اپنی صلاحیتوں سے انصاف کریں۔۔۔

عاطف مرزا  اتوار 10 مارچ 2013
اگر آپ اپنے فطری رجحانات کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئی پیشہ یا کام منتخب کرتے ہیں تو یہ زندگی کے بڑے فیصلوں میں سے ایک انتہائی برا فیصلہ ہو گا۔ فوٹو: فائل

اگر آپ اپنے فطری رجحانات کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئی پیشہ یا کام منتخب کرتے ہیں تو یہ زندگی کے بڑے فیصلوں میں سے ایک انتہائی برا فیصلہ ہو گا۔ فوٹو: فائل

ایک آدمی اپنی پوری زندگی اس تلاش میں رہا کہ دنیا کا بہترین جنرل کون ہے۔

وہ اپنی تلاش میں ناکام رہا اور آخر کار دنیا سے چل بسا۔ روز قیامت اس نے فرشتوں سے دریافت کیا کہ دنیا کا بہترین جنرل کون ہے، اسے جواب دیا گیا کہ اگر تم اپنے دائیں جانب دیکھو تو تمہیں وہ عظیم جنرل نظر آئے گا، جب اس نے بڑے اشتیاق سے اس طرف دیکھا تو بہت مایوس ہوا، اس نے کہا یہ شخص تو میرے شہر کی فلاں گلی کا موچی تھا۔ اس کو جواب ملا اگر یہ شخص جنرل بننے کا فیصلہ کرتا تو دنیا کا سب سے بڑا جنرل ہوتا۔ عظیم مصنف مارک ٹوئن کی یہ حکایت ہماری توجہ اس طرف دلاتی ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنے حقیقی پوٹینشل سے بے خبر رہتے ہیں۔

قدرت ہر شخص کو ایسی صلاحیتیں دیتی ہے کہ وہ ان سے کام لے کر ایک شاندار زندگی گزار سکتا ہے۔ اس شاندار زندگی کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ انسان اپنے فطری رجحانات اور صلاحیتوں کو پہچانیں اور اپنے کام یا پیشے کا انتخاب اپنی صلاحیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے کریں۔

معروف شاعرہ ایم سی رچرڈز نے اپنے برتن بنانے کے شوق کے بارے میں کہا تھا کہ کام خود اپنی ذات کھوجنے کا ایک ذریعہ ہے، ہم دراصل برتن نہیں بنا رہے ہوتے بلکہ خود اپنا آپ بنا رہے ہوتے ہیں، یہ حقیقت ہر کام کے بارے میں صحیح ہے۔ دنیا میں ہر شعبے کے کامیاب لوگ وہی ہیں جنہوں نے اپنے کام کو محض ملازمت یا نفع کے لئے نہیں کیا بلکہ انہیں اس کام کا جنون تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کا جو وقت جاگتے ہوئے گزارتے ہیں، اس میں سے آدھا وقت ہم کام کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہم تعلیم مکمل کرنے کے بعد سے 65 سال کی عمر تک اپنی زندگی کے نوے ہزار گھنٹے کام کرتے ہوئے گزارتے ہیں، اس لئے دانش مندی یہی ہے کہ ہم اپنے لئے وہ کام منتخب کریں جو ہمیں پسند ہو۔

دنیا کا سب سے بڑا موجد ایڈیسن کو تسلیم کیا جاتا ہے، اس سائنسدان نے ایک ہزار سے زائد مفید ایجادات دنیا کو دیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے اپنی زندگی میں ایک دن بھی کام نہیں کیا۔ یعنی وہ ساری عمر اپنے شوق اور جنون پر کام کرتا رہا ہے، اس کے عظیم کارنامے اسی شوق اور جنون سے وجود میں آئے ہیں۔ عظیم چینی مفکر کینفوشس نے بھی یہی کہا تھا کہ اگر آپ اپنی پسند کا کام کرنے لگیں گے تو درحقیقت آپ کو ایک دن بھی کام نہیں کرنا پڑے گا۔

آپ کسی بھی کامیاب‘ انجینئر‘ ڈاکٹر‘ سائنسدان‘ وکیل‘ آرٹسٹ اور مصنف کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اسے اپنے کام سے محبت ہے۔ وہی معاشرے خوشحال اور انسانی ترقی کا شاندار نمونہ بنتے ہیں، جہاں نوجوان اپنے فطری رجحانات کے مطابق اپنے پیشے منتخب کرتے ہیں۔ یہ نوجوان اپنی بہترین صلاحیتوں اور توانائی سے معاشرے کو بہتر بناتے ہیں۔

آئن سٹائن سے اس کے ٹیلنٹ کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ اس میں اور کوئی خوبی نہیں، ہاں اسے صرف ایک جنون ہے اور وہ ہے متجسس رہنے کا۔ ہم اپنے رجحانات اور صلاحیتوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ بعض لوگ لکھنے اور بولنے کی اچھی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ یہ اچھے ادیب‘ صحافی‘ شاعر بن سکتے ہیں۔ کچھ افراد منطقی ذہن رکھتے ہیں اور حساب کتاب آسانی سے کر سکتے ہیں، یہ اچھے سائنسدان‘ ڈاکٹر یا انجینئر بن سکتے ہیں۔ بعض افراد نغمگی یا موسیقی میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ دوسروں میں زیادہ دلچسپی لینے اور میل جول پسند کرنے والے افراد اچھے سیلز مین‘ کونسلر اور استاد بن سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم میں سے کچھ افراد اچھے کھلاڑی یا دستکار‘ پینٹگ اور ڈرائینگ کی غیر معمولی صلاحیتیں رکھنے والے‘ قدرتی مناظر‘ حیوانات اور نباتات پسند کرنے والے ہوتے ہیں۔

آج کی دنیا میں کیریئر کے لینڈ سکیپ میں انجینئرنگ‘ آرٹس‘ بزنس اور فنانس‘ کمپیوٹر اینڈ انفارمیشن سائنس‘ تعلیم‘ فزیکل اور سوشل سائنس‘ منیجنمنٹ‘ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کے گروپس وغیرہ شامل ہیں۔ کسی بھی شعبے میں کامیاب ہونے کے لئے اسی شعبے سے متعلقہ صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں شعبوں کے حوالے سے بھی کئی Stereotypes پائے جاتے ہیں۔ بعض پیشوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ والدین بھی یہی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے نئے شعبوں میں قسمت آزمائی کرنے کے بجائے مقبول شعبوں میں جائیں۔سکول کالج‘ اساتذہ‘ والدین ہمیں کمفرٹ زون میں رہنا سکھاتے ہیں، ہم رسک لینے اور ناکام ہونے سے ڈرنے لگتے ہیں۔

ضروری نہیں کہ ہم انہی مضامین کا انتخاب کریں جو ہمارے دوست اپنے لئے منتخب کر رہے ہیں، یہ بھی ضروری نہیں کہ ہم انہی گنے چنے پیشوں میں جائیں جن میں سب لوگ جانا پسند کرتے ہیں۔ خود اپنی ذات کو سمجھنے کا عمل جاری رکھیں۔ خود پر یہ بھی لازم نہ کریں کہ اگر آپ نے ایک مخصوص شعبے میں جانے کے لئے تعلیم حاصل کی ہے تو اب اس کے علاوہ کسی شعبے میں جانے کے متعلق سوچنا بھی نہیں۔ آپ نے کسی دوسرے شخص کی فوٹو کاپی نہیں بننا بلکہ اپنی شخصیت کو اوریجنل بنانا ہے۔

اگر آپ اپنے فطری رجحانات کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئی پیشہ یا کام منتخب کرتے ہیں تو یہ زندگی کے بڑے فیصلوں میں سے ایک انتہائی برا فیصلہ ہو گا۔ اس طرح آپ اپنے پوٹیشنل سے کم سطح پر زندگی گزاریں گے اور آپ کبھی وہ نہیں بن پائیں گے جو بننے کی آپ میں اہلیت تھی۔ عظیم ماہر نفسیات ابراہم ماسلو کے الفاظ ہیں، ’’اگر آپ اپنی اہلیت سے کم سطح پر زندگی گزارنے پر اکتفا کرتے ہیں تو آپ اپنی ساری زندگی ناخوش رہیں گے۔

اگر آپ کا رجحان کسی ایسے شعبے کی طرف ہے جو اتنا معروف نہیں تو آپ کو اس شعبے میں آنے اور کامیاب ہونے کے لئے ہمت اور حوصلے سے کام لینا ہو گا۔ اگر آپ آرٹس کے میدان میں نام بنانا چاہتے ہیں یا خود کو کامیاب انٹر پرنیوئر ثابت کرنا چاہتے ہیں تو یہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ آپ کو اپنے کام کا جنون ہو اور آپ اس کے لئے سخت محنت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ معیاری تعلیم وہی ہے جو نوجوانوں کو زندگی اور کام کے بارے میں خود فیصلے کرنے کے قابل بنائے۔ نوجوانوں میں تنقید سننے، مذاق کا نشانہ بننے، ابتدائی ناکامیوں کا مقابلہ کرنے کی جرأت پیدا کرے۔

اگر آپ کا کام یا پیشہ آپ کا شوق یا جنون ہے تو آپ اپنی نیند قربان کرتے ہوئے رات دیر تک کوئی کتاب پڑھ رہیں ہوں گے یا کسی تحقیقی کام میں مصروف ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح اپنی پسند کا کام آپ کو صبح خوشگوار موڈ میں آفس لے کر جائے گا۔ شوق یا جنون آپ کو لائف لانگ برنر بنا دیتا ہے۔ یعنی تمام عمر سیکھنے والا۔ آج روزگار کی دنیا بہت بدل چکی ہے، آپ صرف اپنی کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم یہ اکتفا نہیں کر سکتے۔ ترقی کے لئے آپ کو ہر وقت نیا علم اور نئی مہارتیں (Skills) سیکھنے کے لئے تیار رہنا ہو گا۔ سیکھنے کا عمل صرف وہی جاری رکھ سکتا ہے، جو اپنے کام سے محبت رکھتا ہو۔

کسی مفکر نے کہا تھا کہ جتنا سخت مرحلہ کسی سٹیل یا ہیرے کو توڑنا ہے، خود کو سمجھنا بھی ایسی ہی دشوار مرحلہ ہے۔ کیریئر میں کامیابی کے لئے نوجوانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ شروع سے ہی اپنے فطری رجحانات پر نظر رکھیں، اس بات کو نوٹ کریں کہ انہیں کیسی سرگرمیاں پسند ہیں، وہ کون سے کام ہیں جنہیں کرتے ہوئے انہیں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا ۔ سکول کے زمانے میں وہ کن مضامین میں اچھے تھے۔

والدین اور اساتذہ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کو خودشناسی میں بھرپور مدد دیں۔ خودشناسی کا ایک ذریعہ اپنے وقت کا ایک حصہ مختلف مشاغل میں گزارنا ہے۔ اس سے آپ پر اپنی صلاحیتیں واضح ہوتی ہیں۔ سماجی مسائل کے لئے رضا کارانہ کام کرنے کا موقع ملے تو اس سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ہم دنیا کے لئے بلکہ خود اپنے لئے جو سب سے اچھا کام آپ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ آپ اپنے پوٹینشل کے مطابق اپنی شخصیت کی تعمیر کریں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں آپ اپنا نقصان بھی کرتے ہیں اور معاشرے کو ایک خوبصورت تحفے سے محروم کر دیتے ہیں۔n

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔