- جج کی دہری شہریت پر ایم کیو ایم، ن لیگ اور آئی پی پی اراکین قومی اسمبلی کی تنقید
- مولانا فضل الرحمٰن نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا
- فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر از خود نوٹس، سپریم کورٹ میں سماعت آج ہوگی
- خیبرپختونخوا میں لوڈشیڈنگ کا نیا شیڈول جاری کرنے پر اتفاق
- تاجر دوست اسکیم پر عملدرآمد کیلیے 6 بڑے شہروں کے ڈپٹی کمشنرز کو اہم مراسلہ جاری
- پاکستان معاشی استحکام کی جانب گامزن ہے، وزیر اعظم
- عرب ممالک کا سربراہی اجلاس، فلسطین میں جارحیت فوری روکنے کا مطالبہ
- ہاکی کےکھیل کی بہتری کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، وزیراعظم شہباز شریف
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں ڈیڑھ کروڑ ڈالرز کا اضافہ
- بلوچستان حکومت کا نوجوانوں کی فلاح و بہبود کیلیے فیسلیٹیشن سینٹرز بحال کرنے کا فیصلہ
- سچن ٹنڈولکر کے سیکیورٹی گارڈ نے خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- ’فلسطینیوں کی ہولناک نسل کشی‘: عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقا کے دلائل مکمل
- بانی پی ٹی آئی کا اڈیالہ جیل میں طبی معائنہ، بشری بی بی نے خون دینے سے انکار کردیا
- نیلم جہلم پراجیکٹ کی لاگت میں اضافہ؛ ذمہ داروں کے تعین کیلئے کابینہ کمیٹی بنانے کا اعلان
- آزاد کشمیر میں ہونے والی کشیدگی میں ہمسایہ ملک کا تعلق نکل رہا ہے، وفاقی وزیرداخلہ
- میں اپنے قانونی پیسے سے جہاں چاہوں آج بھی سرمایہ کاری کروں گا، محسن نقوی
- غزہ پر فوجی حکمرانی کا خواب؛ اسرائیلی کابینہ میں پھوٹ پڑ گئی
- قومی اسمبلی اجلاس: طارق بشیر نے زرتاج گل کو نازیبا الفاظ کہنے پر معافی مانگ لی
- پاکستان کو بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی مل گئی
- آئی او ایس اپ ڈیٹ کے بعد صارفین کو نئی مشکل کا سامنا
(دنیا بھر سے) - کیا انسان واقعی چاند پہ قدم رکھ چکا ہے؟
یہ 20 جولائی 1969 کا دن تھا ۔ پوری دنیا کی نظریں ٹی وی سکرینوں پہ جمی ہوئیں تھیں ۔ نیل آرمسڑانگ نامی امریکن خلا باز چاند کی سطح پہ پہلا انسانی قدم رکھتا ہے اور نیل آرمسڑانگ اس تاریخی لمحے کو یوں بیان کرتا ہے کہ ’’بے شک یہ انسان کا ایک چھوٹا سا قدم لیکن نسل انسانی کے لیے ایک بہت بڑی چھلانگ ہے‘‘۔
باقی دنیا کا تو پتا نہیں مگر پاکستان میں اس واقعے کا یہ اثر ہوا کہ والدین اپنی نکمی اولادوں کو ڈانٹنے کے لیے اس طرح کے فقرے استعمال کرنے شروع ہو چکے تھے کہ ’’دنیا چاند پہ پہنچ چکی ہے اور یہ نکما سارا دن سویا رہتا ہے ‘‘۔
امریکی اس کامیابی پہ پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اسوقت کے امریکی ٹی وی شوز میں ایسی باتیں ہورہی تھیں کہ اب بہت جلد اردگرد کے سیاروں کو بھی چند سالوں میں تسخیر کرلیا جائے گا اور وہاں انسانی بستیاں بسائی جائیں گی ۔اگر اس دور کے امریکی اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو ان میں ایسے آرٹیکلز چھپ رہے تھے جن میں کہا جارہا تھا کہ اگلے بیس سال تک عام انسان بھی چاند کا سفر کرنے کا اہل ہو جائے گا اور وہ وقت دور نہیں جب ہم گرمیوں کی چھٹیاں چاند پہ منایا کریں گے۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا چاند کی تسخیر کو کئی دہائیاں گزر گئیں مگر نہ تو کسی سیارے پہ انسانی بستیاں بسائی جا سکیں اور نہ چاند پہ گرمیوں کی چھٹیاں منانے کا خواب پورا ہوسکا ۔
ایک سروے کے مطابق چھ فیصد امریکی اور بیس فیصد روسی آج بھی اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ بیس جولائی 1969کو امریکی خلائی ادارے ناسا کا چاند پہ اترنا ایک فراڈ تھا۔ اس نظریے کے مطابق اس دور میں روس اور امریکا کی خلائی دوڑ لگی ہوئی تھی ۔ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا ۔ اس سے پہلے 13 ستمبر 1959کو روس بغیر کسی انسان کے اپنا خلائی جہاز Luna 2 چاند کی سطح پہ اتار کر دنیا بھر میں داد و تحسین حاصل کرچکا تھا لہذا اب امریکہ کے لیے دنیا میں عزت بے عزتی کا مسئلہ بن چکا تھا کہ وہ اس سے بڑھ کر کوئی کارنامہ سرانجام دے تو اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ہالی وڈ کے کسی خفیہ اسٹوڈیو میں یا بعض ماہرین کے مطابق شگاگو کے ایریا 51 میں سیٹ لگا کر انسان کے چاند پہ اترنے کا منظر فلمایا گیا۔ اس سلسلے میں بہت سے سوالات اور ثبوت ہیں جو کہ امریکی دعووں کو مشکوک اور ایسی تھیوریوں کو شک کا ایندھن فراہم کرتے ہیں۔
مثلاً20 جولائی 1969 کو نیل آرمسڑانگ نے چاند کی سطح پہ قدم رکھا تو پوری دنیا نے یہ منظر ٹی وی اسکرینوں پہ دیکھا۔ لیکن امریکی خلائی ادارہ یہ اہم ترین ٹی وی ٹرانسمیشن ضائع کرچکا ہے۔ جی ہاں آج اگر آپ 1947 میں بنی فلمیں دیکھنا چاہیں تو تھوڑی کوشش سے انکے اصل پرنٹ تک دستیاب ہو جاتے ہیں حتی کہ بابائے قوم قائداعظم کی بہت سی ویڈیوز اب تک با آسانی دستیاب ہیں لیکن امریکی خلائی ادارہ انسان کے چاند پہ اترنے کی سب سے اہم ویڈیو ضائع کرچکا ہے ۔صرف ویڈیوز ہی نہیں بلکہ بہت سی تصاویر اور چاند سے اکٹھے کیے گئے پتھروں کے نمونے بھی ’’گم‘‘ ہو چکے ہیں۔ اتنی صفائی سے تو کوئی قتل کے بعد ثبوت نہیں مٹاتا جتنی صفائی سے ناسا نے اپنی ہی ایک اہم ترین کامیابی کے ثبوت مٹائے یا ضائع کردیئے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی مگر حیرت انگیز طور پہ آج تک امریکہ میں اس پہ کوئی انکوائری بھی نہیں ہوئی کہ انسانی تاریخ کی اتنی اہم ترین کامیابی کے اتنے اہم ترین ثبو ت کیسے ضائع ہوگئے ؟
سب سے مزے کی بات یہ ہےکہ چاند کے جس ایریے کو دکھایا جارہا ہے وہاں بڑی زبردست لائٹنگ نظر آرہی ہے بالکل جیسے کسی اسٹیج پہ کوئی فنکار پرفام کرتا ہے تو صرف اسٹیج پہ لائٹ ہوتی ہے اور باقی ہال کی بتیاں بجھا دی جاتی ہیں ایسے ہی اگر نیل آرمسٹرانگ کی چاند پہ چہل قدمی کی تصاویر کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے جتنا ایریا دکھانا مقصود ہے وہاں پہ بہترین لائیٹ ہے جبکہ باقی جگہوں پہ اندھیرا ہے ۔
اس سلسلے میں ناسا کا موقف یہ ہے کہ یہ سب جھوٹی سازشی تھیوریاں ہیں ۔ چاند کے خلائی مشن سے تقریبا چار لاکھ لوگ وابستہ تھے ۔ کیا ان چار لاکھ لوگوں نے پوری دنیا کو بیوقوف بنایا ؟؟ اور پھر بہت سے غیر جانبدار خلائی ادارے اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ 20 جو لائی 1969کو واقعی امریکی خلاباز نیل آرمسڑانگ نے چاند کی سطح پہ قدم رکھا تھا ۔ اسکے جواب میں اعتراض کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ 20 جو لائی 1969 کو ایک خلائی جہاز چاند کے سفر کے لیے اڑا مگر کیا وہ چاند تک پہنچا ۔۔۔ یا نہیں؟ کیا انسان نے واقعی چاند پہ قدم رکھا یا نہیں یہ بحث پہلی دفعہ 1974 میں شروع ہوئی جب ایک امریکی خلائی ماہر Bill Kaysing کی کتاب We Never Went to the Moon: America’s Thirty Billion Dollar Swindle جو کہ 1976 میں شائع ہوئی جس میں جاندار اور مدلل سائنسی بحث سے ثابت کیا گیا تھا کہ کوئی انسان چاند پہ نہیں اترا یہ سب روس کو خلائی دوڑ میں نیچا دکھانے کے لیے ایک ڈرامہ تھا ۔
ایک اندازے کے مطابق The Flat Earth Society وہ پہلا ادارہ تھا جس نے اس کاز کو سب سے پہلے اٹھایا تھا کہ ناسا نے دنیا کو بیوقوف بنایا اور بے تحاشا ڈالر ایک جھوٹے پراجیکٹ پہ جھونک دیئے ۔
اس سلسلے میں جو سب سے حالیہ پیش رفت ہے وہ مشہور زمانہ فوکس نیوز کی ڈاکومنٹری Did We Land on the Moon? ہے جو کہ 2001 میں منظر عام پہ آئی اور یوٹیوب پہ بھی دستیاب ہے اس میں بھی تسخیر چاند کے متعلق ایسے چونکا دینے والے سوالات اٹھائے گئے ہیں جن کا جواب دینے سے ناسا کے ماہرین کتراتے ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔