پاک فوج کے سربراہ کا فکر انگیز خطاب

ایڈیٹوریل  جمعـء 5 دسمبر 2014
پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا یہ کہنا بالکل صائب ہے کہ پاکستان کو دفاعی لحاظ سے پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے، ہمارا دشمن ہم جیسا اور ہم میں ہی موجود ہے۔ فوٹو: فائل

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا یہ کہنا بالکل صائب ہے کہ پاکستان کو دفاعی لحاظ سے پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے، ہمارا دشمن ہم جیسا اور ہم میں ہی موجود ہے۔ فوٹو: فائل

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے جمعرات کو دفاعی نمائش آئیڈیاز 2014 کے سلسلے میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کے خلاف ہم پورے خلوص سے جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کے خاتمے کے لیے ہمارا عزم غیرمتزلزل ہے۔

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے اپنی کارروائی اس وقت تک بلا امتیاز جاری رکھیں گے جب تک دہشت گردی کی تمام شکلوں سے نجات حاصل نہیں کر لیتے‘ دہشت گردی کی تمام اقسام اور نظریات کو عوام کی مدد سے ختم کر کے دم لیں گے‘ غیر ریاستی عناصر کی وجہ سے اندرونی سیکیورٹی متاثر ہو رہی ہے ان پر قابو نہ پایا گیا تو صورت حال گمبھیر ہو سکتی ہے، معاشرے کو دہشت گردوں کے نظریات سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام محاذوں پر کردار ادا کرنا ہو گا۔

پاکستان گزشتہ کئی عشروں سے دہشت گردی کی کارروائیوں کے باعث حالت جنگ میں ہے اور اس نے اس جنگ میں بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ پہلے دہشت گردی کا دائرہ ایک حد تک محدود تھا مگر غیر سنجیدہ ریاستی رویے اور بعض طاقتور اندرونی قوتوں کی مدد سے یہ بڑھتے بڑھتے اس مقام تک پہنچ گیا کہ اس پر قابو پانے کے لیے اب باقاعدہ جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔ دہشت گردی اب مختلف بھیس اور شکلیں اختیار کر چکی اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس طرح سرائیت کر چکی کہ اس کی پہچان مشکل ہو چکی ہے۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا یہ کہنا بالکل صائب ہے کہ پاکستان کو دفاعی لحاظ سے پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے، ہمارا دشمن ہم جیسا اور ہم میں ہی موجود ہے۔ اب تک دہشت گردی کی جو کارروائیاں ہوئی ہیں ان کی تحقیق کے دوران یہ بات منظر عام پر آئی کہ دہشت گردوں کو اندرونی عناصر کی مدد حاصل تھی جس کے باعث انھیں دہشت گردی کی کارروائیوں میں سہولت ملی‘ بعد میں دہشت گردوں کے بعض معاونوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ یہ ایک متوشش اور پریشان کن صورت حال تھی کہ دہشت گردوں کے معاون ہمارے اندر موجود تھے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی پہچان ایک مشکل امر ہے کیونکہ ہمارے یہ دشمن ہم جیسے اور ہم میں ہی موجود ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ نے ملک کو دہشت گردی کے حوالے سے درپیش مختلف شکلوں اور ہیئت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ملکی سیکیورٹی کو این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سے بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں موجود دہشت گردی کے عفریت کو بھی بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ غربت‘ بیروز گاری‘ فوڈ سیکیورٹی اور پانی کی کمی بھی نئے سیکیورٹی چیلنج ہیں‘ مذہبی اور گروہی شناخت بھی جنگوں کی نئی وجوہات بن رہی ہیں۔ یہ بات بھی منظر عام پر آ چکی ہے کہ غربت اور بیروز گاری بھی دہشت گردی کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں کیونکہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والا مافیا پیسے کا لالچ دے کر مجبور اور حالات سے ستائے ہوئے بیروز گار نوجوانوں کو دہشت گردی کی طرف مائل کرتا ہے۔

دوسری جانب ایک ایسا مافیا بھی موجود ہے جو مذہبی عقائد کی من مانی تشریح کر کے دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے‘ علاوہ ازیں ایسے سیاسی گروہ بھی موجود ہیں جو سیاسی حقوق اور قومیت کے نام پر نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اب دہشت گردی کا دائرہ بہت وسیع ہو چکا ہے اور اس سے نجات پانے کے لیے پاکستان کو ایک طویل جنگ لڑنا پڑے گی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومتی وسائل اور میکنزم اس جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کافی ہے ،کیا اس میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ زندگی  کے مختلف شعبوں میں مختلف بھیس بدل کر کام کرنے والے دہشت گردوں کو بھی قانون کے شکنجے میں کس سکے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے اسی مسئلے کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے موجودہ میکنزم ناکافی ہے ہمیں اپنے نظریات اور کلچر کے تحفظ کے لیے کام کرنا ہو گا۔

حکومت اپنے محدود وسائل کے باوجود دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے مگر دہشت گردی جتنے بھیس اور شکلیں بدل چکی ہے اس سے نمٹنے کے لیے حکومت کو بھی اپنی روایتی پالیسی میں تبدیلی لانا ہو گی کیونکہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ موجودہ پالیسیاں دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے موثر کردار ادا نہیں کر رہیں۔ دہشت گردی کی مختلف شکلوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے حکومت کو سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے علاوہ گراس روٹ لیول پر عوام کا تعاون بھی حاصل کرنا ہو گا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی  ملک کا بیرونی دفاع اسی وقت مضبوط ہوتا ہے جب اس کا اندرونی دفاع مضبوط ہو، اگر داخلی صورت حال کو بہت سے خطرات لاحق ہوں تو سرحدی دفاع کے لیے خطرات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی سلامتی اور بقا اسی میں ہے کہ دہشت گردی کو کسی بھی شکل میں پرموٹ کرنے والے گروہوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے۔ اگرچہ یہ ایک پیچیدہ اور طویل جنگ ہے اور مزید قربانیوں کی متقاضی ہے‘ اگر ارادے پرعزم اور غیر متزلزل ہوں تو کامیابی قدم ضرور چومتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔