- غزہ صورت حال؛ امریکی وزیر خارجہ اہم دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے
- چیئرمین سنی اتحاد کونسل کا پی ٹی آئی کو اسمبلیوں سے استعفے کا مشورہ
- کراچی میں اگلے 3روز گرمی کی شدت میں اضافے کا امکان
- پنجاب حکومت کا کسانوں سے گندم نہ خریدنے کا اقدام ہائیکورٹ میں چیلنج
- غیر استعمال ریلوے اسٹیشنز اور یارڈز کی اراضی لیز پر دینے کا فیصلہ
- ملکی معیشت عالمی اتارچڑھاؤ کے باوجود بحالی کے راستے پر ہے، جمیل احمد
- عالمی عدالت سے اسرائیلی وزیراعظم کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کا امکان
- جسٹس بابر ستار نے خود کو آڈیو لیکس کیس سے الگ کرنے کی درخواستیں خارج کردیں
- خون دیجیے، زندگی بچائیے
- چینی وفد پاکستان آگیا، 4 ارب یوآن سرمایہ کاری کرے گا
- شرح سود کا تعین، مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا
- وزیراعظم کی بل گیٹس سے ملاقات، پاکستان میں جاری سرگرمیوں پر تبادلہ خیال
- براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری مسائل کا پائیدار حل نہیں
- پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں نیا ریکارڈ، پہلی بار 73 ہزار پوائنٹس کی سطح بھی عبور
- ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی20 سیریز میں مسلسل دوسری شکست پر منیبہ علی مایوس
- چیمپئنز ٹرافی کا مجوزہ شیڈول آئی سی سی کو ارسال، بھارت کے میچز شامل
- پاکستان کیلیے 1.1 ارب ڈالر کی قسط کی منظوری آج دیے جانے کا امکان
- چیئرمین پی سی بی کا ٹیم میں ’مسائل‘ کا اعتراف
- بھابھی نے شادی والے دن دلہا کو گرفتار کرادیا
- احسان اللہ کی انجری سے متعلق رپورٹ جلد بورڈ کو وصول ہونے کا امکان
مضر صحت کھانوں کی فروخت
کراچی میں ایک ریسٹورنٹ سے مضر صحت کھانا کھانے کے بعد5بچے جاں بحق ہوگئے، جبکہ والدین کو تشویشناک حالت میں اسپتال منتقل کردیا گیا ہے، جاں بحق ہونے والے بچوں کی عمریں ڈیڑھ سال سے 9 سال کے درمیان ہیں ۔
پولیس کے مطابق متاثرہ فیملی کا تعلق کوئٹہ کے علاقے خانوزئی سے ہے، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے زہریلا کھانا کھانے سے 5 بچوں کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے سندھ فوڈاتھارٹی سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ خاندان کی ہر قسم کی مددکی جائے، اس قسم کے واقعات ناقابل برداشت ہیں۔نہ یہ پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری ، اس شہر خرابی میں مضرصحت کھانا ، ڈھابوں، ریسٹورنٹس اورہوٹلز میں دھڑلے سے فروخت ہو رہا ہے، شہر کے کسی بھی اسپتال میں چلے جائیں،آپ کو مریضوں کا ایک ہجوم نظر آئے گا ۔
سندھ فوڈ اتھارٹی کے اہلکار تو اپنا حصہ بقدرجثہ وصول کرکے آنکھیں بند کرلیتے ہیں، البتہ ان کی آنکھ کسی سانحے کی خبرپرکھلتی ہے اور وہ دکھاوے کے لیے مذکورہ ہوٹل کو سربمہرکردیتے ہیں، چند دن میڈیا میں ذکر ہوتا ہے اور پھر خاموشی سے دوبارہ انسانی جانوں سے کھیلنے والے ہوٹل کی سیل کھول دی جاتی ہے، کچھ عرصہ قبل بھی ایک نجی ریسٹورنٹ سے کھانا کھانے کے بعد2 بچوں اور والدہ کی طبیعت خراب ہوگئی تھی، بچوں اور ان کی والدہ کو نجی اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں بچے جانبرنہ ہوسکے اور دم توڑ گئے، ایک بچے کی عمر ڈیڑھ سال اور دوسرے کی پانچ سال تھی، پھر خبر آئی کہ بچوں کے والد نے ریسٹورنٹ کے مالک کو معاف کردیا ۔
اندازہ کیجیے مضرصحت کھانا فروخت کرنے والی مافیا کی طاقت کا۔ حد تو یہ ہے کہ روزانہ لاکھوں کمانے والے کس طرح انسانی صحت اور انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں ،کوئی پوچھنے والا یا روکنے والا نہیں ۔ نہ کوئی محکمہ نہ کوئی حکومت ۔ کیسی اندھیر نگری ہے ، کیا دنیا میں کسی اور جگہ پر ایسا ہوتا ہے تو جواب آئے گا نہیں ۔
ہمارا مشرقی سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے، جوائنٹ فیملی سسٹم کب کا ختم ہوچکا، ریسٹورنٹس میں عوام کا رش دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شاید کسی گھر میں اب کھانا نہیں پکتا ۔ ہمیں گھر میں کھانا پکانے کی روایت کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا تاکہ معصوم بچوں کی زندگیوں کو بچایا جاسکے، جب کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملزمان کو قرار واقعی سزا دے ۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔