاظ گونج رہے ہیں

خدا کرے کہ میری اِرض پاک پر اُترے
وہ فصل گُل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

یہاں جو پُھول کھلے وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز جس کی کوئی مثال نہ ہو

خدا کرے کہ نہ خم ہو سر وقار وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

قاسمی صاحب کی اس دعائیہ نظم کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر موجودہ حالات پر نظر ڈالی جائے تو اپنا آپ افسوس کی کیفیت جکڑا محسوس ہوتا ہے ۔احمد ندیم قاسمی نے جس گُل اور سبزے کی سلامتی کی دعا مانگی اُس گُل اور سبزے کو دہشتگردوں کی خزاں رسیدہ کارروائی نے کھلنے سے پہلے مرجھا دیا ۔ میر ے وطن میں بلا ناغہ اسلام کے نام پر شب خون مارتے ہوئے میرے ہم وطنوں پر حیات تنگ کردی جاتی ہے ۔ روز کسی نہ کسی پُرسوز واقعے کی بنا پر وطن عزیز کا پرچم سرنگوں کر دیا جاتا ہے۔

مجھے گمان ہے کہ ماضی کی طرح حالیہ پُردرد واقعہ بھی تلخ یاد بنکر تاریخ کے اوراق میں گُم ہو جائے گا ۔آج ہر اخبار ہر چینل اس واقعے کو اہمیت دے رہا ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ واقعہ بھی اپنی اہمیت کھو دے گا۔ صحافی حضرات سے لے کر دیگر پروفیشن کے افراد کے ذہنوں میں یہ سانحہ کتاب کے پڑھے ہوئے ورق کی مانند پلٹا جائیگا مگر والدین ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی خیالی دنیا میں اپنے بچوں کو نوجوان پھر جوان ہوتا دیکھے گئے۔ہر سال جب اُن کی سالگرہ کا دن آئیگا وہ اُس کی یاد کا چراغ روشن کرینگے اُن کے لیے ہر 16 دسمبرکو قیامت کا دن بن کر آئیگا۔

ذرا سوچیں جب والدین اتنی تکلیف میں مبتلا ہونگے تو پھر کس طرح ممکن ہے اُن کے قاتل مکین جنت بنے۔ میرا ایمان ہے وہ انسانی چہروں والے حیوان تا قیامت دوزخ کا ایندھن بنتے رہیں گے کیونکہ ایک انسان کا قتل پوری انسانی کا قتل ہے جب کہ ان نام نہاد اسلام کے پیروکاروں نے تو ہر وہ ظلم کر ڈالا ہے جس کے بیان سے اہل دل کی روح کانپ جاتی ہے۔ ان ناعاقبت اندیشوں نے نہ جوانوں کو چھوڑا ، نہ صنف نازک کا لحاظ کیا۔

حد ہے اُن ادھ کھلے پھولوں تک سے اُن کی شگفتگی چھین لی جن کو ابھی مکمل کھلِنا تھا۔ جن کو جینا تھا جو اس ملک کا روشن مستقبل تھے ، شاید ان 132 نونہالوں میں سے کوئی ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرتا، کوئی انجینئر بن کر ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرتا، کوئی صحافی بنکر عوام کے سامنے سچائی بیان کرتا ، کوئی کھلاڑی بنکر دوسرے ممالک کے میدانوں میں وطن عزیر کا پرچم سربلند کرتا مگر افسوس صد افسوس نفرتوں کے کاشتکاروں نے امن کے پُھولوں کوکھلنے سے پہلے ہی ڈالی سے توڑ کر مسل ڈالا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔