- گھٹیا مہم کسی کے بھی خلاف ہو ناقابل قبول ہے:فیصل واوڈا
- چیمپئنز ٹرافی پاکستان میں ہی ہوگی، ٹیموں کو شیڈول بھیج دیا ہے، چیئرمین پی سی بی
- پنجاب کی بیورو کریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ، 49 افسران کے تبادلے
- یوم مزدور پر صدر مملکت اور وزیراعظم کے پیغامات
- بہاولپور؛ زیر حراست کالعدم ٹی ٹی پی کے دو دہشت گرد اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک
- ذوالفقار علی بھٹو لا یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے لیے انٹرویوز، تمام امیدوار ناکام
- پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان
- گجر، اورنگی نالہ متاثرین کے کلیمز داخل کرنے کیلیے شیڈول جاری
- نادرا سینٹرز پر شہریوں کو 30 منٹ سے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا، وزیر داخلہ
- ڈونلڈ ٹرمپ پر توہین عدالت پر 9 ہزار ڈالر جرمانہ، جیل بھیجنے کی تنبیہ
- کوئٹہ میں مسلسل غیر حاضری پر 13 اساتذہ نوکری سے برطرف
- آن لائن جنسی ہراسانی اور بلیک میلنگ میں ملوث ملزم گرفتار
- انکم ٹیکس جمع نہ کروانے والے پانچ لاکھ سے زائد شہریوں کی موبائل سمز بلاک
- میئر کراچی کا وزیراعظم کو خط، کراچی کے ٹریفک مسائل پر کردار ادا کرنے کی درخواست
- رانا ثنا اللہ وزیراعظم کے مشیر تعینات، صدر مملکت نے منظوری دے دی
- شرارتی بلیوں کی مضحکہ خیز تصویری جھلکیاں
- چیف جسٹس مداخلت کاروں کی خاموش سرپرستی کے بجائے تمام تجاویز سامنے لائیں، پی ٹی آئی کا مطالبہ
- کراچی پولیس کا اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ
- ججز کے خط سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں پشاور ہائیکورٹ کی تجاویز سامنے آگئیں
- آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ میں منتقل
’ بھوت مسافر‘
مارچ 2011ء میں آنے والے سونامی نے جاپان کے مشرقی حصوں میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی تھی۔ 140 میٹر تک بلند سمندری لہروں نے ساحلی علاقوں کے اندر دس کلومیٹر تک بربادی کی ہولناک داستانیں رقم کی تھیں۔ بپھری ہوئی لہریں سولہ ہزار انسانی جانیں نگل گئی تھیں۔ جاپانی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سونامی سے 127000 سے زائد عمارتیں زمین بوس ہوگئی تھیں، جب کہ پونے تین لاکھ کے لگ بھگ عمارتیں اور مکانات جزوی طور پر منہدم ہوئے تھے۔ جاپان کے مشرقی ساحلی علاقوں میں اس تباہی و بربادی کے نشانات ہنوز موجود ہیں۔
جاپانی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق سونامی کی زد میں آنے والے علاقوں میں عجیب و غریب واقعات تواتر سے پیش آرہے ہیں، بالخصوص ٹیکسیوں میں بھوتوں کے سفر کرنے کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔ ان داستانوں کی حقیقت جاننے کے لیے توہوکو یونی ورسٹی میں سماجیات کی طالبہ یوکا کوڈو نے شہر کے سو سے زائد ٹیکسی ڈرائیوروں سے گفتگو کی۔ بیشتر نے ’بھوت مسافروں‘ کے موضوع پر بات چیت سے انکار کردیا۔ البتہ سات ڈرائیوروں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے عجیب وغریب واقعات پر لب کشائی کی۔
یاکی شورا نامی ڈرائیور نے طالبہ کو بتایا کہ 2011ء کے موسم گرما کی بات ہے ایک عورت اس کی ٹیکسی میں اشینوماکی اسٹیشن سے سوار ہوئی۔ اس نے لمبا کوٹ زیب تن کر رکھا تھا۔ گرمیوں میں اس عورت کے کوٹ پہننے پر یاکی کو اچنبھا ہوا مگر اس بابت وہ سوال نہیں کرسکتا تھا۔ اجنبی خاتون نے اس سے کہا،’’ میامیہاما اسٹیشن چلو‘‘۔ جب یاکی شورا نے خاتون سے کہا کہ سونامی کے بعد اس علاقے میں کچھ بھی نہیں بچا تو یکدم وہ چلّا کر بولی،’’ کیا میں مَر گئی ہوں؟‘‘ اس پر یاکی نے گھبرا کر گردن گھمائی تو پچھلی سیٹ پر کوئی موجود نہیں تھا!
ایک اور ڈرائیور نے یوکا کو بتایا ،’’ وہ ایک نوجوان تھا۔ اندازاً اس کی عمر بیس سال رہی ہوگی۔ ٹیکسی میں بیٹھنے کے بعد اس نے بس اتنا کہا کہ آگے چلو۔ کچھ دور جانے کے بعد میں نے پوچھا کہاں جانا ہے تو اس نے آگے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چلتے رہو۔ کچھ دیر کے بعد میں نے پھر اس سے منزل کی بابت استفسار کیا تو جواب ملا’ ہیوریاما کی پہاڑی‘۔ جب میں نے وہاں پہنچ کر بیک ویو مرر میں نظر دوڑائی تو پچھلی نشست خالی تھی۔‘‘
یاکی شورا کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات بہت سے ڈرائیوروں کے ساتھ پیش آچکے ہیں مگر وہ کھلے عام، بالخصوص ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ اس بارے میں بات کرتے ہوئے خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں اگر اس بارے میں زبان کھولی تو ’ بھوت مسافر‘ انھیں نقصان بھی پہنچاسکتے ہیں۔
یاکی شورا اور دوسرے ڈرائیور اپنے دعوے کے درست ہونے کی دلیل میں میٹر کا ریکارڈ پیش کرتے ہیں۔ مسافر کے ٹیکسی میں بیٹھتے ہی ڈرائیور میٹر چالو کردیتے ہیں جس کی ریڈنگ ریکارڈ ہوتی رہتی ہے۔ اس ریکارڈ کی بنیاد پر ڈرائیور ٹیکسی سروس کو ادائیگی کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ’ بھوت مسافروں‘ کے غائب ہوجانے کے بعد ان کے حصے کی ادائیگی ڈرائیوروں نے کی تھی۔ کچھ نے تو لاگ بُک میں اپنے اپنے تجربے کا ذکر بھی کرڈالا تھا۔
ٹیکسی ڈرائیوروں سے بات چیت کے بعد کوڈو کو معلوم ہوا کہ تمام ’ بھوت مسافر‘ تیس سال سے کم عمر کے تھے۔ کوڈو کو یقین ہے کہ یہ تمام ’ مسافر‘ سونامی کا نشانہ بنے تھے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔