زندگیوں میں زہر

فرح ناز  ہفتہ 15 اپريل 2017
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

انسان معاشرتی حیوان ہے، تمام فکروں، غموں، خوشیوں اور بہت سارے کاموں کے بعد اس کو اپنے من پسند شوق بھی چاہیے ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ نفسیاتی مسائل منفی شوق بھی پیدا کردیتے ہیں۔  مگر یہاں ہم انسانوں کے کام کاج، فکر اور غم سے کچھ دیر کے لیے نجات دینے والے شوق، یا اس کی من پسند تفریحات کی بات کر رہے ہیں۔

یوں تو ہم Isolated ہوگئے ہیں کیونکہ جو تفریحات 70ء کی دہائی میں دستیاب رہیں وہ کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گئیں، جدید ٹیکنالوجی نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم، بچوں کی زیادہ تعداد، بھاگ دوڑ کے گیم، کھیل تماشے، بزرگوں اور بچوں کی اٹھکیلیاں، بے تحاشا محبتیں، نہ سازشی دماغ، نہ حسد اور نہ ہی نفرتیں، پتہ نہیں کیسے یہ خوبصورت زمانے گزرگئے،  یا آنے والے لوگ بدل گئے، آوازوں اور قہقہوں سے گونجتے ہوئے آنگن اور گلیاں خاموش ہوکر رہ گئیں، مغرب کی نمازوں کے بعد کی بیٹھکیں کہیں گم ہوگئیں اور سناٹے نہ صرف گلیوں میں بلکہ گھروں میں بھی آ بسے۔

کہیں زیادہ دولت دوری کا سبب بن گئی اورکہیں کم دولت نے اپنوں سے دورکردیا، وہ زمانہ بھی یاد آتا ہے جب لوگ جوق درجوق مڈل ایسٹ جا کر روپیہ کمانا چاہتے تھے اور چلے بھی جاتے تھے، برسوں اپنوں سے دور زندگی گزارتے، بیویاں امید سے ہوتیں اور شوہروں کے جانے کے بعد بچے پیدا ہوتے،آسائشیں ہوتیں، بچہ بچپن گزارکر جوان ہوجاتا تو باپ کی شکل دیکھتا، بیویاں اپنے ہاتھوں میں سونے کی چوڑیاں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتیں اور رشتے داروں پر رعب بھی جماتیں جب مڈل ایسٹ سے نکالے جاتے توگھر یاد آتا، زندگی بھرکی تھکن، چہرے پر عیاں ہوتی، اپنا گھر اور اپنے لوگ اجنبی لگتے، بس تنہائیاں اور یادیں اور بہت کچھ کھونے کا غم یہی سرمایہ رہ جاتا۔

ایسی بہت سی کہانیاں، سچے  واقعات ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ مگر ہم نے سیکھا نہیں بلکہ ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے، بلکہ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ ماضی سے ہم نے کبھی کچھ سیکھا ہی نہیں۔ بس ایک تاریخ کی کتاب سمجھ بیٹھے ہیں۔ 70ء کے بعد 90-80ء کی دہائیوں میں درجہ بدرجہ معاشرہ تبدیل ہوتا گیا، گھرکی روایتیں بھی تبدیل ہوگئیں، انگلش میڈیم اسکولوں کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا اور انگریزی میں بات کرتا بچہ ایسا لگتا جیسے چاند سے آئی مخلوق۔ دادا، دادی اور نانا، نانی اور والدین کو بھی جب یہ بچہ منہ بنا کر Shut Up کہتا تو والدین خوش ہوجاتے، اوئے میرا لال کہہ کر سینے سے لگاتے کہ بچہ سمجھدار ہوگیا ہے اور انگریزی کی ادائیں دکھا رہا ہے۔ مڈل کلاس میں یہ مرض تیزی سے پھیلا، سونے پر سہاگہ کلفٹن، ڈیفنس کیا سب کا حال ہی برا ہوگیا، پیسہ کیسے بھی آیا مگر گردشیں لمبی ہونے لگیں۔ ناظم آباد اور لالو کھیت دور کہیں پیچھے رہ گئے۔ گھر کے رہائشیوں سے لے کر تعلیمی اداروں تک ایسا Change آیا کہ معاشرہ تتر بتر ہوگیا اور آج تک سنبھل نہ پا رہا ہے۔

کئی سیاسی طوفان بھی گزرگئے کئی آمر بھی گزرگئے مختلف طرز زندگی گزارتے گزارتے بھی نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم! طرز زندگی سے لے کر سوچوں تک میں ایسا Change آگیا ہے کہ سمجھ سے باہر ہیں کہ ہم لبرل ہیں، مذہبی ہیں، جنونی ہیں،  سر پھرے ہیں کیا ہیں ہم؟ پہلے صبح ہوتی تھی اور شام کا انتظار ہوتا تھا اب صبح ہوتی ہے اور رات ہوجاتی ہے، شامیں نہ جانے کہاں گم ہوگئی ہیں۔

محبتوں کا یہ حال ہوتا تھا کہ گھرکی خواتین، گھر کے مردوں کے آنے کا انتظار کرتی تھیں، دیر سویر ہو ہی جاتی تھی، مگر انتظار آنے تک قائم رہتا تھا، دستر خوان  آباد ہوتے تھے، من پسند کھانے اور دوران کھانا، بہت ساری گفتگو صبح سے شام تک کا احوال، اب سجے سجائے گھر بھی خاموش رہتے ہیں، خواتین کے اپنے من پسند شوق اور سہیلیاں انھیں گھر سے کھینچ کر باہر لے جاتی ہیں، تھکے ہارے مرد ملازم ہیں تو اس سے ورنہ خود ہی کھانا گرم کرکے کھا کر شکر ادا کرتے ہیں، اکثریت لعن طعن بھی سنتے ہیں کہ برابر والی یا رشتے دار ایسے رہ رہے ہیں اور یہ لوگ ایسے۔

عورت و مرد دونوں برابری کا نعرہ لگا رہے ہیں حالانکہ مرد اللہ کی طرف سے اونچا ہے، پر کیا کریں لبرل کیسے ہوں گے؟بہرحال روایتیں دم توڑ گئیں اور محبتیں روایتوں سے بھی برے انداز میں دم توڑ رہی ہیں کہ یقین مانیے اگر آپ کو مل جائیں تو دونوں ہاتھوں سے گوہر نایاب کی طرح تھام لیجیے، ہرکسی کا مقصد نہیں یہ محبت۔ اولادیں، والدین کو ATM کارڈ سمجھتے ہیں۔ اپنے حقوق لمحہ بہ لمحہ جتائے جاتے ہیں اور فرائض کے وقت ان کی دنیا اور ان کی مصروفیات۔ کئی والدین ایسے ہیں جو تنہا اس ملک میں ہیں اور بچے تعلیم حاصل کرنے کیا گئے پھر پلٹ کے ہی واپس نہ آئے۔

تعلیم بھی اعلیٰ ہوگئی، تربیت بھی نوکروں چاکروں والی ہوگئی، بوڑھی کھانستی ہوئی دادی یا نانی سے بچوں کو دورکردیا، ہاں کبھی کبھی مہینہ دو مہینہ میں ایک دفعہ بڑوں کا دیدار بھی کروا دیا، سلام دعا بھی ہوگئی اور قصہ نمٹ بھی گیا، سب اپنے اپنے کمروں کے مسافر بن کر رہ گئے۔ کیونکہ کچن ابھی تک گھر کا ایک ہی ہوتا ہے اس لیے اس میں آتے جاتے،گھر کے افراد نظر آ ہی جاتے ہیں، اپنے اپنے کمروں سے تیار ہوکر نکلیں اور غائب، گھر میں داخل ہوئے اور اپنے کمرے کا دروازہ بند۔

یقین جانیے یہ ترس کھانے والی زندگی ہے۔ یہ کتابوں والا لبرل معاشرہ ہمیں دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ بڑے بھی تنہا ہو رہے ہیں اور بچے بھی اور وہ لوگ جو لبرل ازم کو اپنا سب کچھ سمجھتے ہیں وہ نہ صرف اپنے بلکہ دوسرے کے گھرانوں میں بھی زہر گھول رہے ہیں۔

نہ تعلیم وہ رہی اور نہ تربیت وہ رہی۔ سب کچھ ایک پیکیج بن کر رہ گیا ہے۔ بلکہ تمام کی تمام زندگی ہی ایک پیکیج بن کر رہ گئی ہے۔ اب ہم اپنے لیے خود ڈیل بناتے ہیں۔ اس میں یہ ہونا چاہیے اور یہ نہیں ہونا چاہیے۔ زندگیاں خوشیوں سے خالی ہوکر رہ گئی ہیں، مہنگے مہنگے کپڑے، زیورات، چہروں کا ہار سنگھار، صرف دوسروں کو دکھانے کے لیے رہ گیا ہے۔

فیس بک، سیلفی، فوٹو سیشن، واٹس ایپ بہت ہی ضروری زندگی کا حصہ۔دل خالی ڈبے بن کر رہ گئے ہیں، دماغ سازشوں میں مصروف، میاں بیوی میں بھی جائیدادیں ہتھیانے کی دوڑ، کم ظرفی اور لالچ کا یہ عالم ہے کہ اپنا کام نکل جائے تو آنکھیں ماتھے پر رکھ لی جائیں، بھائی بہنوں کی وراثت میں حصہ دینے سے انکاری، اولادیں بھی زیادہ سے زیادہ لوٹ مار میں مصروف ہیں۔

بزرگوں کی ہدایت، ان کے تجربے، ان کی ہدایت کو ٹھوکر مارکر پرے پھینک دیا جاتا ہے۔ تمام اچھائیاں اور برائیاں ایک چوکور idiot ڈبہ سکھا رہا ہے۔ دین سے لے کر دنیا اور تجارت تک، کیسے دھوکے دیے جائیں، کیسے چوریاں کی جائیں، کیسے نفرتیں پھیلائی جائیں، سب کچھ ، رہی سہی کسر آرٹس اسکول اور ادارے پوری کر رہے ہیں۔ ناچ گانا، ڈرامے، شور شرابہ بس نہیں ہے تو وہ ادارے جو فوکس ہوکر طالب علموں کو انسانیت نہیں سکھا رہے۔

کسی نے کیا خوب کہا کہ کوئی بھی ادارہ فلاح بہبود کے نام پر قائم ہوتا ہے بے تحاشا فنڈز حاصل کرتا ہے ادارہ تو غریب ہی رہتا ہے مگر اس کو چلانے والا کئی بزنس اداروں کا مالک بن جاتا ہے۔ ناظم آباد سے ڈیفنس شفٹ ہوجاتا ہے اور نہ جانے کیا کیا وہ حاصل کرلیتا ہے لیکن  چند انسان بھی وہ پروڈیوس نہیں کرپاتا۔یہ المیے ہماری زندگیوں میں زہر گھول رہے ہیں اور ہمیں آہستہ آہستہ موت کی طرف دھکیل رہے ہیں اور موت بھی ایسی جس میں کوئی اپنا رونے والا نہیں ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔