بھوک اور غربت ختم کرنے کا نسخہ

ظہیر اختر بیدری  پير 2 مارچ 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

سندھ یونیورسٹی میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے زیر اہتمام منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مہران یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم عقیلی نے کہا ہے کہ زرعی ماہرین مل کر عالمی مسائل کا سائنسی حل نکالیں ۔

سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجیب الدین صحرائی  کا کہنا تھا کہ دنیا میں بھوک ایک عالمی مسئلہ بن گئی ہے، بھوک اور غربت کو ختم کرنے کے لیے زرعی اور لائیو اسٹاک کے شعبوں میں سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔ دونوں ڈاکٹر صاحبان کا تعلق چونکہ اعلیٰ تعلیم اور زرعی یونیورسٹی سے ہے اس لیے انھوں نے بجا طور پر اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ بھوک اور غربت کے خاتمے کے لیے زرعی اور لائیواسٹاک کے شعبوں میں سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔

اسلم عقیلی کہتے ہیں کہ ’’ماہرین‘‘ مل کر عالمی مسائل کا سائنسی حل نکالیں دونوں ڈاکٹر حضرات نے بڑے خلوص سے غربت اور بھوک جیسے مسائل کے حل کی خواہش کا اظہار کیا ہے اگر یہ خواہش ہمارے سیاسی لیڈران کرتے تو اسے روٹین کا عیارانہ بیان کہہ کر جان چھڑائی جاتی لیکن چونکہ یہ بیان یا خواہش غیر سیاسی اور سائنسی شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے ہیں لہٰذا انھیں روایتی دروغ گوئی نہیں کہا جاسکتا۔

ڈاکٹر صاحبان کے خیالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے خیال میں زرعی پیداوار میں اضافہ کرکے بھوک اور غربت کا علاج کیا جاسکتا ہے، یہ ایک پیشہ ورانہ ہی نہیں مخلصانہ خواہش ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ڈاکٹر صاحبان نے اس حقیقت پر نظر ڈالنے کی زحمت نہیں کی کہ ہماری منڈیاں اشیائے تعیش سے ہی نہیں بلکہ زرعی اجناس سے بھی بھری پڑی ہیں ۔گندم جیسی بنیادی خوراک کی بھرمار کا عالم یہ ہے کہ حکومت سندھ لاکھوں ٹن فاضل گندم انتہائی سستے داموں برآمد کرنے کی کوشش کر رہی ہے دوسرے اجناس کی بھی بفضل خدا ہمارے ملک میں کمی نہیں لیکن اصل مسئلہ اجناس کی فراوانی کا نہیں بلکہ قوت خرید کا ہے۔

ہماری آبادی کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ بنیادی ضرورتوں کی بھی قوت خرید سے محروم ہے، تو محض اجناس کی پیداوار میں اضافہ کرنے سے بھوک اور افلاس کیسے ختم ہوسکتا ہے۔ مثلاً باسمتی چاول کی پیداوار اتنی زیادہ ہے کہ اسے برآمد کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک کے غریب عوام باسمتی چاول عید بقر عید پر بھی اس لیے استعمال نہیں کرسکتے کہ 180 روپے کلو باسمتی خریدنا ان کے بس کی بات نہیں عام آدمی کی بات تو چھوڑیے ہماری مڈل کلاس بھی باسمتی چاول استعمال کرنے سے اس لیے معذور ہے کہ ان میں ان اشیا کی خرید کی قوت نہیں۔

اس طرح اصل مسئلہ محض اجناس کی پیداوار میں اضافہ نہیں بلکہ عام آدمی کی قوت خرید میں اضافہ ہے۔ اسے ہم بدقسمتی کہیں یا المیہ کہ ہمارے مخلص ڈاکٹر صاحبان جس شعبے سے تعلق رکھتے ہیں اس شعبے (زرعی) پر وڈیروں جاگیرداروں کا قبضہ ہے ملک کی زرعی زمین کا بہت بڑا حصہ ایک چھوٹے سے طبقے کے قبضے میں ہے اگر ہمارے زرعی ماہرین اپنی ماہرانہ کوششوں سے اجناس کی پیداوار میں اضافہ کرتے ہیں تو اجناس کی فروخت کا فائدہ بھی وڈیروں جاگیرداروں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے کیونکہ غریب ہاری کسان یا چھوٹے زمیندار کے پاس اتنی کم زمین ہوتی ہے یا ہوتی ہی نہیں کہ وہ اس پیداوار کو منڈی میں فروخت کرکے کروڑ پتی بن جائیں البتہ زرعی محققین کی کوششوں سے اجناس کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے تو وڈیروں جاگیرداروں کے بینک اکاؤنٹس ان کے پیٹوں کی طرح پھول جاتے ہیں غریب کا پیٹ خالی کا خالی ہی رہتا ہے۔

یہ المیہ نہ ملکی ہے نہ قومی بلکہ اس کی حیثیت عالمی اس طرح ہے کہ ہمارے معاشی نظام کے پسماندہ نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملکوں میں لاکھوں ٹن گندم محض منڈی میں گندم کی قیمتوں میں استحکام کے لیے سمندر برد کردی جاتی ہے یا جلا دی جاتی ہے یہ کوئی اتفاقی بات نہیں بلکہ یہ روٹین کی بات ہے چونکہ ہمارے مخلص ڈاکٹر صاحبان غیر سیاسی لوگ ہیں اس لیے وہ نہ بورژوا سیاست کے اسرار و رموز سے واقف ہیں نہ منڈی کی معیشت کے راز ہائے درون پردہ سے۔

ہمارے ڈاکٹر صاحبان اس بدنما حقیقت سے ضرور واقف ہوں گے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب نوآبادیاتی نظام ختم ہوا اور نوآبادیاں آزاد ہوئیں تو دیسی حکمرانوں نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ مغل دور کی بدترین باقیات جاگیردارانہ نظام کو ختم کردیا، جاگیردارانہ نظام کے خاتمے سے مزدور اور کسان وڈیروں کے پنجوں سے آزاد ہوا اور وہ ظلم وہ ناانصافیاں بھی ختم ہوئیں جو جاگیردارانہ نظام کا طرہ امتیاز تھیں۔ ایوب خان اور بھٹو نے زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن وڈیروں اور جاگیرداروں نے بیوروکریسی کی مدد سے زرعی اصلاحات کو ناکام بنادیا اور آج بھی ہزاروں ایکڑ زرعی زمین کا مالک وڈیرہ شان بان سے زندگی گزار رہا ہے ۔

ہمیں نہ محققین سے کوئی اختلاف ہے نہ زرعی ماہرین سے کوئی پرخاش۔ اختلاف یہ ہے کہ زرعی ماہرین جن کاوشوں جس محنت جس مہارت سے زرعی پیداوار میں اضافہ کرتے ہیں اس کا سارا فائدہ زرعی اشرافیہ کو ہوتا ہے ہاری اور کسان کو کوئی فائدہ اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ زیادہ پیداوار کے فوائد سے محروم رہتا ہے کیونکہ وہ قوت خرید سے محروم ہوتا ہے یا کردیا جاتا ہے ۔

اگر مہران یونیورسٹی اور زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے وائس چانسلر صاحبان اس حقیقت کو بھی جان لیتے کہ محض پیداوار میں اضافے سے غربت اور بھوک ختم نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے لیے ملک سے اس ظالمانہ جاگیردارانہ سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنا ضروری ہے جو اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کو قوت خرید سے محروم کرکے زیادہ پیداوار کے فوائد سے محروم کردیا ہے۔ جب تک یہ استحصالی نظام ختم نہیں ہوتا زرعی ماہرین کی مہارت وڈیروں کی دولت میں اور ہاریوں کسانوں کی غربت میں اضافہ کرتی رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔