مغرب میں ناجائز بچوں کی پیدائش میں خوفناک اضافہ

تزئین حسن  اتوار 10 دسمبر 2017
یہ سماجی رحجانات سماجی تبدیلیوں کا باعث بن رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

یہ سماجی رحجانات سماجی تبدیلیوں کا باعث بن رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

بتیس سالہ کیرولین ٹومے اکہرے بدن کی انتہائی محنتی غیر شادی شدہ عورت ہیں۔ وہ کینیڈا کے شہر ایڈمنٹن کی باسی اور دس، چھ اور دو سالہ تین انتہائی خوبصورت بچوں کی ماں ہیں۔

کیرولین کا ایک بیٹا اپنے باپ اور دادا دادی کے ساتھ رہتا ہے اور دو بچے اس کے ساتھ۔ ان کا کہنا ہے:’’ میرے تینوں بچوں کے باپ مختلف ہیں۔ میں اپنے بچوں پر فخرکرتی ہوں اور ان کا بہت خیال رکھتی ہوں۔‘‘ تاہم جن تعلقات کے نتیجے میں یہ بچے  پیدا ہوئے، انھیں وہ ایسی غلطی قرار دیتی ہے جس نے اس کی ساری زندگی کو خراب کر دیا۔ مغربی ممالک میں غیر شادی شدہ جوڑوں کا ایک ساتھ رہنا قانوناً جائز ہیں اور ایسے بچوں کو بھی قانونی حیثیت حاصل ہے جو ان تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہوں۔ ایسے بچوں کی ذمہ داری ان کے حقیقی ماں باپ پر بھی عائد ہوتی ہے اور ریاست بھی انہیں اپنی ذمہ داری تصور کرتی ہے۔

حال ہی میں شائع ہونے والی ییل یونیورسٹی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ بعنوان ’پوری دنیا میں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچے‘کے مطابق دنیا کے بعض خطوں میں بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد کل بچوں کے70 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ امریکا میں یہ تعداد 40 فیصد جبکہ شمالی یورپ کے ممالک میں یہ شرح70 فیصد تک چلی گئی ہے۔ پچھلے پچاس برسوں میں بغیر شادی کے بچوں کی پیدائش میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اکیلی مائیں (سنگل مدرز) کی تعداد میں بھی۔

تفصیلات کے مطابق ساری دنیا میں اکیلی ماؤں کے ساتھ پلنے والے بچوں کی تعداد کل بچوں کی تعداد کے 25 سے 33 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اس ساری صورت حال کی وجوہات کیا ہیں؟ ترقی یافتہ ممالک میں خاندانی نظام کا ختم ہونا اور مخالف جنس کے لوگوں کا آزادانہ میل جول، حکومت کا ایسے بچوں کو قانونی حیثیت دینا اور پالنے والے والدین کو مالی مدد فراہم کرنا سر فہرست ہیں۔

بروکنگ انسٹیٹیوٹ کی ایک رپورٹ جس میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ نوعمری میں حمل اور ناجائز بچوں کی پیدائش کیسے کم کی جاسکتی ہے؟‘ رپورٹ کے مطابق اس سارے معاملے کا ایک تشویش ناک پہلو یہ بھی ہے کہ اب ایسی کم عمر ماؤں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو ہائی اسکول کے دوران ہی میں ماں بن جاتی ہیں۔ ایسے واقعات بھی اب غیر معمولی نہیں رہ گئے ہیں جن میں بچیاں دس، گیارہ سال کی عمر میں اپنے پہلے بچے کو جنم دیتی ہیں حالانکہ اسکولوں میں ابتدائی کلاسوں ہی سے بچوں کو جنسی تعلیم دی جاتی ہے اور برتھ کنٹرول کا طریقہ بھی بتایا جاتا ہے۔

اگرچہ ریاست ان بچوں کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر ایسی اکیلی ماؤں کو مالی امداد دیتی ہے مگر ان میں سے بیشتر مائیں اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکتیں اور ان کی جوانی کا بڑا حصہ بھی اپنے بچوں کی نگہداشت میں گزر جاتا ہے۔ کیرولین بھی اپنے ہائی سکول کی تعلیم مکمل نہیں کر سکی۔بعض اوقات باپ بھی اپنے ایسے بچے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ بروکنگ کی رپورٹ کے مطابق اکیلے والدین کی 84 فیصد تعداد عورتوں جبکہ 16 فیصد تعداد مردوں پر مشتمل ہے۔

سن 2016 میں شائع ہونے والی جان ہاپکنز یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق امریکا میں 64 فیصد عورتیں کم از کم ایک ایسے بچے کی ماں ضرور ہیں جو بغیر شادی کے پیدا ہوتا ہے۔ غریب یا کم آمدنی والے علاقوں میں ایسی غیر شادی شدہ ماؤں کی تعداد 74 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق پہلی دفعہ ماں بننے والی66 فیصد سفید فام، 96 فیصد سیاہ فام اور 76 فیصد میکسیکن خواتین غیر شادی شدہ ہوتی ہیں۔ مغربی قانون کے علاوہ معاشرتی طور پربھی اب اسے کوئی برائی تصور نہیں کیا جاتا لیکن کیرولین کا کہنا ہے کہ ایسی ماؤں کا کیرئیر پہلی دفعہ حاملہ ہونے کے بعد تباہ ہو جاتا ہے۔ اس کے بعدان میں سے اکثر حکومت کے فلاحی فنڈز کی محتاج ہوتی ہیں۔

ییل رپورٹ (2017) کے مطابق بنا شادی کے بچوں کی پیدائش کی کم ترین شرح ان ملکوں میں ہے جہاں ایسے بچے پیدا کرنے والے ماں اور باپ کو رسوائی کا سامنا ہوتا ہے اور معاشرہ بچے کو قبول نہیں کرتا اور انہیں ’کلنک کا ٹیکا‘ گردانتا ہے۔ انڈیا، چین، افریقہ میں ایسے بچوں کی تعداد کل بچوں کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس معاملے میں ملکی قانون بھی واضح کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ جن ممالک میں ایسے تعلقات قانوناً جائز ہیں وہاں بنا شادی پیدائش کی شرح بہت زیادہ ہے۔

لاطینی امریکا کے بیشتر ممالک میں ایسے بچوں کی تعداد کل بچوں کے60 فیصد تک پہنچ گئی ہے مگر اس معاملے میں سب سے زیادہ براحال شمالی یورپ کے ممالک سویڈن، ڈنمارک، ناروے اور فن لینڈ کا ہے جہاں شادی کے بنا پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 70فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ امریکا میں یہ تعداد 40 فیصدہے۔ ’ییل رپورٹ‘ کے مطابق ایک ہی ملک میں مختلف نسلی گروہوں میں اس شرح میں فرق بھی دیکھنے میں آیا۔ امریکی سیاہ فاموں میں ایسے بچوں کی تعداد 71 فیصد جبکہ امریکہ کی لاطینی آبادی میں یہ شرح 53 فیصد اور سفید فاموں میں یہ شرح29 فیصد ہے۔ یاد رہے کہ پچاس سال پہلے امریکا میں یہ شرح محض سات فیصد تھی۔

کیا مغربی معاشرہ ہمیشہ سے ایسا تھا؟

بروکنگ کی رپورٹ کے مطابق بنا شادی کے پیدائش کی شرح میں اضافہ پچھلے پچاس سال میں خوب دیکھنے کو ملا ہے۔ مثلاً 1964ء میں ’آرگنائزیشن آف اکنامک اینڈ کوآپریٹیو ڈویلپمنٹ‘(OECD ) میں شامل بیشتر ممالک میں بنا شادی بچوں کی تعداد کْل بچوں کا دس فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی تھی جبکہ 2014 ء کے اعداد و شمار کے مطابق ان ممالک میں صرف یونان، ترکی، اسرائیل، جنوبی افریقہ اور جاپان ایسے ممالک ہیں جہاں یہ شرح 10 فیصد سے کم ہے۔ یاد رہے کہ ’او ای سی ڈی‘ میں 35 ممالک شامل ہیں، یہ بلند ترین جی ڈی پی کے حامل ممالک ہیں۔ ان میں شمالی امریکا، شمالی اورمغربی یورپ اور آسٹریلیا کے براعظم کے علاوہ جنوبی کوریا، اسرائیل، ترکی اورجاپان بھی شامل ہیں۔

بغیر شادی کے پیدا ہونے والے بچے کیسے پلتے ہیں؟

ایسے زیادہ تر بچے تنہا والدین کے ساتھ پلتے ہیں، بعض فوسٹر ہوم یعنی اڈوپٹڈ والدین کے ساتھ اور بعض اپنے اصلی ماں باپ کے ساتھ پلتے ہیں جو بعض صورتوں میں شادی کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ بعض ماں باپ بچہ ہونے کے بعد شادی بھی کر لیتے ہیں مگر ان کا تناسب بھے کم رہ گیا ہے۔ قارئین کو یاد دلا دیں کہ عمران خان کی پہلی شریک حیات جمائماگولڈسمتھ کے والدین نے ان کی پیدائش کے چار سال بعد شادی کی تھی۔کیرولین کا کہنا ہے کہ وہ کبھی اپنے بچوں کے لئے فوسٹر پرنٹس یعنی اڈوپٹڈ پرنٹس کا انتخاب نہیں کرے گی کیونکہ عام طور سے ایسے بچے مختلف قسم کے برے حالات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ سنگل پیرنٹ کا تصور صرف بنا شادی کی پیدائش سے وابستہ نہیں بلکہ کبھی کبھی ماں یا باپ کی موت یا طلاق اور علیحدگی کی وجہ سے بھی بچے والدین میں سے کسی ایک کے ساتھ پلتے ہیں۔ دنیا بھر کے 3.2 بلین بچوں میں 320 ملین اکیلے والدین کے ساتھ پلتے ہیں۔

عورتیںکیوں بغیر شادی کے بچے پیدا کرتی ہیں؟

ترقی یافتہ ممالک میں بعض اوقات خواتین خود اکیلی ماں بننے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس معاملے میں آرٹیفیشل یا ٹیسٹ ٹیوب وغیرہ سے بغیر کسی جنسی ملاپ کے بھی بچہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس انتخاب کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ معاشرے میں بغیر شادی جنسی تعلق عام ہونے کے با عث مرد شادی شدہ زندگی کی ذمہ داریاں اٹھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ جان ہاپکنز رپورٹ 2016 کے مطابق بعض عورتیں جن میں اکثریت سیاہ فام عورتوں کی ہے خود بغیرشادی بچے چاہتی ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آزادانہ اختلاط کے اس معاشرے میں عورتیں مرد کے مقابلے میں اولاد کو زیادہ قابل بھروسہ خیال کرتی ہیں۔

ناجائزبچوں کی زندگی اور مستقبل عام بچوں جیسا ہوتا ہے؟

بروکنگز رپورٹ کے مطابق دوسرے بچوں کے مقابلے میں بنا شادی پیدا ہونے والے اکیلی ماؤں کے بچوں میں پیدائش کے وقت کم وزن پیدا ہونے، بعد کی زندگی میں جسمانی اور نفسیاتی صحت کے مسائل کا شکار ہونے، اسکولوں میں اچھا پرفارم نہ کرنے، اپنے والدین کی طرف سے نظر انداز ہونے، دوسروں کی زیادتیوں کا شکار ہونے، بڑے ہو کر خود مجرم بننے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

ماں پر یا سنگل پیرنٹ پر اثرات

ناجائزبچے کے علاوہ اس کی ماں کی زندگی پر بھی اسکے بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان کے اسکول سے ڈراپ آؤٹ ہونے کے امکانات دوسروں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی مائیں عام طور سے اپنا کیرئیر نہیں بنا پاتیں اور اپنے آپ کو مالی طور پر سپورٹ نہیں کر سکتیں۔ پانچ میں سے صرف ایک خاتون کو بچے کے باپ سے مالی مدد ملتی ہے۔ کیرولین نے اپنے بچوں کے باپوں پر مقدمہ کر رکھا ہے مگر اس کا کہنا ہے کہ ان سے پیسے نکلوانا آسان کام نہیں ہوتا۔ نتیجتاً ایسی عورتیں حکومت کی ویلفیئر اسکیم سے امداد حاصل کرتی ہیں اور طویل عرصہ تک کرتی رہتی ہیں۔

اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے بچے ٹیکس دینے والے پر بوجھ ہوتے ہیں۔ پرنسٹن یونیورسٹی کے میتھمٹکا پالیسی ریسرچ سنٹر کی تحقیق کے مطابق کم عمر غیر شادی شدہ مائیں اور ان کے بچوں پر حکومت ہر سال امریکی ٹیکس دینے والوں کا سات بلین ڈالر خرچ کرتی ہے، اسی لئے اس رحجان کو کم کرنے کے لئے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ امریکا کے برعکس کینیڈا کی حکومت ہر بچے کو ماہانہ وظیفہ دیتی ہے۔ کیرولین کے ایک بچے کا باپ بھی عدالتی فیصلے کے مطابق بچے کو وظیفہ دینے پر مجبور ہے۔ کیرولین کا کہنا ہے اسے پیسے کا کوئی خاص مسئلہ نہیں، وہ ہرچند روز بعد بوائے فرینڈ بھی بدلتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ شادی کرنا چاہتی ہے مگر اسے معلوم ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا کیونکہ ان سب (مردوں) کو صرف اس کے جسم سے دلچسپی ہے۔

آخراس مسئلے کا حل کیا ہے؟

بروکنگ انسٹیٹیوٹ کی ریسرچ رپورٹ امریکی حکومت کو متعدد تجاویز دیتی ہے۔ ان میں سے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ بچوں کو اسکول کی سطح پر شادی سے پہلے جنسی تعلقات کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ کم از کم شادی تک بچے پیدا کرنے سے رک جائیں۔ امریکی معاشرے میں بغیر شادی کے جنسی تعلق کو روکنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے اس لئے ایسی کسی تجویز پر عمل درامد کے امکانات صفر سے بھی کم ہیں۔

ایک طرف کم عمر مائیں ہیں جو اپنے بچوں کو تنہا پال رہی ہیں، دوسری طرف مغرب کے بیشتر ممالک آبادی کے بحران کا شکار ہیں۔ خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں آبادی میں اضافے کی شرح بہت تیزی سے کم ہو رہی ہے، اس حد تک کم ہو رہی ہے کہ متعدد ممالک اپنی صنعتی ضروریات پوری کرنے کے لئے تیسری دنیا کے پناہ گزینوں کے لئے اپنے دروازے کھولنے پر مجبور ہیں۔ مغرب کے بعض تھنک ٹینک آبادی میں کمی کی وجہ شادی کے رحجان میں کمی، طلاقوں کی زیادتی، شادی سے قبل جوڑوں کا ساتھ رہنا، ہم جنس جوڑوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینا بتاتے ہیں۔

یہ سماجی رحجانات سماجی تبدیلیوں کا با عث بن رہے ہیں۔ مغرب کی سیاست اس وقت مہاجرین کے گرد گھوم رہی ہے، اس طرح گزشتہ کئی دہائیوں تک گلوبلائزیشن کی کامیاب کوششوں کے بعد اب مغربی معاشرہ دوبارہ قومیت اور نسل پرستی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔