تیزاب میں جھلستی روحیں

راؤ منظر حیات  ہفتہ 27 اگست 2016
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

نعیمہ کی چارسالہ معصوم بیٹی اسے جب بھی دیکھتی ہے، خوف اورڈرسے چیخیں مارنے لگتی ہے۔معصوم ثمینہ اپنی ماں کوپہچان ہی نہیں سکتی۔کوئی اجنبی شخص بھی جب نعیمہ کوپہلی باردیکھتاہے تووہ بھی شکل دیکھ کرخوف کے سمندرمیں ڈوب جاتاہے۔اس بدنصیب عورت کاپوراچہرہ مکمل طورپرمسخ ہوچکاہے۔داہنی آنکھ ختم ہوچکی ہے اوراس پرجلدچڑھ چکی ہے۔ماتھے،گالوں اورٹھوڑی پربڑے بڑے زخم ہیں۔یہ کوئی انسانی چہرہ نہیں لگتا۔ اوپروالاہونٹ مکمل طورپرختم ہوچکا ہے۔آج کی نعیمہ ہمارے سماجی رویوں کاوہ چہرہ ہے جو دراصل حقیقت پرمبنی ہے۔اوپرسے بہت خوبصورت اور دیدہ زیب۔تھوڑاساکھرچے تواندر گند ہی گند، مگرنعیمہ اس حال میں بھی قطعاًبدصورت نہیں ہے۔

مظفرگڑھ میں رہنے والی بدقسمت لڑکی عین جوانی میں بیوہ ہوگئی۔چندماہ بعد، نعیمہ کی شادی سابقہ شوہرکے بڑے بھائی سے کردی گئی۔وہ شادی شدہ تھااوراس کے چاربچے تھے۔دوسری شادی خاندان کی مرضی سے ہوئی تھی۔ یہ شادی ایک مجبورساسماجی معاہدہ تھا۔مگراس اعتراضات تھے۔دوسرے شوہرکی پہلی بیوی نعیمہ کوبدترین دشمن سمجھتی تھی۔سوکن کے بھانجے نے بازارسے تیزاب کی دو بوتلیں خریدیں۔نعیمہ اپنی بیٹی کے ساتھ آرام سے نیندمیں تھی۔کچے گھرکے باہرصحن میں اپنے مقدرسے مکمل طور پر بے خبر۔رات کی تاریکی میں جلادصفت بھانجاآیااورتیزاب کے دونوں ڈبے نعیمہ کے چہرے پرانڈیل دیے۔بدقسمت عورت کوپتہ ہی نہیں چلاکہ اس کے ساتھ کیاظلم روا ہوا ہے۔

چیخیں مارتی اٹھی۔محسوس ہواکہ چہرہ اورجسم آگ میں جل رہا ہے۔نعیمہ کاچہرہ پگھل چکاتھا۔دونوں آنکھوں کے ڈیلے باہرآچکے تھے ۔بیٹی نے والدہ کودیکھاتوخوف سے بے ہوش ہوگئی۔ نعیمہ ایک بھیانک چڑیل میں تبدیل ہوچکی تھی۔نعیمہ کاعلاج ہوا۔اسلام آبادتک آئی۔مگرغربت اورتنگ دستی کی بدولت کچھ نہ ہوسکا۔اسلام آبادکے ایک ادارے نے اس کی بہت مددکی۔مگرکوئی بھی اسکااصلی چہرہ واپس نہ لاسکا۔آج نعیمہ گاؤں میں اپنی والدہ کے ساتھ رہنے پرمجبورہے۔اس کی بچی اسے دیکھ کرخوف ذدہ ہوجاتی ہے۔ننھی بچی اپنی ماں کوپہچان ہی نہیں پاتی۔بدقسمتی یہ بھی ہے کہ نعیمہ کی والدہ مکمل طورپرگونگی اوربہری ہے۔چھ سال پہلے سرزدہونے والے اس ظلم کے مقدمے کااب تک فیصلہ نہیں ہوا۔نعیمہ اب کسی جگہ نہیں جاتی۔نہ کچہری اورنہ کسی بابوکے پاس۔اس نے اپنامقدمہ کائنات کے مالک کی عدالت میں اپنے خشک آنسوؤں سے تحریرکرکے دائرکردیاہے۔

بشریٰ کاتعلق لودھراں سے ہے۔والدایک دہاڑی دارمزدورتھا۔کبھی روزی مل گئی اورکبھی کبھی فاقہ پر گزارا کرنا پڑتاتھا۔اب وہ تیرہ سال کی تھی۔بستی میں جاوید نامی شخص بھی رہتاتھا۔جاویدتقریباًپچیس تیس کے لگ بھگ تھا۔ جاویدنے بشریٰ کوہرجگہ تنگ کرناشروع کر دیا۔ تیرہ سالہ بچی جہاں بھی جاتی،جاوید اس کا پیچھا کرتا۔ بشریٰ نے والد سے شکایت کی۔مگرایک دیہاڑی دار مزدور کی کیا اوقات ہوسکتی ہے۔یہ نظام توبناہی طاقتور اوربدمعاش انسانوں کے تحفظ کے لیے ہے۔ والدکی شکایت پرکچھ عمل نہ ہوا۔ جاویدنے پورے خاندان اوربالخصوص بشریٰ کوسبق سکھانے کافیصلہ کرلیا۔ بازارسے تیزاب خریدااور ایک پچکاری میںڈال کربستی کے عین درمیان،بشریٰ کے چہرے کے داہنی حصہ پرتیزاب پھینک دیا۔تیرہ سالہ بچی شدت تکلیف سے بے دم ہوگئی۔محسوس ہواکہ کسی نے اس کی دائیں آنکھ میں لوہے کی سلگتی ہوئی سلاخ ڈال دی ہے۔

دایاں گال پگھل گیا۔چہرے کے دوحصے ہوگئے۔ والد غربت کی بدولت کیا کر سکتا تھا۔ابتدائی علاج کروانے کے بعد بشریٰ نے خودہمت کی۔ اسلام میں موجودAcid Surviver Faoundation تک پوچھ پچھا کر پہنچ گئی۔خدااس ادارے کابھلا کرے، وہاں عرصہ دراز تک بچی کامسلسل علاج ہوتا رہا۔ لاتعداد آپریشن ہوئے۔بشریٰ نے ایک مضبوط فیصلہ کیا۔اپنی پوری زندگی ان بدقسمت عورتوں کے نام کردی جنکوکسی بھی وجہ سے اس کرخت معاشرہ میں تیزاب کی نذر کردیا جاتا ہے۔ بشریٰ نے تکلیف اورظلم کاجوسمندرعبورکیاہے اس اَلم نے بشریٰ کو حد درجہ مضبوط کرڈالاہے۔بشریٰ نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کواپنی قوت میں تبدیل کرڈالا۔ایک ادارہ اسے بنگلہ دیش لے گیا۔اس ملک میں ایسی بہت سی بدقسمت خواتین موجودہیں جنھیں تیزاب نے برباد کر ڈالا ہے۔ بشریٰ نے ان عورتوں کوبھی زندہ رہنے کا حوصلہ دیا۔ بشریٰ اب ان تمام عورتوں کے لیے امیدکی وہ کرن ہے جوانھیں جینے کی وجہ فراہم کرتی ہے۔

افشاں صرف اورصرف آٹھ برس کی تھی۔بڑی بہن ذکیہ سولہ سترہ برس کی ہوگی۔غربت کی مسلسل چکی میں پستے ہوئے بے نام ساخاندان۔ارشداسی بستی کا مقیم تھااور نزدیکی رشتہ داربھی تھا۔ارشدنے ذکیہ کے لیے رشتہ بھجوایا۔ خاندانی وجوہات کی بناپرذکیہ نے انکار کر ڈالا۔ ارشدکوتوقع نہیں تھی کہ اسکابھیجاہواپیغام مسترد ہوجائیگا۔ اب یہ اس کی اَناکامسئلہ تھا۔ افشاں کاخاندان تصوربھی نہیں کرسکتاکہ شادی سے یہ انکار،پورے گھر کو کتنے بڑے عذاب میں مبتلا کر دیگا۔ چند ماہ پہلے پورا خاندان اپنے گھرکے باہربرامدہ میں رات کھانے کے بعد بیٹھا ہوا تھا۔ارشداپنے دو ساتھیوں کے ساتھ آیا۔ ہاتھوں میں تیزاب کے ڈبے تھے۔انھوں نے پورے خاندان پر تیزاب ڈال دیا۔ افشاں اوراس کی والدہ مکمل طورپراس زہر سے جل گئے۔

مقامی اسپتال لے جایاگیا۔یہ سفرکسی ایمبولینس یاگاڑی میں نہیں ہوابلکہ پورے خاندان کوایک گدھاگاڑی میں لادکر اسپتال پہنچایا گیا۔ افشاں محض آٹھ ماں کی معصوم بچی تھی۔سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ اسے تختہ ستم کیوں بنایا گیا ہے۔باربارپانی منہ پرڈالتی تھی مگرجلن بڑھتی جاتی تھی۔ ذکیہ خوش قسمتی سے بچ گئی مگرماں زخموں کی تاب نہ لاسکی اور زندگی کی بازی ہار گئی۔افشاں کے جسم اورچہرے پر اتنے گہرے زخم تھے کہ اسے لاعلاج قراردے دیا گیا۔ چہرہ، ٹانگیں اورہاتھ سب کچھ ختم ہوگیا۔ٹانگیں اورگھٹنے آپس میں جڑسے گئے۔بازوصرف اورصرف گوشت کے لوتھڑے بن کررہ گئے۔آج تک اس کا آپریش نہیں ہوسکا۔وہ محض سانس لیتی ہوئی ایک مجسم لاش ہے۔

ہمارے ملک میں ہرسال ڈیڑھ سوسے چار سو تیزاب پھینکنے کے سنگین جرائم وقوع پذیرہوتے ہیں۔ ان میں نوے فیصدخواتین مجروح ہوتی ہیں۔اکثریت کی عمراٹھارہ برس سے کم ہوتی ہے۔تیزاب پھینکے کا مقصد اکثراوقات قتل کرنا نہیں ہوتابلکہ خاتون کوایک ایسے جہنم میں دھکیلنا ہوتا ہے جہاں وہ روزمرتی ہے اور روزجیتی ہے۔ہمارے نظام میں اس طرح کے قبیح جرائم کوختم کرنے کے لیے کوئی ریاستی عزم نظرنہیں آتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔