کراچی کا تاریخی مسٹر کرافورڈ ویٹرنری اسپتال

مختار احمد  منگل 12 دسمبر 2017
کلیکٹر کراچی رچمنڈ کرافوڈ نے یہ اسپتال تقریباً ڈیڑھ ایکڑ رقبے پر قائم کیا تھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کلیکٹر کراچی رچمنڈ کرافوڈ نے یہ اسپتال تقریباً ڈیڑھ ایکڑ رقبے پر قائم کیا تھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دنیا کے بڑے اور بین الاقوامی شہر کراچی میں ایک وہ وقت تھا جب بلند و بالا عمارتوں کے بجائے مٹی اور پتھروں کی ایک فصیل کے اندر آڑے ترچھے اونچے نیچے ایسے گھروں کی بھرمار تھی جن میں تازہ ہوا کی آمدورفت کےلیے سرے سے کوئی کھڑکی موجود نہیں تھی بلکہ تازہ ہوا کی گھر تک رسائی کےلیے تمام مکانات کی چھتوں پر بادگیر بنے ہوتے تھے۔ یہ بادگیر بیک وقت گھر میں تازہ ہوا کی رسائی کے ساتھ ساتھ روشنی مہیا کرنے کا کام بھی کرتے تھے۔

شہر کے اندر سڑکوں کا کوئی تصور نہیں تھا اور نہ ہی پانی، بجلی، سیوریج کا مؤثر بندوبست۔ یہی وجہ تھی کہ فصیل شہر کے اندر داخل ہوتے ہی نہ صرف ایک ناگوار سی بو ناک کے نتھنوں سے ٹکراتی تھی بلکہ سرشام ہی پورے شہر میں شہر خموشاں جیسی خاموشی چھا جاتی اور لوگ آدم خور جانوروں کے خوف سے گھروں میں دبک جاتے۔ شہر کراچی کا نظم ونسق 240 روپے ماہانہ تنخواہ اور گھوڑا الاؤنس کے عوض گورنر ہاؤس کے پاس تھا۔ بعض مرتبہ یہ انتظامات ایک گورنر کے ذمے ہوتے جبکہ بعض اوقات سول اور فوجی معاملات سنبھالنے کےلیے بیک وقت دو گورنر مقرر کیے جاتے تھے جن میں سول گورنر کی ذمہ داریوں میں امن عامہ کا قیام، حکومت کے نافذ کردہ قوانین پر عملدرآمد، ٹیکس وصولی، مقدمات کے فیصلے کروانا اور سزائیں تجویز کرنا ہوتا تھا جبکہ ملٹری گورنر کا کام ملٹری کے تمام تر انتظامات سنبھالنا ہوتا تھا۔ اس زمانے میں پورے کراچی کی حفاظت کےلیے 4 ہزار فوجی اہلکار موجود تھے جو دن اور رات کے اوقات میں گھوڑوں اور خچروں پر سوار ہوکر پورے شہر کی نگرانی کرتے تھے جبکہ شہر کے عام لوگ بھی کسی قسم کی ٹرانسپورٹ نہ ہو نے کے با عث خچروں، گھوڑوں، اونٹ اور بیل گاڑیوں کو سواری اور باربرداری کےلیے استعمال کرتے تھے۔

اور کیونکہ اس وقت افغانستان، وسط ایشیا، پنجاب، سندھ سے براستہ بندرگاہ تجارت زوروں پر تھی لہٰذا باربرداری میں کام آنے والے جانوروں پر آمدن کا 12 فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا جبکہ اسی طرح جھرک تا کراچی براستہ سیہون جانے والے اونٹ کا کرایہ 10 سے 7 روپے وصول کیا جاتا تھا جبکہ ایک خطیر رقم بطور ٹیکس وصول کی جاتی تھی۔ جانوروں کے ساتھ رتی برابر زیادتی پر جانوروں کے مالکان کے خلاف بھرپور قانونی کارروائی عمل میں لائی جاتی تھی۔ ہندو مہاجن، پارسیوں اور مسلمانوں نے پورے شہر میں جانوروں کی پیاس بجھانے کےلیے جگہ جگہ نادیں اور پیاؤ بنا رکھے تھے جہاں سے جانور نہ صرف پیاس بجھاتے تھے بلکہ ان کے مالکان بھی اپنے جانوروں کو چارہ ڈال کر درخت کی ٹھنڈی چھاؤں تلے سستایا کرتے تھے۔ یہ تالپوروں کا دور تھا۔ پھر جب انگریزوں نے پورے برصغیر پر قبضہ کیا تو گھروں میں پالتو جانوروں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ مگر حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس وقت تک جانوروں کو علاج معالجے کی کوئی سہولت حاصل نہیں تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے 1892 میں جانوروں کا ایک اسپتال ایک کرائے کی عمارت میں قائم کیا گیا۔

کیونکہ باربرداری سمیت لوگوں کو منزل مقصود تک پہنچانے کےلیے مکمل انحصار جانوروں ہی پر کیا جاتا تھا اور انگریزوں کی آمد کے بعد پالتو جانوروں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوچکا تھا، لہٰذا اسپتال کی جگہ چھوٹی پڑنے لگی جس کی وجہ سے ایک انگریز کلیکٹر نے 1895 میں بندر روڈ (موجودہ ایم اے جناح روڈ) پر، پرانی اسمبلی بلڈنگ (موجودہ این جے وی اسکول) کے عین سامنے لگ بھگ ڈیڑھ ایکڑ پر ایک کشادہ اسپتال قائم کیا۔ اس اسپتال میں جانوروں کے علاج معالجے کےلیے مختلف وارڈز، آپریشن تھیٹر اور ڈاکٹر سمیت دیگر ملازمین کی رہائش کےلیے 10 کوارٹرز صرف 12 ہزار روپے میں تعمیر کرکے اسپتال کو جانوروں کےلیے کھول دیا گیا اور اسپتال کا نام اسی انگریز کلیکٹر کے نام پر ’’مسٹر کرافورڈ ویٹرنری اسپتال‘‘ رکھا گیا۔ کیونکہ ایم اے جناح روڈ اور اس کے ارد گرد کے علاقے میں انگریزوں کی بڑی تعداد موجود تھی لہٰذا اسپتال میں ہر وقت جانوروں کا رش لگنے لگا اور صرف 1896 میں اس اسپتال میں ایک سال کے دوران 828 جانوروں کا مفت علاج کیا گیا جن میں بلی، کتے، بیل، اونٹ اور گھوڑے شامل تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جانوروں کا یہ اسپتال اچھے اور قابل ڈاکٹروں کے باعث شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا اور لوگ دور درا ز سے جانوروں کے علاج کےلیے اسپتال کا رخ کرنے لگے۔ پھر باربرداری اور لوگوں کو سفری سہولت مہیا کرنے کےلیے شہر میں ٹرامیں چلنے لگیں اور ایندھن سے چلنے والے انجنوں کی بدولت اس اسپتال کی افادیت ختم ہوگئی۔ انگریزوں کی حکومت ختم ہونے اور قیامِ پاکستان کے بعد سے اس اسپتال کی اہمیت مکمل طور پر ختم ہوگئی جس کی وجہ سے آج بھی یہ اسپتال اگرچہ اپنی پرانی شان و شوکت کے سا تھ موجود تو ہے مگر جانوروں کی تعداد میں انتہائی کمی اور شہر کی اہم شاہراہ پر ٹریفک کے ازدحام کی وجہ سے اس کی ضرورت پہلے کے مقابلے میں بہت ہی کم رہ گئی ہے البتہ یہاں اب بھی جانوروں کا علاج معالجہ کیا جارہا ہے۔ ان جانوروں میں پالتو بلیاں، کتے، بکریاں، گائیں بھینسیں وغیرہ شامل ہیں۔

اب یہاں کتنے جانوروں کا علاج کیا جارہا ہے؟ اس بارے میں جاننے کےلیے اسپتال کے انچارج ڈاکٹر سے بات چیت کی جنہوں نے بتایا کہ اس اسپتال کی اہمیت اور افادیت نہ پہلے کم تھی اور نہ اب ہے۔ ہزاروں کی آبادی اب کروڑوں تک پہنچ چکی ہے، جس کے باعث یہ پہلے سے زیادہ فعال ہے اور یہاں روزانہ کی بنیاد پر مختلف جانوروں مثلاً کتوں، بلیوں، گھوڑوں، بکریوں وغیرہ کا کہیں زیادہ تعداد میں نہ صرف علاج کیا جارہا ہے بلکہ انہیں الٹراساؤنڈ، ایکسرے اور آپریشن کی جدید سہولیات بھی مہیا کی جارہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسپتال میں تین شفٹوں میں کام کرنے والے چار ڈاکٹروں اور چار اسسٹنٹس سمیت 13 افراد پر مشتمل عملہ ہر وقت اسپتال کی نگرانی کے ساتھ ساتھ جانوروں کا علاج معالجہ کرنے میں 24 گھنٹے مصروف عمل ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔