- عدلیہ میں مداخلت کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ بار کا سپریم کورٹ سے رجوع
- مہنگائی کے دباؤ میں کمی آئی اور شرح مبادلہ مستحکم ہے، وزیر خزانہ
- پی ٹی آئی کی جلسوں کی درخواست پر ڈی سی لاہور کو فیصلہ کرنے کا حکم
- بابراعظم سوشل میڈیا پر شاہین سے اختلافات کی خبروں پر "حیران"
- پنجاب اسمبلی سے چھلانگ لگاکر ملازم کی خودکشی کی کوشش
- 9 مئی کے ذمے دار آج ملکی مفاد پر حملہ کر رہے ہیں، وزیراطلاعات
- کراچی میں تیز بارش کا امکان ختم، سسٹم پنجاب اور کےپی کیطرف منتقل
- ’’کرکٹرز پر کوئی سختی نہیں کی! ڈریسنگ روم میں سونے سے روکا‘‘
- وزیرداخلہ کا غیرموثر، زائد المیعاد شناختی کارڈز پر جاری سمزبند کرنے کا حکم
- راولپنڈی اسلام آباد میں روٹی کی سرکاری قیمت پر نان بائیوں کی مکمل ہڑتال
- اخلاقی زوال
- کراچی میں گھر کے زیر زمین پانی کے ٹینک سے خاتون کی لاش ملی
- سندھ میں گیس کا ایک اور ذخیرہ دریافت
- لنکن ویمنز ٹیم نے ون ڈے کرکٹ میں تاریخ رقم کردی
- ٹیم ڈائریکٹر کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیا؟ حفیظ نے لب کشائی کردی
- بشریٰ بی بی کی بنی گالہ سب جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست بحال
- کمر درد کے اسباب اور احتیاطی تدابیر
- پھل، قدرت کا فرحت بخش تحفہ
- بابراعظم کی دوبارہ کپتانی؛ حفیظ کو ٹیم میں گروپنگ کا خدشہ ستانے لگا
- پاک نیوزی لینڈ سیریز؛ ٹرافی کی رونمائی کردی گئی
آکٹوپس اپنی بازؤوں سے کھانے کا ذائقہ محسوس کرتی ہیں
ہارورڈ: سمندر کی عجیب و غریب مخلوق آکٹوپس کے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ وہ اپنے آٹھ بازوؤں سے شکار یا غذا کو چاٹ کر اس کا ذائقہ محسوس کرتی ہے اور اس طرح زہریلی غذا کھانے سے بچ رہتی ہیں۔
سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ اس طرح کچھ آکٹوپس کے بازو گویا زبان کی طرح کام آتے ہیں اور ان سے غذا کو چاٹ کر کھانے کا ذائقہ محسوس کرتی ہیں۔ ان کے بازوؤں کے اندرونی طرف نرم ابھار یا ’’سکرس‘‘ ہوتے ہیں جو چپکنے کا کام کرتےہیں۔ ان کے اندر اعصابی خلیات کی بڑی مقدار ہوتی ہے۔ ایک جانب تو یہ خود اس مخلوق کو احساس دلاتے ہیں اور دوسری جانب بتاتے ہیں کہ آیا غذا اس کے لیے بہتر ہے یا مضر اور زہریلی ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے نکولس بیلونو نے کہا ہے آکٹوپس بغیر دیکھے شکار کرتی ہیں اور پتھروں کے یا سوراخوں کے اندر اپنے بازو ڈال کر شکار کو پکڑتی ہیں۔ نکولس اور ان کے محقق ساتھیوں نے کیلیفورنیا ٹو اسپاٹ آکٹوپس کا خردبینی اور سالماتی سطح پر جائزہ لیا ہے۔ ان میں سے پانی کے اندر کچھ سکرس چھونے اور کچھ غذا کا ذائقہ معلوم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان خلیات کی عصبی کنارے آخرکار سوچنے اور محسوس کرنے کے نظام تک جاتے ہیں۔
اس کے بعد ماہرین نے الیکٹروفزیالوجی کے عمل کا جائزہ لیا اور ان کے سامنے مختلف اقسام کے ذائقے اور بو شامل کی گئیں یہاں تک کہ پانی میں حل ہوجانے والے کڑوے مرکب ’کلوروکوائن‘ پر بھی آکٹوپس نے اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا۔
ہم جانتے ہیں کہ آکٹوپس سمیت کئی سمندری جانوروں میں پانی کے اندر سونگھنے کے اعضا ہوتے ہیں لیکن اب معلوم ہوا کہ آکٹوپس اپنے بازوؤں کے اندرونی حصے سے اپنے شکار کا ذائقہ بھی محسوس کرتی ہے۔ پہلے خیال تھا کہ ان کے منہ میں زبان جیسا ایک عضو ’ریڈیولا‘ یہ کام کرتا ہے لیکن بغور دیکھنے پر معلوم ہوا کہ ریڈیولا ذائقہ معلوم نہیں کرتا بلکہ یہ دانتوں کا کام کرتے ہوئے غذا کے ٹکڑے کرنے میں مدد دیتا ہے۔
اب ماہرین مان چکے ہیں کہ بازوؤں کے اندر موجود سکرس سے آکٹوپس اپنی خوراک کا احساس کرتی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔