محبت؛ سراب سے حقیقت کا سفر

ذیشان الحسن عثمانی  جمعـء 9 فروری 2018
محبت ایسا فقیر ہے کہ سخاوت جس کی محتاج ہو۔
فوٹو: انٹرنیٹ

محبت ایسا فقیر ہے کہ سخاوت جس کی محتاج ہو۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ویلنٹائنز ڈے کی پھر سے آمد آمد ہے۔ دسمبر میں جدائیوں کے راگ الاپنے والے سوٹ اور ٹائی پہن کر گلابوں کے خریدار بننے ہی والے ہیں۔ اُمنگوں، خواہشوں، زیارتوں اور اُمیدوں کا ایک بازار پھر سے لگے گا۔ شیریں فرہاد، لیلی مجنوں، ہیر رانجھا اور کتنے ہی محبت کے استعاروں پر پھر سے ہوس کی کالک مَلی جائے گی۔ پاکیزہ جذبوں میں جسم کی ملاوٹ ہوگی اور جو شئے خُدا تک لے جا سکتی تھی، ہم اسی کو الٹا چلا کر اخلاقی خودکشی کرلیں گے۔

پھر سے ٹی وی پروگرامز چلیں گے، پھر سے مقررین آ کر آسمانوں پر جوڑے بننے سے لے کر کُنڈلیاں ملانے تک کے دعوے کریں گے۔ پھر سے بیہودہ گانے اور واہیات لطیفے سننے کو ملیں گے اور ایک بار پھر سے واٹس اپ اور ایس ایم ایس کے پیغامات نیند حرام کریں گے۔

حیران ہوتا ہوں کہ کیا تماشا ہے؟ سوچا کہ محبت کی تعریف و اقسام پر کچھ لکھ دوں کہ کوئی تو ہو جو اس جذبے کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھ سکے اوراس کی حُرمت کا محافظ ہو، یا کم از کم تماشائی۔

محبت اس تحریک کا نام ہے جو سراب سے حقیقت کی طرف سفر کرتی ہے۔ یہ وہ لت ہے کہ جسے لگ جائے، وہ کہیں کا نہیں رہتا۔ وہ خزانہ ہے جسے مل جائے وہ فقیر ہو جاتا ہے، وہ حِس ہے جس سے رنگ سنائی دیں اور خوشبو نظر آنے لگے۔ وہ سودا ہے جس میں خسارہ بھی نفع ہے اور ہار بھی جیت۔

محبت شوق ہے جاننے کا، پہچاننے کا، حقیقت کو سمجھنے کا، معرفت کا۔

محبت بقاء ہے کہ عشق میں فنا ہوجانے والے ہی باقی رہتے ہیں۔

محبت شکایت ہے جو نظروں سے کی جاتی ہے۔

محبت سانجھ سمے کی آس ہے کہ جب وقت مل رہے ہوتے ہیں تو کتنے ہی ایسے ہیں جو بچھڑ جاتے ہیں۔

محبت آس ہے جو مرنے کے بعد بھی قائم رہتی ہے۔

محبت جوت ہے جو مالک کی طرف کھینچتی ہے۔

محبت وہ دھاگہ ہے جو حد سے تجاوز نہیں کرنے دیتا۔

محبت مانگ ہے جو اپنے بدلے میں دو جہاں مانگ لیتی ہے۔

محبت سوز ہے جو رات کی تاریکیوں میں آنکھوں سے ٹپکتا ہے۔

محبت انداز ہے جو روٹھ جانے پر خوشی بن جاتا ہے۔

محبت ضد ہے کہ غلطی پر انعام ملے۔

محبت جستجو ہے جو محبوب کو پا لینے تک چلتی رہتی ہے۔

محبت وہ نام ہے جو گمنام کرکے چھوڑتا ہے۔

محبت تصوف ہے کہ بندگی سیکھنے کی تڑپ دیتی ہے۔

محبت ربّ ہے جو بندے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتی۔

محبت عموماً یک طرفہ ہی ہوتی ہے، دو طرفہ تو بزنس ہوتا ہے۔ اور اگر جواب آئے بھی تو راستے ضرور الگ الگ ہوتے ہیں۔ جانے کا اور تو آنے کا اور۔

محبت روگ ہے جو صرف بڑھتا ہے۔

محبت فقیر ہے ایسا کہ سخاوت جس کی محتاج ہو۔

محبت چھوڑ دیتی ہے، محبت روند دیتی ہے، جھنجوڑ ڈالتی ہے، کہیں کا نہیں چھوڑتی۔

آپ نے پڑھا ہوگا اللہ سبحان و تعالٰی کہتے ہیں کہ وہ ہمیں اولاد و مال سے آزمائیں گے۔ یہی تو آزمائش کی وہ بھٹی ہے جس میں جل کر محبت کندن بنتی ہے۔ محبت خود جواب سکھاتی ہے دنیا کے سوالوں کا۔

محبت جنگ ہے جو آپ کے نفسِ امارہ اور حُبِ الہٰی کے بیچ چلتی ہے۔ بندہ ایک کو دوسرے سے ٹکراتا ہے اور خود تماشا دیکھتا رہتا ہے کہ کس کی جیت ہوئی۔ یہ تماشا تو خُدا بھی دیکھتا ہے اور اس پر بڑا انعام دیتا ہے۔

کہتے ہیں کہ بھلے وقتوں میں کوئی مجذوب تھا۔ انتہائی بے حال، فقر کا مارا، یخ سردی میں نامکمل لباس، بال بڑھے ہوئے، روتا چلا جاتا تھا کہ مالک کس حال میں رکھ چھوڑا ہے، کوئی پیسے ہوتے تو کچھ تو بہتری کی صورت کرتا۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا، وہاں کچھ عرصے پہلے کسی بادشاہ کا گزر ہوا تھا، اس کا بھولا ہوا ہیروں کا ہار اس مجذوب کے پاؤں تلے آجاتا ہے، خوشی خوشی اٹھا کر چل بنتا ہے، مگر اب پھر روتا جاتا ہے، کہ کیا آدمی شکایت بھی نہ کرے۔

محبت کائنات کی واحد شئے ہے جہاں سیدھا الٹا، ہاں نہ، شکایات و شکریہ، سب برابر ہوجاتے ہیں۔

لکھنے کو تو ہزار اور چیزیں لکھوں مگر آپ لوگ کتابی باتیں بول کر شانے جھٹک دیں گے۔ یہ محبت ہی تو ہے جو اقبالؒ کو یہ کہنے پر مجبور کر دیتی ہے:

کبھی اے حقیقتِ منتظَر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبینِ نیاز میں

محبت کی ایک خاص قسم بھی ہے جو گناہ گاروں کو ہوتی ہے اپنے ربّ سے، اور اللہ کو ہوتی ہے اپنے گناہ گار بندوں سے۔ یہ قرب سے دوری کی طرف سفر کرتی ہے۔ جیسے ماں باپ، بچوں کو بورڈنگ اسکول میں چھوڑ آتے ہیں، جیسے ماں دو سال کے بچے کو دور کھڑا کرکے اپنی طرف چلنے کا کہتی ہے۔ یہ بھی اِسی طرح بندے کو کہیں دور، بہت دور، گناہوں کی دلدل میں جا پھینکتی ہے اور انتظار کرتی ہے کہ وہ پُکارے، وہ مانگے، وہ تڑپے، وہ آنے کا سودا کرے، وہ چلے تو سہی۔

یہ کبھی بیماری دے تو کبھی آرے سے چیروا دے۔ کبھی بازار میں بکوا دے تو کبھی ہجرت کروائے۔ کبھی بیٹا ذبح کرنے کا کہہ دے تو کبھی اہل و عیال کو چھوڑ کے جانے کا، تو کبھی طُور پر بلا لے تو کبھی خود اٹھا کر معراج پر لے جائے۔

دو باتیں زندگی میں آج تک سمجھ میں نہیں آئیں: مطمئن دل کے ساتھ تہجد گزار کی راتیں بہتر ہیں یا مضطرب روح کے ساتھ ندامت میں تڑپنے والوں کی؟ اور کیا وہ نیکیاں بہتر ہیں جو دکھاوے میں پوری ہوگئیں یا وہ گناہ افضل ہیں جو اللہ کے ڈر سے ادھورے رہ گئے۔

بندے پر نہ حالات کا جبر ہوتا ہے نہ طبیعت کا، سو فیصد گناہ پر قدرت رکھتا ہے مگر عین وقت پر زبان، جسم، ہاتھ، خیال رک جاتا ہے کہ گناہوں کی اس دلدل میں دھنسنے کے باوجود کوئی ہے جو دیکھ رہا ہے۔ مجھے پیار کرتا ہے، مجھے بخش دے گا اور پھر بندہ اس کی محبت میں رک جاتا ہے۔

یا ذوالجلالِ والاکرام، یااللہ، اے میرے مالک! مجھے اس محبت کی قسم جو تجھے مجھ سے ہے۔ میں ہر اس محبت کو جو تیرے اور میرے بیچ میں آئے، قربان کرتا ہوں۔ تُو اپنا بنا لے تو اور کیا چاہیے۔ جہاں آج تیرے لاکھوں بندے تجھے عبادات کا نذرانہ بھیج رہے ہوں گے وہاں میری اس گناہوں کی ٹوکری میں صرف ایک آنسو ہے، مجھے تجھ سے محبت ہے۔ تیری قسم، سچ کہتا ہوں، تو پاک کر دے اور قبول کرلے!

آئی لو یو میرے اللہ، آئی لو یو۔

ویلنٹائنز ڈے پر عشقِ مجازی سے حقیقی کا راگ الاپنے والو! بادشاہ کے محل کا راستہ گٹر سے نہیں جاتا۔ کچھ تو شرم کرو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔