امیّ بمقابلہ ممیّ۔۔۔!

شمائلہ شفیع  منگل 1 فروری 2022
سماج میں بے غرض رویوں کے فروغ میں خواتین کا کردار اہم ہے۔ فوٹو : فائل

سماج میں بے غرض رویوں کے فروغ میں خواتین کا کردار اہم ہے۔ فوٹو : فائل

ہمارے مضمون کے عنوان سے کہیں آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم فروری میں ہی ماؤں کا عالمی دن منا رہے ہیں یا ماؤں کے حوالے سے کوئی جذباتی تحریر لکھ کر آپ کو بھی ٹسوے بہانے پر مجبور کریں گے اور خود بھی اس کارِِ خیر میں مصروف ہوں گے۔

نہ ہمارا مقصد کسی ’مارننگ شو‘ کی میزبان کی طرح آنسو بہا بہا کر ماں کی عظمت کا اعتراف کرنا ہے۔ خدانخواستہ کہیں ہماری اس تمہید سے آپ یہ بھی اخذ نہ کرلیں کہ یہ مضمون ماؤں کے خلاف  کسی ’’سازش‘‘ کے تحت تحریر کیا گیا ہے۔

نہیں جناب، نہیں! بات دراصل یہ ہے کہ ہماری ’’اَمیّوں‘‘ کو آج کل کی ’’مَمّیوں‘‘ سے بہت سی شکایات ہیں۔ بقول ’’اَمیّوں‘‘ کے آج کل کی ’’مَمیّاں‘‘ (مصر والی تو بالکل نہیں) پرورش کے اصولوں کو مدنظر نہیں رکھ پا رہی، جن کو مدنظر رکھتے ہوئے اَمیّوں نے پرورش کی۔ میں اَمیّ اور مَمیّ کی اصطلاح کو واضح کرنے کے لیے اسے دو مختلف ادوار میں تقسیم کر رہی ہوں، تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

یہ اَمیّ اور مَمیّ کی نئی اصطلاح آخر ہے کیا بلا۔۔۔؟ امیّ سے میری مراد 1990ء کی دہائی کی مائیں ہیں اور مَمیّ سے مراد زمانہ جدید کی مائیں یعنی 2010ء یا اس کے بعد بننے والی مائیں، جو اپنے لیے ممیّ، ممّا یا ماما جیسے الفاظ سے پکارا جانا پسند کرتی ہیں۔ اَمیّوں کو سب سے پہلا جو شکوہ مَمیّ سے ہے، وہ یہ ہے کہ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ اب ماں اور بچے کا رشتہ کمزور ہوگیا ہے۔ بچے اپنی ماؤں کو اپنا دوست تو سمجھتے ہیں، لیکن پھر سلوک بھی ویسا ہی کرتے ہیں۔ احترام کی جو لکیر ماں اور بچے کے درمیان کھچی ہوئی ہوتی ہے، وقت کی گردش نے اسے بہت دھندلا کر دیا ہے۔

امّیوں کا یہ بھی خیال ہے کہ نئی نسل کی مَمیّاں اپنے بچوں کی تربیت بھی اس طرح نہیں کرتیں، جس طرح ہم نے کی۔ ایک شکوہ یہ بھی ہے کہ مَمیّاں اپنی اولاد سے بات منوانے کے بہ جائے ان کے کہنے پر چلتی ہیں (گویا الٹی ہی گنگا بہہ رہی ہے) ہماری اَمیّاں مَمیّوں سے اس حوالے سے بھی خاصی ناخوش ہیں کہ نئی نسل کی یہ ممیّاں بچوں کو اپنا وقت دینے کے بہ جائے بچوں کو ٹی وی اور انٹرنیٹ کے حوالے کر دیتی ہیںِ۔

ہر گھر سے صرف ٹوں ٹوں، ٹاں ٹاں کی آوازیں (انگریزی اور بدیسی نظموں، ویڈیو وغیرہ)  آرہی ہوتی ہیں۔ اگر کسی کام میں مصروف ہوں تو ’’جان چھڑانے کے لیے موبائل پکڑایا اور گویا ہر قسم کی پریشانی سے نجات مل گئی اب بچہ ہوگا اور ہاتھ میں چند بالشت کی دنیا (موبائل)، لو جی جان ہی چُھوٹی! ایک شکوہ یہ بھی ہے کہ ان پر چیک اینڈ بیلنس جو کہ تربیت کا بنیادی اصول ہے، نظر انداز کر دیتی ہیں۔ اَمیّاں ہماری مَمیّوں کو اس بات پر بھی ٹوکتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ وہ لاڈ پیار کے نام پر بچے کی ہر ناجائز خواہشوں کو پورا کر دیتی ہیں۔

شکایات کی یہ لسٹ تو خاصی لمبی تھی، لیکن ہم نے اختصار سے کام لیتے ہوئے ان شکایات کو مَمیّوں کے گوش گزار کیا، تو مَمیّوں نے بھی اپنا دفاع کرتے ہوئے ’جوابِ شکوہ‘ کچھ کیوں کیا۔ بقول مَمیّوں کے نئے زمانے میں اصول بھی نئے لاگو ہوں گے۔ نئے زمانے ساتھ ہمیں (مَمیّوں) کو بھی چلنا پڑتا ہے۔ اَمیّوں نے جن اصولوں کو مدنظر رکھ کر ہماری تربیت کی، اگر ہم بھی انھی اصولوں کو اپنے بچوں پر لاگو کریں گے، تو انھیں زمانے سے پیچھے دھکیل دیں گے۔

ٹیکنالوجی کے جدید زمانے میں اگر ہم پرانے طور طریقے اپنائیں گے، تو اس کا نتیجہ محض ایک ’خلا‘ اور تصادم کی صورت میں نکلے گا، اِسے ہی ’’جنریشن گیپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ بقول مَمیّوں کے سوشل میڈیا، 3D اور 4D کے اس زمانے میں اگر ہم بچوں پر بے جا پابندیاں لگائیں گے، تو وہ نفسیاتی طور پر الجھن کا شکار ہوں گے اور جدید زمانے سے خود کو ہم آہنگ نہیں کر پائیں گے۔

’چیک اینڈ بیلنس‘ بلاشبہ ضروری ہے، لیکن اسے جدید طریقے سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ مَمیّوں نے اپنا دفاع کرتے ہوئے یہ موقف بھی اپنایا کہ آج کل کے دور میں بچوں کو باہر بھیجنے کا رسک نہیں لے سکتے، تو مجبوراً انھیں گھر پر روکنے کے لیے ’اسمارٹ فون‘ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

اس ’شکوہ‘ اور ’جوابِ شکوہ‘ میں کچھ مائیں اَمیّوں سے اتفاق کریں گی اور کچھ مَمیّوں سے۔۔۔ لیکن دیکھا جائے تو، دونوں طرف کے دلائل میں وزن ہے۔ اَمیّوں کو نئی مَمیّوں سے جو شکایات ہیں، وہ حقائق کی عکاسی کرتی ہیں۔ نئی مَمیّوں کے دلائل میں بھی کم وزن نہیں ہے، لیکن گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ ماں اور بچے کے تعلق میں فرق تو آیا ہے۔

شاید اظہارِ محبت اور تربیت کے طریقے بھی بدل گئے، لیکن یہ رشتہ آج بھی اتنا مقدس ہے، جتنا کہ پہلے تھا۔ یہ رشتہ نئی اور پرانی نسل کی مَمیّوں میں منقسم نہیں۔ یہ رشتہ آج بھی اتنا ہی مضبوط ہے، جتنا برسوں پہلے تھا۔ آج کی ماں بھی بچے کے درد پر اسی طرح بلبلا اٹھتی ہے، جیسے پرانے دور کی ماں تڑپ اٹھتی تھی۔ نئی نسل کی ماں بھی اپنے بچوّں کی خوشی کی خاطر قربانی دیتی ہے۔ ماں کا رشتہ تو ایک مقدس رشتہ ہے، جسے وقت کی دھول کبھی نہیں مٹا سکتی، نہ ہی اس کی اہمیت کم کر سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔