- ٹی20 ورلڈکپ 2024؛ پاک بھارت ٹیمیں سیمی فائنل تک نہیں پہنچیں گی
- ڈی جی خان؛ جھنگی پولیس چیک پوسٹ پر دہشتگردوں کا حملہ، 7اہلکار زخمی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ قومی ٹیم میں فرسٹ چوائس وکٹ کیپر کیلئے کانٹے کا مقابلہ
- ہم محنت کش جگ والوں سے!
- کراچی میں جمعے سے گرمی کی لہر میں کمی متوقع
- کراچی؛ تیز رفتار کار ڈمپر سے جا ٹکرائی، نوجوان جاں بحق، 4 زخمی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ آسٹریلوی اسکواڈ کا اعلان! مچل مارش مقرر
- کینیڈا میں تحریک خالصتان کے زور پکڑنے پر مودی سرکار شدید عدم تحفظ کا شکار
- وزیراعظم نے غیر ضروری خریدی گئی گندم کی تحقیقات کرانے کی منظوری دیدی
- دورہ آئرلینڈ و انگلینڈ؛ قومی ٹیم کا اعلان کل ہوگا
- میکسیکو میں چوہے کا سوپ بیچنے والی واحد دکان
- ایسٹرازینیکا کووِڈ ویکسین سنگین بیماری کا سبب بن سکتی ہے، کمپنی کا اعتراف
- لاکھوں صارفین کا ڈیٹا چُرا کر فروخت کرنے والے اکاؤنٹس پر پابندی عائد
- مالیاتی پوزیشن آئی ایم ایف کے معاشی استحکام کے دعوؤں پر سوالیہ نشان
- چینی پاور پلانٹس کے بقایاجات 529 ارب کی ریکارڈ سطح پر
- یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
- یکم مئی کے تقاضے اور مزدوروں کی صورت حال
- گھٹیا مہم کسی کے بھی خلاف ہو ناقابل قبول ہے:فیصل واوڈا
- چیمپئنز ٹرافی 2025؛ ٹیموں کو شیڈول بھیج دیا ہے، چیئرمین پی سی بی
- پنجاب کی بیورو کریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ، 49 افسران کے تبادلے
آکٹوپس اپنی بازؤوں سے کھانے کا ذائقہ محسوس کرتی ہیں
ہارورڈ: سمندر کی عجیب و غریب مخلوق آکٹوپس کے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ وہ اپنے آٹھ بازوؤں سے شکار یا غذا کو چاٹ کر اس کا ذائقہ محسوس کرتی ہے اور اس طرح زہریلی غذا کھانے سے بچ رہتی ہیں۔
سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ اس طرح کچھ آکٹوپس کے بازو گویا زبان کی طرح کام آتے ہیں اور ان سے غذا کو چاٹ کر کھانے کا ذائقہ محسوس کرتی ہیں۔ ان کے بازوؤں کے اندرونی طرف نرم ابھار یا ’’سکرس‘‘ ہوتے ہیں جو چپکنے کا کام کرتےہیں۔ ان کے اندر اعصابی خلیات کی بڑی مقدار ہوتی ہے۔ ایک جانب تو یہ خود اس مخلوق کو احساس دلاتے ہیں اور دوسری جانب بتاتے ہیں کہ آیا غذا اس کے لیے بہتر ہے یا مضر اور زہریلی ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے نکولس بیلونو نے کہا ہے آکٹوپس بغیر دیکھے شکار کرتی ہیں اور پتھروں کے یا سوراخوں کے اندر اپنے بازو ڈال کر شکار کو پکڑتی ہیں۔ نکولس اور ان کے محقق ساتھیوں نے کیلیفورنیا ٹو اسپاٹ آکٹوپس کا خردبینی اور سالماتی سطح پر جائزہ لیا ہے۔ ان میں سے پانی کے اندر کچھ سکرس چھونے اور کچھ غذا کا ذائقہ معلوم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان خلیات کی عصبی کنارے آخرکار سوچنے اور محسوس کرنے کے نظام تک جاتے ہیں۔
اس کے بعد ماہرین نے الیکٹروفزیالوجی کے عمل کا جائزہ لیا اور ان کے سامنے مختلف اقسام کے ذائقے اور بو شامل کی گئیں یہاں تک کہ پانی میں حل ہوجانے والے کڑوے مرکب ’کلوروکوائن‘ پر بھی آکٹوپس نے اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا۔
ہم جانتے ہیں کہ آکٹوپس سمیت کئی سمندری جانوروں میں پانی کے اندر سونگھنے کے اعضا ہوتے ہیں لیکن اب معلوم ہوا کہ آکٹوپس اپنے بازوؤں کے اندرونی حصے سے اپنے شکار کا ذائقہ بھی محسوس کرتی ہے۔ پہلے خیال تھا کہ ان کے منہ میں زبان جیسا ایک عضو ’ریڈیولا‘ یہ کام کرتا ہے لیکن بغور دیکھنے پر معلوم ہوا کہ ریڈیولا ذائقہ معلوم نہیں کرتا بلکہ یہ دانتوں کا کام کرتے ہوئے غذا کے ٹکڑے کرنے میں مدد دیتا ہے۔
اب ماہرین مان چکے ہیں کہ بازوؤں کے اندر موجود سکرس سے آکٹوپس اپنی خوراک کا احساس کرتی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔