- 100 سال سے زائد پُرانے 20 ہزار سِکوں کی نیلامی کا اعلان
- مریخ پر انسانوں کو لے جانے والے تیز ترین راکٹ پر کام شروع
- پاکستانی مینز کرکٹرز ویمنز ٹیم کا حوصلہ بڑھانے لگے
- کینسر کے آخری اسٹیج میں علاج ’بیکار‘ ہوجاتا ہے، تحقیق
- مالی معاملات پر اختلاف، تربیلا ڈیم توسیعی منصوبے پر کام بند
- بینک اقتصادی ترقی کیلیے ترجیحی شعبوں سے تعاون بڑھائیں، وزیر خزانہ
- پراکسی ثابت کریں،فیصل واوڈا کا سپریم کورٹ جج کو پھر چیلنج
- پاکستان میں پروگروتھ فلیٹ ٹیکس پالیسی کے نفاذ کی ضرورت
- پاکستان پنشن سسٹم میں اصلاحات کرے، ایشیائی ترقیاتی بینک کا مشورہ
- ایران کے صدر ابراہیم رئیسی ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق
- سابق وزیراعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس گرفتار
- کرغزستان میں پھنسے طلبا سے متعلق تشویش ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- کرغزستان سے مزید ساڑھے تین سو طلبا وطن واپس پہنچ گئے
- اینٹی بائیوٹک ادویات کے بے تحاشہ استعمال سے پاکستان میں سالانہ 7 لاکھ اموت
- اسحٰق ڈار کا سعودی ہم منصب سے رابطہ، محمد بن سلمان کے دورے کی تیاریوں کا جائزہ
- ہیٹ ویو کا خدشہ؛ سندھ میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کی تاریخ آگے بڑھا دی گئی
- فالج کی تشخیص کے لیے نیا ٹیسٹ وضع
- آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ تیز مسافر طیارے پر کام جاری
- والدین نے بشکیک سے طلبا کو مفت لانے کے حکومتی دعوؤں کو جھوٹا قرار دے دیا
- ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے
بچوں کا تحفظ قانون سازی کے جال میں پھنس گیا
کراچی: ملک میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات بڑھ رہے ہیں لیکن بچوں کے تحفظ کیلئے بنایا گیا زینب الرٹ قانون قانون سازی کے جال میں پھنس گیا ہے۔
زینب الرٹ قانون کے نفاذ پر قانون سازوں(ارکان پارلیمنٹ) اور قانونی ماہرین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ اس قانون کے صوبوں کی حدود میں نفاذ کیلئے صوبائی اسمبلیوں سے منظوری کولازمی قراردے رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جب 2010 ء میں صوبائی خودمختاری کو تقویت ملی تب قانون سازی ، مالی اور انتظامی قابلیت کے لحاظ سے بچوں کی فلاح و بہبود کو صوبوں کو منتقل کردیا گیا تھا۔ مرکز کی قانون سازی کے اختیارات صرف دفاع ، کرنسی ، خارجہ امور وغیرہ تک محدود ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ترمیم شدہ آرٹیکل 142 (بی) مرکز کو مجرمانہ قانون ، طریقہ کار اور شواہد سے متعلق قانون سازی کا اختیار دیتی ہے۔پارلیمنٹ کا منظور کردہ قانون صوبائی قوانین پر غالب رہے گا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔