بدقسمت ٹیسٹ کرکٹرامیرترین کیوی شخص بن گیا

اسپورٹس ڈیسک  منگل 28 اپريل 2015
1996میں ڈیبیوپرانگلی ٹوٹنے کے سبب ایک گیند بھی نہیں کی پربزنس میں کامیاب ہو گئے۔ فوٹو: فائل

1996میں ڈیبیوپرانگلی ٹوٹنے کے سبب ایک گیند بھی نہیں کی پربزنس میں کامیاب ہو گئے۔ فوٹو: فائل

ویلنگٹن: نیوزی لینڈ کیلیے پہلے ہی ٹیسٹ میں گریگ لووریج بیٹنگ کے دوران انگلیوں کا جوڑ تڑوا بیٹھے اور ایک گیند بھی نہ کرپائے، اس کے بعد انھوں نے کوئی پانچ روزہ میچ نہیں کھیلا،مگر پھر بزنس میں کامیاب ثابت ہوئے۔

21 ویں سالگرہ کے موقع پرگریگ لووریج ہیملٹن میں اپنے ڈیبیو ٹیسٹ پر بیٹنگ کے لیے گئے، انہوں نے ہنری اولنگا کو چوکا جڑدیا، البتہ اگلی ڈلیوری نے ان کیلیے سب کچھ تبدیل کردیا،وہ ان کے دائیں گلوز سے ٹکرائی جس سے ہاتھ کا جوڑ ٹوٹ گیا، لیگ اسپنر کو ایک گیند بھی کرنے کا موقع نہ ملا، پھر وہ دوبارہ کبھی نیوزی لینڈ کیلیے نہیں کھیل سکے۔

مگرپھر بزنس میں کامیاب رہے،ان کا نام نیشنل بزنس ریویو کی امیرترین افراد کی فہرست میں شامل ہے، وہ پراپرٹی کمپنی روبرٹ جونزہولڈنگس کے جنرل منیجر اور نیوزی لینڈ کے امیر ترین افراد میں شامل ہیں، ان کے اثاثے  52 ملین نیوزی لینڈ ڈالر کے ہیں، لووریج نے مختصر ٹیسٹ کیریئر کے بعد کچھ عرصہ اکیڈمی میں گزرا جہاں کوچز نے ان کا بولنگ ایکشن تبدیل کرنے کی کوشش کی، جب انھیں نیوزی لینڈ کرکٹ میں اپنا مقام نظر نہیں آیا تو وہ پڑھنے کیلیے انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی چلے گئے۔

جہاں سے واپسی پر ان کے کامیاب دور کا آغاز ہوا،لووریج کہتے ہیں کہ درد کی وجہ سے میں تقریباً بے ہوش ہوگیا تھا، میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ گراؤنڈ سے واپسی پر روتا رہا تھا، دوسرے دن میری سرجری ہوئی، اس کے بعد ٹیسٹ کیریئر ختم ہوگیا۔ کرکٹ سے دور لووریج نے نیوزی لینڈ میں ایک سیاسی تقریر نویس کے طور پر کام کیا، وہ ایک انٹرنیشنل اسکول میں استاد کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے۔

بھارت میں انھوں نے کرکٹ کلب آف انڈیا میں ٹریننگ دی اورسچن ٹنڈولکر کے ساتھ بھی ان کی رفاقت رہی، البتہ لووریج کی کرکٹ ان بلندیوں تک نہیں پہنچ سکی جس کے وہ اہل تھے۔ تین مرتبہ شولڈر انجری کے ساتھ انھوں نے اپنا آخری فرسٹ کلاس میچ 28 برس کی عمر میں کھیلا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔