سوشل میڈیا کے ’’مجازی زندان‘‘ سے باہر نکلیے

یوسف ابوالخیر  پير 12 فروری 2018
کہیں آپ بھی سماجی رابطے کی کسی سائٹ کے قیدی تو نہیں؟
فوٹو: انٹرنیٹ

کہیں آپ بھی سماجی رابطے کی کسی سائٹ کے قیدی تو نہیں؟ فوٹو: انٹرنیٹ

زمان و مکان کی تبدیلی کے ساتھ انسان نے تحقیق و ایجادات کے ذریعے جہاں ترقی کی معراج کو پالیا ہے، وہیں اس نے خود کو قدرت کی عطا کردہ ان بہت سی راحتوں سے محروم کرلیا ہے جو انسانی زندگی کی اصل خوبصورتی اور تسکین کا ذریعہ ہیں۔

دورِ جدید کی دیگر مشغولیات میں نمایاں اور قابل ذکر مصروفیت سماجی رابطے کے ذرائع پر مشتمل ویب سائٹس ہیں۔ اب ہماری بہت سی جائز، ضروری اور فطری مصروفیات سوشل میڈیا کے ہاتھوں غصب ہوکر رہ گئی ہیں۔ رات آنکھیں موندنے سے پہلے اور صبح آنکھیں کھولنے کے بعد ہم میں سے اکثر لوگ جو واحد یا ترجیحی عمل دانستہ یا نادانستہ سرانجام دیتے ہیں، وہ موبائل چیک کرنا ہی ہے۔ سرسری طور پر اِن باکس، واٹس ایپ، ٹوئٹر اور فیس بک کا جائزہ لینے کے بعد ہی ہم دوسرا کوئی کام کرنے کےلیے خود کو آمادہ پاتے ہیں، حتیٰ کہ صبح کی پہلی رفع حاجت بھی اب دوسری ترجیح بن کر رہ گئی ہے۔

خالقِ کائنات نے اپنی افضل ترین مخلوق کو بہت سی فطری مصروفیات کے ساتھ تخلیق کیا تھا، مگر اس سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے ہمیں فطرت کی ان جاں فزا مصروفیات سے ہٹا کر محاورتاً اماوس رات کی تاریکی میں بھٹکا دیا ہے۔ پہلے تفریح کا ایک اہم ذریعہ سیر و سیاحت کے لیے نکلنا، خوبصورت مقامات کو جانا ہوتا تھا؛ مگر دورِ جدید کے انسان کے پاس اب وقت نہیں کہ وہ مظاہرِ کائنات کی جستجو میں نکلے، ’’سیرو فی الارض‘‘ پر عمل کرے، پہاڑوں کی ہیبت ناک چوٹیوں کو سر کر کے ’’والجبالَ اوتادا‘‘ کی تفسیر سمجھ سکے، وسیع و عریض میدانوں اور سبزہ زاروں میں گھوم پھر سکے، کھیتوں کھلیانوں اور ہرے بھرے باغات سے اپنی آنکھیں خیرہ کرسکے، ندی نالوں، جھرنوں آبشاروں اور سمندر کی شور مچاتی لہروں کی خوش الحان موسیقی سے اپنی سماعتوں کو معطر اور روح کو محظوظ کرسکے۔

یہ وہ فطری مصروفیات ہیں جو انسان کے قلب و روح کو سرشار کرتی ہیں، پرسکون اور تازہ دم کرتی ہیں، صحت و تندرستی بخشتی ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلے میں آج کی ’’ٹیکنالوجیکل مصروفیت‘‘ موبائل لیپ ٹاپ اور ٹیب کے ساتھ لگے رہنا، انٹرنیٹ کا بے جا استعمال سر، آنکھوں، اور ریڑھ کی ہڈی کی تکالیف سمیت دیگر مختلف خطرناک امراض اور مشکلات سے دوچار کرتے ہیں۔

جان لیجیے کہ جب تک ہم سوشل میڈیا کے ’’عقوبت خانوں‘‘ سے خود کو آزاد نہ کرا لیں، ہمیں زندگی اور کائنات کا اصل حسن نظر ہی نہیں آسکتا۔ زندگی فقط گیجٹس (gadgets) کے ساتھ لگے رہنے ہی کا تقاضا تو نہیں، تسکینِ قلب و نظر کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔ فطرت کے حسن کا نظارہ ’’فاطر السمٰوات والارض‘‘ کی منشا کے مطابق کرنا چاہیے۔

سوشل میڈیا کے زندان میں بند ہو کر جہاں آپ فطرت کے حسن کو محسوس کرنے اور اپنے اندر جذب کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں، وہیں آپ کی تخلیقی صلاحیتیں بھی بری طرح کچلی جاتی ہیں۔ آپ سطحی معلومات اور مواد میں الجھ کر رہ جاتے ہیں، گہرائی کے ساتھ مطالعہ اور سوچنے سمجھنے کے عمل سے رفتہ رفتہ دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ نتیجتاً سطحیت آپ میں پروان چڑھنے لگتی ہے اور مجموعی طور پر معاشرہ، دانش و بینش سے خالی ہوتا جاتا ہے۔ ان منفی عوامل سے محفوظ رہنے کےلیے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنی مصروفیات محدود کیجیے، خود کو سوشل میڈیا کے ہاتھوں مقید ہونے نہ دیجیے!

میرا یہ گمان ہے، اور بے حد ہے، کہ یہ ٹوئٹر، یہ فیس بک، یہ انسٹاگرام اور اسی قبیل کی دیگر سماجی ویب گاہیں اگر پہلے ایجاد ہوچکی ہوتیں تو ماضی میں جو عظیم شخصیات اور صدیوں کے فرزند جنم لیتے رہے ہیں، وہ نہ لے پاتے؛ انسانیت کےلیے ایسا بڑا کام نہ کر پائے ہوتے کہ جس سے رہتی دنیا تک لوگ انہیں اچھے ناموں سے یاد رکھتے اور ان کی خدمات سے مستفید ہوتے رہتے۔

سوچیے کہ اگر ایڈیسن کو فیس بک پر اسٹیٹس اور تصویریں اپ لوڈ کرتے رہنے کا بخار ہوتا تو کیا وہ بلب ایجاد کر پاتا؟ اگر موجدین فیس بک کی لت ہی میں پڑے رہتے تو شاید آج ہم جدید و بہترین ایل ای ڈی لائٹس سے مستفید ہونے کے بجائے دیے، چراغوں، موم بتیوں اور زیادہ سے زیادہ لالٹین ہی سے اجالا مستعار لے رہے ہوتے۔

گراہم بیل کو اگر ٹوئیٹس کرتے رہنے کی عادت لگی ہوتی تو شاید وہ ٹیلی فون ایجاد نہ کرپاتا (جس کی جدید شکل آج بچے بچے کے ہاتھوں میں اسمارٹ فونز کی صورت میں موجود ہے۔) اگر انٹرنیٹ کے موجد کو انسٹا گرام پر اپنا تھوبڑا پیش کرتے رہنے کا عارضہ لاحق ہوتا تو آج ہم اتنی بڑی سہولت سے محروم ہوتے جس کے بغیر جینے کا تصور بھی اب محال ہے، جس کے بغیر یوں محسوس ہو کہ جیسے ہم پتھروں کے دور میں جی رہے ہیں۔ اور صرف یہ محققین و موجدین ہی کیا، یہ غزالی و رومی، یہ سعدی و جامی، رواں صدی کے اقبال اور مودودی… سوچیے کہ اگر یہ تمام نابغہ ہائے روزگار شخصیات سوشل میڈیا کے ہاتھوں یرغمال ہوجاتیں تو کیا ان کے قلم سے تخلیق پانے والے علم و ادب کا ایسا بیش بہا خزینہ آج ہمیں میسر آسکتا تھا؟ مجھ سمیت آپ سب کا جواب بھی غالباً نفی میں ہی ہوگا۔

انٹرنیٹ کی ضرورت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ سوشل میڈیا پر فعال رہنا بھی کسی حد تک لازم ٹھہر گیا ہے۔ مگر اس نئی اُفتاد کی وجہ سے ہم نے جو فطری مصروفیات سے جانے انجانے میں کنارہ کشی اختیار کی ہے، اس نے ہمیں زندگانی کے حقیقی لطف سے محروم ہی نہیں، نا آشنا بھی کر دیا ہے۔ فطرت کے تقاضوں سے روگردانی کر کے ہم چاہے جتنی ترقی کرلیں، جدت لے آئیں، اس سکون اور آسودگی کو نہیں پا سکتے جو خدائے مہربان نے اپنی افضل ترین مخلوق کےلیے رکھ چھوڑا ہے۔

اگر زندگی اور کائنات کے اصل حسن سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو پہلے دیکھیے کہ کہیں آپ بھی سماجی رابطے کی کسی سائٹ کے قیدی تو نہیں؟ اگر ہیں، تو فی الفور سوشل میڈیا کے حصار سے باہر آئیے، کچھ وقت فطری مصروفیات کے لیے مختص کیجیے۔ آپ کےلیے آپ کے رب نے تخلیق کے جو شاہکار، آشکار کیے ہوئے ہیں، ان پر نگاہ تو کیجیے، ذرا نظرِ غائر سے ان کا مشاہدہ تو کیجیے۔

یقین جانیے! آپ کی زندگی اتنی حسین ہوجائے گی کہ آپ کو کائنات کے خالق پر، اور خود کو اس کا بندہ ہونے پر بھی رشک آنے لگے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

یوسف ابوالخیر

یوسف ابوالخیر

بلاگر وفاقی اردو یونیورسٹی میں ایم اے ابلاغِ عامّہ کے طالب علم ہیں۔ مختلف اخبارات اور چینلوں سے وابستہ رہ چکے ہیں جبکہ حالات حاضرہ پر لب کشائی کرتے رہتے ہیں۔ روایتی اور مروجہ انداز و اصالیب سے ہٹ کر کچھ منفرد لکھنے کے قائل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔