(پاکستان ایک نظر میں) - علم کا ’’اندھیرا‘‘

وقار احمد شیخ  جمعـء 22 اگست 2014
تعلیم کا یہ ’’اندھیرا‘‘ ہماری ذہین پود کے مستقبل کو دھیرے دھیرے نگلتا جارہا ہے. کوئی ہے اس طرف دھیان دینے والا؟. فوٹو فائل

تعلیم کا یہ ’’اندھیرا‘‘ ہماری ذہین پود کے مستقبل کو دھیرے دھیرے نگلتا جارہا ہے. کوئی ہے اس طرف دھیان دینے والا؟. فوٹو فائل

علم کی روشنی کی اصطلاح تو آپ سنتے آئے ہوں گے پھر یہ علم کا اندھیرا کیا ہے؟ کسی بھی قسم کی لفاظی کیے بغیر ہم اس خبر کا تذکرہ کرنا چاہیں گے جس میں گوجرانوالہ میں نویں جماعت کے چار طالب علموں نے خراب رزلٹ آنے پر زہر کی گولیاں کھا لیں، جس کے نتیجے میں 15 سالہ صائم جاں بحق ہوگیا جبکہ تین طالب علموں کو تشویش ناک حالت میں اسپتال داخل کردایا گیا ہے۔ علم کا یہ اندھیرا ان کی زندگی کو کیسے نگل گیا؟

یقیناً مایوسی گناہ ہے، ناکامی پر دلبرداشتہ ہوکر اپنی جان لینے کی کوشش بھی غلط ہے لیکن اس انتہائی اقدام کے پیچھے چھپے محرکات اور ان ناکام طالب علموں کی نفسیات کا تجزیہ کرنا بھی ازحد ضروری ہے۔ زندگی کے سب سے روپہلے دور میں جب امنگیں جوان ہوتی ہیں ایک نوعمر ذرا سی ناکامی پر اپنی ہی جان کے درپے کیوں ہوجاتا ہے؟ ایک ذرا تصور کیجیے، آپ پورا سال اپنی فیلڈ میں شدید محنت کرتے ہیں، اپنی کامیابی کے لیے زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھی نظرانداز کرکے اپنی تمام تر توجہ اپنے کام پر مبذول رکھتے ہیں، آپ کو پوری امید ہوتی ہے کہ جب یہ کام ختم ہوگا تو وہ کامیابی آپ کی تمام محرومیوں کا ازالہ کردے گی لیکن جب رزلٹ آتا ہے تو آپ کو یہ شاک لگتا ہے کہ واجبی کامیابی تو درکنار آپ فیل ہوچکے ہیں اور آپ کا وہ ساتھی جو پورا سال عیاشی سے وقت گزارتا رہا، جس نے اس کام کے لیے ایک ذرا محنت نہیں کی وہ نہ صرف کامیاب قرار پایا بلکہ تمام تعریف و ستائش بھی اس کے حصے میں آئی۔ ایسے میں آپ کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی؟ اور پھر یہ طالب علم تو ویسے ہی عمر کے ناپختہ دور میں تھے، ان طالب علموں کی ناکامی کے پیچھے ان کی نااہلی ہے یا کچھ اور عوامل کارفرما ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک کا ایجوکیشن سسٹم بھی بدترین کرپشن کا شکار ہے اور مخصوص مافیا نے اسے بھی کمائی کی جنس سمجھ لیا ہے۔

اسی سلسلے میں ہمیں ایک خط موصول ہوا ہے، ذرا اس کے مندرجات ملاحظہ کیجیے؛

’’جناب عالی! عرض یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے یہ سب آپ کو معلوم ہے، آپ سے عرض ہے کہ آپ اس بات کو ضرور اجاگر کریں گے جو میں لکھ رہا ہوں، یہ سو فیصد سچ ہے، آپ معلومات کرسکتے ہیں۔ہمارے انٹربورڈ پری میڈیکل، پری انجینئرنگ میں جو دھاندلی ہورہی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ اساتذہ کاپیاں چیک کرتے ہیں اور ایوارڈ لسٹ بناتے ہیں، اس لسٹ میں کٹنگ کرکے نمبر تبدیل کیے جارہے ہیں۔ آپ اپنے ذرائع سے ایوارڈ لسٹ کی کٹنگ اور اصل کاپی سے نمبر ملالیں۔ کاپی میں 10 نمبر ہیں اور ایوارڈ لسٹ میں کاٹ کر 70 اور 80 کردیئے گئے ہیں۔ وہاں یہ تین لاکھ روپے تمام مضامین کے نمبر بدلنے کے لے رہے ہیں۔ آپ لوگ لسٹ اور اصل کاپی نکلوا کر دیکھیں، حقیقت سامنے آجائے گی۔ سب مل کر کمائی کررہے ہیں، حق داروں کو حق نہیں مل رہا ہے۔ ایک طالب علم‘‘

اس خط میں کچھ نام بھی موجود ہیں جو ہم نے کاٹ دیے ہیں۔ اسی طرح کی اطلاعات پہلے بھی موصول ہوئی ہیں کہ امتحانی کاپیوں پر سے نام والا صفحہ الگ کردیا جاتا ہے اور مکمل حل شدہ پرچہ اس بچے کے نام کردیا جاتا ہے جس سے پیسے وصول کیے جاتے ہیں، نتیجتاً پورا سال محنت سے پڑھنے والا طالب علم پاسنگ مارکس بھی حاصل نہیں کرپاتا اور نااہل طالب علم کو پیسوں کے عوض کامیابی اور اچھا گریڈ مل جاتا ہے۔

ہم کئی ایسے طالب علموں سے واقف ہیں جنھوں نے اسکول لیول پر بے حد کامیابی حاصل کی، اپنی محنت سے نہ صرف ہر سال کامیاب ہوئے بلکہ نمایاں پوزیشن بھی حاصل کی لیکن بورڈ کے امتحان میں آتے ہی ان کا رزلٹ بری طرح متاثر ہوا، کچھ بمشکل کامیاب بھی ہوئے تو گریڈ بہت معمولی بنا۔ کیا آٹھویں جماعت سے نویں میں پہنچتے ہی ان کی ذہنی صلاحیتیں ماند پڑ گئیں یا پڑھائی کا شوق ان کے دل سے اتر گیا؟ ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ تمام ہی طالب علم بورڈ کے امتحان میں پہلے سے زیادہ پڑھائی اور محنت سے امتحان دے کر گھر پہنچتے تھے، اپنے پرچہ جات کے سوال اور جواب چیک کیا کرتے تھے اور خوش ہوکر اپنے متعلقین کو بتاتے تھے کہ ان کا پرچہ بہترین ہوا ہے بلکہ اضافی کاپیاں بھی لگائی ہیں۔ لیکن جب رزلٹ آتا تو ان کی تمام خوشی کافور ہوجاتی۔

جن طالب علموں کو اپنی صلاحیتوں پر ازحد ناز تھا وہ بورڈ میں پرچہ ری چیک کروانے کی درخواست بھی جمع کراتے لیکن ان کی کاپیاں یا تو غائب کردی جاتیں یا پھر تبدیل ہوچکی ہوتیں، ازراہ ہمدردی دوبارہ فیس جمع کروانے کے عوض ان طالب علموں کو پاسنگ مارکس دے کر رعایتاً پاس کردیا جاتا لیکن ان کی حقیقی محنت کا صلہ انھیں نہ ملتا۔ اس کرپٹ نظام میں کچھ خوش نصیب ذہین طالب علم ہی بنا کسی رشوت کے نمایاں رزلٹ لانے میں کامیاب ہوتے ہیں ورنہ زیادہ تر وہ ہوتے ہیں جنھیں ان کے والدین کا پیسہ یا پھر ’’ٹیوشن سینٹر مافیا‘‘ اپنی ساکھ بنانے کے لیے پوزیشن دلاتے ہیں تاکہ ان کا کاروبار بھی چلتا رہے۔ تعلیم کا یہ ’’اندھیرا‘‘ ہماری ذہین پود کے مستقبل کو دھیرے دھیرے نگلتا جارہا ہے اور نتیجتاً ایک دن یہ سرزمین باصلاحیت طالب علموں سے بنجر ہوجائے گی۔ کوئی ہے اس طرف دھیان دینے والا؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

وقار احمد شیخ

وقار احمد شیخ

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ کالم نگاری کے علاوہ کہانیوں کی صنف میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ اپنے قلمی نام ’’شایان تمثیل‘‘ سے الگ پہچان رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔