’’پاکستان کے خلاف سازش‘‘

عبدالقادر حسن  بدھ 14 جون 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

کتابیں انسان کا بہترین ساتھی قرار دی جا چکی ہیں اور اگر ان میں سے کوئی ایسی کتاب آپ کو پڑھنے کو مل جائے جو  آپ کے نظریات سے میل کھاتی ہو تو لطف دوبالا کر دیتی ہے۔ آج کے تیز ترین دور میں جب لوگوں کے پاس اپنے آپ کے لیے وقت نہیں تو کتابیں خریدنا اور پڑھنا دیوانگی ہی لگتی ہے لیکن مجھے اخباری خبروں سے یہ بھی پتہ چلتا رہتا ہے کہ کسی نہ کسی شہر میں کتاب میلے کا انعقاد بھی ہوتا رہتا ہے جہاں سے کتب بین اپنے مطلب کی کتابیں خرید کر اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور کتابوں کے مطالعے کی تشنگی کو دور کرتے ہیں۔

ہم نے تو صحافت کا آغاز ہی کتابوں کے ڈھیروں سے کیا تھا اور اپنی معلومات کے خزانے کو وسیع کرنے کے لیے اپنے وقت کے بڑے لکھاریوں کی کتابیں پڑھ پڑھ کر بلکہ از بر کر کے اپنے علم میں اضافہ کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ میں آج بھی جب اپنی کتابوں کے وسیع ذخیرے کو دیکھتا ہوں تو اکثر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ میری جوانی کی راتوں کی ساتھی ان کتابوں کے اوراق دوبارہ کون کھولے گا اور ان کتابوں کی اُداسی کو دور کرے گا جو  عرصہ دراز سے کسی کے انتظار میں ہیں کہ کوئی تو ایسا صاحب ذوق ہو جو اپنی پیاس بجھانے کے علاوہ ان کتابوں کی بھی پڑھے جانے کی پیاس کو ٹھنڈا کرے۔

میرے مہربان اکثر مجھے اپنی تصانیف بھیجتے رہتے ہیں جن کا مطالعہ کر کے میں اپنے علم میں اضافہ کرتا رہتا ہوں اور اپنے آپ کو ان کتب کے ذریعے ترو تازہ رکھنے کی کوشش کر تا ہوں۔ یہ تمہید اس لیے باندھی گئی ہے کہ مجھے ایک عرصے کے بعد ایک اچھی کتاب کے مطالعے کا موقع ملا ہے جو  میرے پسندیدہ موضوع پاکستانیت پر لکھی گئی ہے اور اس کے راوی میرے دیرینہ دوست اور صحافت کے روشن دماغ جناب ضیاء شاہد ہیں جو  اپنی ذات میں انجمن ہیں اور صحافت کی دنیا میں انھوں نے ایسی مثالیں قائم کی ہیں جو بطور ایک کارکن صحافی ناممکن تھیں لیکن دلجمعی اور جنون نے اس کو ممکن کر دکھایا۔ ان کی صحافتی زندگی محنت سے عبارت ہے اور وہ صحافت میں نئی جہتیں متعارف کرانے کے بانی ہیں، انھوں نے زندگی بھر آزاد صحافت کے میدان میں جدو جہد کی ہے جس کی وجہ سے وہ سات ماہ تک بھٹو کی حکومت میں شاہی قلعہ میں صحافت کی آزادی کی جدو جہد میں ان کی مہمان نوازی سے بھی لطف اندوز ہوئے اور  قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

ضیاء شاہد کی صحافتی زندگی اتنے دلچسپ واقعات سے بھری پڑی ہے کہ خود ان پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اب تک کسی نے لکھی بھی ہو لیکن اس کے بارے میں میرے پاس معلومات نہیں ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی انھوں نے اپنی تازہ ترین کتاب ’’پاکستان کے خلاف سازش‘‘ بھجوائی ہے جو  میرا پسندیدہ ترین موضوع ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس موضوع کے بغیر شاید میں کالم ہی نہ لکھ پاتا اور ایک دفعہ جب مجھے ایک اخبار کی جانب سے اس موضوع سے اجتناب کرنے کو کہا گیا تو میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں اگر پاکستان کے حق میں نہیں لکھوں تو کیا لکھوں گا میں نے اس اخبار کو خیر آباد کہہ دیا اور یوں اپنی عمر بھر کی ریاضت کو بچا لیا۔ ضیاء کی خوبصورت کتاب جو  ان کے اخبار میں شایع ہونے والے مضامین کا مجموعہ ہے اس میں انھوں نے پاکستان میں موجود اور پاکستان کے ٹکڑوں پر پلنے والے نام نہاد سیاسی لیڈروں کے بھیانک چہروں سے پردہ اٹھایا ہے جو  اپنے مفادات کے لیے تو پاکستان کے شہری ہیں لیکن جب بھی ان کو موقع ملتا ہے تو اپنی جنم بھومی کے خلاف اعلانیہ سازشوں سے باز نہیں آتے اور ہمارے اولین دشمن بھارت کے ساتھ ساز باز کے ذریعے نہ صرف پاکستان کو غیر مستحکم کرنے بلکہ اس کو توڑنے کی سازش میں پیش پیش رہتے ہیں اور ہمارے ازلی دشمن بھارت کو اکساتے رہنے کے علاوہ پاکستان کو توڑنے میں مدد کی پیشکش بھی ہمیشہ ان کا خاصا رہی ہے۔

ضیاء نے اپنی کتاب میں ان ہی سازشی پاکستانیوں کے چہروں سے نقاب اُلٹا ہے اور پاکستان توڑنے کی سازش میں شریک ہر ایک کردار کے بارے میں تفصیل سے اس کا احاطہ کیا ہے اور واضح حوالوں سے اپنی بات کو ثابت بھی کیا ہے۔ انھوں نے تاریخی حوالوں سے سابقہ صوبہ سرحد اور موجودہ خیبر پختونخوا کے جماندرو لیڈروں سرحدی گاندھی کہلانے والے باچا خان سے لے کر بلوچی گاندھی محمود خان اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی اور دوسرے علیحدگی پسند لیڈروں حر بیار مری، برہمداغ بگٹی، خان آف قلات اور سندھو دیش کے حامی جی ایم سید کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کے الطاف حسین کے بارے میں بھی تفصیلی گفتگو کی ہے جو  پاکستانیوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔

کتاب کا انتساب بانی پاکستان محمد علی جناح کے نام کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ’’جناح نے دو قومی نظریہ یعنی مسلمان الگ اور ہندو الگ کے فلسفے پر پاکستان کی تشکیل کی اور جنھیں ان کے پیش کردہ نظریئے کے خلاف زبان اور نسل کی پوجا کرنے والے توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ کوئی آج پاکستان میں کہہ رہا ہے کہ ہم ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے، کوئی یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ ہم افغان  پیدا ہوئے تھے اور افغان  ہی ہیں اور اپنے بزرگوں کو پہلے ہی افغانستان میں دفن کیا ہے، کسی نے سندھو دیش کا نعرہ لگایا تو کوئی بلوچستان کو پاکستان کا حصہ ماننے کو تیار نہیں، کوئی راء کی مدد سے لندن میں بیٹھ کر پاکستان کی موجودہ جغرافیائی سرحدوں کو توڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ نئے لوگ نہیں بلکہ پہلے سے ہی پاکستان کی سر زمین پر موجود ہیں‘‘۔ ضیاء نے ان ہی پردہ نشینوں کو بڑی بے دردی سے بے نقاب کیا ہے۔ ان کی یہ کتاب ایک محب وطن پاکستانی کے دل سے نکلی ہوئی توانا آواز ہے جس کی حفاظت کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ ان کی یہ کتاب معلومات کا ایک خزانہ ہے اور آج کل کے دور میں اس بے باکی کے ساتھ لکھنا اور چہروں سے پردہ اٹھانا ضیاء شاہد کے حصے میں آیا ہے۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں اور اگر موجودہ نسل کے پاس وقت ہو تو ان کے لیے پاکستان کے نام نہاد سیاستدانوں کے بارے میں معلومات کی ایک بہترین کتاب ہے جس کو پڑھ کر ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون کون سے لوگ ہیں جو کہ پاکستان کے اندر رہ کر پاکستان کے خلاف ہی سازشوں کا بنیادی کردار ہیں۔ میں اس خوبصورت کتاب کی تقریب رونمائی میں اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے شرکت سے محروم رہا لیکن اس کالم کے ذریعے ضیاء شاہد کو ہدیہ تہنیت پیش کر رہا ہوں۔

تقریباً ڈھائی سو صفحات پر مشتمل خوبصورت کتابت اور بہترین کاغذ پر شایع کی گئی اس کتاب کی قیمت آٹھ سو روپے اور یہ ملک کے ہر اچھے بک اسٹال پر دستیاب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔