عہد التمیمی فلسطین کی جرأت مند بیٹی؛ ’’ میں بولتی ہوں تو الزام ہے بغاوت کا‘‘

عبد الطیف ابو شامل  اتوار 11 مارچ 2018
جج نے پوچھا تم نے اس باوَردی فوجی کو تھپڑ کیسے مارا؟ عہد نے کہا میری ہتھکڑیاں کھول دو تاکہ عملاً بتائوں کہ کیسے مارا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

جج نے پوچھا تم نے اس باوَردی فوجی کو تھپڑ کیسے مارا؟ عہد نے کہا میری ہتھکڑیاں کھول دو تاکہ عملاً بتائوں کہ کیسے مارا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

پچھلے دنوں ایک واقعہ ہوا۔ ایک نوجوان لڑکی جو جینز اور شرٹ میں ملبوس تھی، اس نے اپنے الجھے ہوئے بالوں کو یک جا رکھنے کے لیے ایک ربر بینڈ سے کسَا ہوا تھا، گردن کے گرد مزاحمت کا نشان رومال لپیٹے وہ دیکھنے ہی میں لاابالی لگتی ہے، اس لڑکی نے ایسی جرأت، اور شجاعت دکھائی کہ اب وہ عالمی ذرایع ابلاغ کی شہہ سرخیوں میں ہے۔

یہ نومبر 2012 تھا، جب سنہرے گھنگھریالے بالوں والی ایک چھوٹی سی گڑیا جیسی معصوم بچی ایک غاصب اسرائیلی فوجی کے سامنے کھڑی اسے للکار رہی تھی، ڈانٹ رہی تھی، چیخ رہی تھی، اسے دُھتکار رہی تھی، اور اسرائیلی فوجی اپنے ہاتھوں میں جدید ترین موت برسانے والی مشین لیے کھڑا اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اس بچی کی اسی جرأت کا نتیجہ تھا کہ ایک ہفتے بعد ہی انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے اسرائیلی فوجی نے ربر کی گولیاں اور آنسو گیس کا شیل پھینک کر اسے مضروب کردیا تھا۔

یہ معصوم بچی فلسطین کے عالمی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقے مغربی کنارے کے نزدیک ایک گائوں ’’ نبی صالح‘‘ کی مکین ہے اور اس کا نام ہے، ’’عہد التمیمی‘‘۔ اب اس کی عمر17سال ہے۔ عہد التمیمی کا بچپن اسرائیل کے غاصبانہ اور تسلط پسندانہ عزائم کے خلاف جدوجہد کرنے والے ماں باپ کے زیر سایہ گزرا ہے۔ عہد کے والد باسم التمیمی کا شمار اسرائیل کے خلاف وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں میں نمایاں ترین ہے۔

اسرائیل کی جانب سے باسم التمیمی کو مارچ 2011 میں عوام کو پرتشدد مظاہروں اور اسرائیلی فوجیوں پر پتھرائو پر اکسانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ باسم کی گرفتاری پر بین الاقوامی ذرایع ابلاغ اور حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ باسم کا جرم کیا تھا، یہی کہ وہ اپنی دھرتی پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف کئی سال تک ہر ہفتے مغربی کنارے کے علاقے میں پُرامن مظاہروں کا اہتمام کرتا رہا ہے۔ وہ پُرامن تھا اور احتجاج کررہا تھا جس کا حق دنیا کے ہر انسان کو حاصل ہے۔ کسی قابل اعتراض سرگرمی کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور یورپی یونین کی جانب سے اس کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ لیکن اسرائیل میں مظلوم کی آواز سننے کے لیے کوئی در نہیں کُھلتا، اس لیے اس نے عالمی قوانین کو روندتے ہوئے 2011 میں باسم کو گرفتار کیا اور ایک مرتبہ نہیں، ایسا کئی مرتبہ ہوچکا ہے۔

باسم ہی کے ہی ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ان کی ایک کزن اسرائیلی فوج کے جانب سے جھڑپ کی وجہ سے حادثے کا شکار ہوکر شہید ہوئیں۔ باسم التمیمی کے بہنوئی کو بھی اسرائیلی فوج نے انتہائی قریب سے نشانہ بنا کر شہید کیا تھا۔ جرأت کا استعارہ بننے والی، سنہرے بالوں والی بہادر و بے باک عہد التمیمی اسی بہادر باپ باسم التمیمی کے چار بچوں میں سے ایک ہے۔ عہد کے بھائی واعد التمیمی کو بھی 2015 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ 2012 سے جب عہد التمیمی کی عمر صرف گیارہ سال تھی، اسے عالمی طور ایک ممتاز فلسطینی مزاحمت کار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اسے 11 سال کی عمر میں ہی صدر محمود عباس نے بہادری اور مزاحمت پر ایوارڈ سے نوازا، اور پھر دسمبر 2012 میں ترکی کی ایک میونسپل کونسل کی جانب سے عہد کو اس کی بہادری پر ’’ حنظلہ ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔

اگست 2015 میں جب عہد کے 12 سالہ بھائی کو اسرائیلی فوج گرفتار کرنے آئی تو اس وقت بنائی گئی ایک ویڈیو میں عہد کو اسرائیلی فوج سے الجھتے، جھگڑتے اور ایک فوجی کے ہاتھ پر کاٹتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ستمبر 2017 میں عہد التمیمی نے یورپی پارلیمنٹ میں ’’فلسطین کی عوامی مزاحمت میں عورتوں کا کردار‘‘ پر منعقد کی گئی ایک کانفرنس میں اپنے ملک کی نمائندگی بھی کی۔

فلسطین میں اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ عہد التمیمی کی تازہ ترین جھڑپ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر آج کل وائرل ہے، جس میں عہد، اس کی کزن اور والدہ کے ساتھ اسرائیل کی فوج سے جھگڑنے کا ایک منظر ہے۔ ویڈیو میں عہد کو بلاخوف و خطر اسرائیلی فوج کے سپاہیوں سے الجھتے اور ایک فوجی افسر کے منہ پر تھپڑ مارتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ہتھیاروں سے مسلح فوجی جوانوں کو عہد اپنے مُکّوں، تھپڑوں اور ٹھوکروں سے نشانہ بنا رہی ہے۔ اس واقعے کے تین دن بعد عہد التمیمی کو اس کے گھر سے رات تین بجے گرفتار کرلیا گیا۔ جب عہد کی والدہ اس سے ملنے گئیں تو اسرائیلی فوج نے انہیں بھی گرفتار کرلیا۔ عہد التمیمی کی کزن نور کو بھی اسرائیلی فوج کی تحویل میں لے چکی ہے۔

عہد التمیمی کو گرفتاری کے بعد 19 دسمبر کو فوجی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اسے پہلے چار دن کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا اور 25دسمبر کو اس ریمانڈ میں مزید چار دن کی توسیع کردی گئی۔ عہد کے بیان کے مطابق واقعے سے ایک گھنٹے پہلے اسرائیلی فوج نے اس کے 14 سالہ کزن کو ربر کی گولیوں کا نشانہ بنایا اور جب تھوڑی دیر بعد اس نے ان ہی فوجیوں کو اپنے گھر کے باہر دیکھا تو وہ اور اس کی کزن نور انہیں دیکھ کر مشتعل ہوکر ان سے الجھ پڑیں۔ عہد کے اس کزن محمد التمیمی کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں اس کا زخمی چہرہ دیکھا جاسکتا ہے۔

عہد کی گرفتاری کے بعد سے دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، اس کی گرفتاری پر امن پسند اور انسان دوست یہودی بھی سراپا احتجاج ہیں۔ عہد کی طرح فلسطین کا ہر بچہ، جوان، مرد و خاتون کم و بیش اسی طرح کے مسائل سے دوچار ہے۔ عہد التمیمی اپنی قوم کے لیے بہت خاص بھی ہے اور ان کے لیے ایک ہیروئن کی طرح قابلِ عزت اور جرأت کا نشان بھی۔ فلسطین کا ہر بچہ اس کی جرأت و بے باکی سے مہمیز پاکر عہد التمیمی بننے کا منتظر ہے۔ آج وہ دنیا بھر کے لیے آزادی سے جینے کے بنیادی حق کی جدوجہد کی ایک تاب ناک علامت بن چکی ہے۔

عہد پر 12 الزامات عاید کیے گئے ہیں جو اسے 10 برس تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھ سکتے ہیں۔ مغربی کنارے میں واقع اسرائیل کی ایک جیل میں قائم خصوصی فوجی عدالت میں اس کا مقدمہ چل رہا ہے اور وہ بھی بند کمرے میں جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ جس جج کے سامنے عہد التمیمی کو ہتھکڑیاں لگا کر پیش کیا گیا۔ اس نے پوچھا، تم نے اس باوردی فوجی کو تھپڑ کیسے مارا ۔۔۔۔۔ ؟ عہد نے کہا، میری ہتھکڑیاں کھول دو تاکہ عملاً بتائوں کہ کیسے مارا۔ عہد التمیمی پر اسرائیلی فوجی پر حملہ کرنے، فوجی کی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنے اور فوجی اہل کاروں پر پتھرائو کرنے کے الزامات عاید کیے گئے ہیں۔ عہد التمیمی کی گرفتاری کے بعد اس کے والد باسم نے اپنی بیٹی کو اسرائیلی قبضے کے خلاف آواز اٹھانے والی ہیروئن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اس پر فخر ہے۔ عہد کی والدہ ناریمان کو بھی اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ عہد سے ملنے پولیس اسٹیشن گئی تھیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2012 میں عہد کے والد، باسم کو ’’ ضمیر کا قیدی‘‘ قرار دیا تھا۔ اب عہد التمیمی سفاک اسرائیلی حکومت کے زیرعتاب ہے۔ عہد کی گرفتاری اس وقت ہوئی تھی جب ایک دن قبل امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے یروشیلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے اعلان کے بعد نوجوانوں نے احتجاج شروع کر دیا تھا۔ عہد التمیمی کے والد کا کہنا ہے کہ فوجیوں نے رات کے تین بجے ان کے گھر پر چھاپا مارا اور ان کی بیٹی کو اٹھا کر لے گئے۔ جب ان کی بیوی نے فوجیوں کو روکنے کی کوشش کی تو انہیں بھی دھکا دے کر گرا دیا گیا۔

انسان دوست دانش ور اور صحافی نوم چومسکی نے ایک فلسطینی کے احساسات و جذبات کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ تم نے میرا پانی چھین لیا، زیتون جلا ڈالے، گھر مسمار کردیے، روزگار چھین لیا، زمین چُرا لی، باپ قید کردیا، ماں مار ڈالی، میری دھرتی کو بموں سے کھود ڈالا، میرے راستے میں فاقے بچھا دیے، مجھے کہیں کا نہ رکھا اور اب یہ الزام بھی کہ میں نے تم پر راکٹ کیوں پھینک دیا کیوں کہ یہ حق تو صرف تمہارا ہے۔‘‘

صابرہ اور شتیلہ کا وحشیانہ قتل عام تو ابھی زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔ اسرائیل نے فلسطین کے عوام کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کرتے ہوئے اپنی آبادیوں کی فصل اْگالی اور ان میں دن بہ دن اضافہ ہی کیے جارہا ہے۔ اس نے فلسطینی عوام کی نہ صرف زمین ہتھیائی بل کہ ان کے معاشی قتل عام کے بھی پورے انتظامات کیے۔ فلسطینیوں کے لیے زیتون کے درخت معاشی خوش حالی کے ضامن تھے، اس نے انہیں ہر جگہ بے دردی سے کاٹ ڈالا، فلسطینیوں کے لیے کاروبار ممنوع قرار دیا گیا اور ان کے منڈی تک پہنچنے کے راستے مسدود کردیے گئے۔ اسرائیل نے وحشیانہ طریقے اختیار کرتے ہوئے ان کی تحریک کو کچلنے کے سارے حربے استعمال کیے۔ اب جب کہ فلسطینی دوریاستی منصوبے کو تسلیم کرتے ہوئے رضامند ہیں انہیں الگ ملک بناکر دے دیا جائے اور اسے عالمی برادری کی بھی حمایت حاصل ہے، لیکن اسرائیلی ہٹ دھرمی اپنی جگہ برقرار ہے اور وہ ان کے کسی بھی مطالبے کو ماننے پر تیار نہیں ہے۔

اسرائیل نے اپنی اس دہشت گردی کو ایکسپورٹ کرنا بھی شروع کردیا ہے۔ اس کی حالیہ مثال اسرائیلی وزیراعظم کا دورۂ بھارت ہے، جس میں اس نے بھارت کو ہر ممکن مدد، جس میں عسکری تعاون اور اسلحے کی فراہمی بھی شامل ہے، کا یقین دلایا ہے۔ اسرائیل اور بھارتی گٹھ جوڑ ہی کا شاخسانہ ہے کہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کو کچلنے کے لیے وہی وحشیانہ حربے استعمال کیے جارہے ہیں جو اسرائیل فلسطینیوں کی جدوجہد کو کچلنے کے لیے آج تک استعمال کر رہا ہے۔ کشمیر میں اسرائیلی فوجی مشیر اکثر کشمیر کے دورے کرتے رہتے اور انڈیا کو اس تحریک کو کچلنے کے نت نئے طریقے سکھا رہے ہیں۔ مظاہرین پر ربر کی گولیاں برسانا اور پیلٹ گن کا استعمال اس کا ثبوت ہیں۔ ایسے میں عہدالتمیمی کا طمانچہ ایک فوجی کے منہہ پر نہیں اس دہشت گرد اور ظلم کی معاون ومددگار ریاست کا رخسار سْرخ کرگیا ہے۔ یہ ان ریاستوں کے منہہ پر بھی تھپڑ ہے جنھیں خوف، مفادات اور مصلحتیں اسرائیل کے خلاف کھل کر بولنے اور کسی اقدام سے باز رکھے ہوئے ہیں۔

اس جری لڑکی سے اسرائیلیوں کے سلوک پر پاکستانی ذرائع ابلاغ کی خاموشی ایک الگ المیہ ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ سیاست دانوں کے چٹکلے سنانے اور دکھانے کا پورا اہتمام کرتے ہیں۔ کسی اداکارہ، ماڈل ، کسی فیشن شو کی داستانیں سناتے نہیں تھکتے، لیکن عہد التمیمی کی گرفتاری پر کامل سکوت اختیار کیے ہوئے ہے۔ کیا یہ صحافتی بددیانتی کے زمرے میں نہیں آتا ؟ ذرایع ابلاغ کے صاحبان اختیار کو اپنی اس روش پر غور کرنا اور اسے بدلنا چاہیے۔

عہد التمیمی کو شاید قید کیا جاسکتا ہے، اسے سزا بھی دی جاسکتی ہے، لیکن۔۔۔۔۔ یہ صہیونی حکم راں بھی جانتے ہیں کہ وہ عہد کے سفر کو روک نہیں سکتے، اس کی سوچ کو قید نہیں کرسکتے، اس کے جذبے کو پابند سلاسل نہیں بنایا جاسکتا، اس کی جلائی ہوئی شمعوں کو گُل نہیں کیا جاسکتا۔

فضا میں پھیل چلی میری بات کی خوش بُو
ابھی ہوائوں سے میں نے تو کچھ کہا بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اصل بات یہ ہے۔۔۔
صہیونیو!
محمد عثمان جامعی

ننھے قدموں کی نرم آہٹ بھی
دل میں سو وسوسے جگاتی ہے
لحن عربی میں نغمہ سنجی سے
دل اُچھل کر حلق میں آتا ہے
ہاتھ اٹّھے تو جاں نکلتی ہے
سرسراہٹ سے جان جاتی ہے

پتھروں پر تمھیں بموں کا گُماں
اور آہوں پہ گولیوں کا گماں
ایک نعرہ فضا میں پَر تولے
سینے میں ہول اُٹھنے لگتے ہیں
اور یہ گَن لیے توانا ہاتھ
کپکپانے لرزنے لگتے ہیں

برہمی دیکھتے ہی آنکھوں میں
وردیوں میں پسینے چھوٹتے ہیں
کوئی چھوٹی سی، شاخ ِ گُل سی ’’عہد‘‘
شاخِ زیتوں سا بازو کرکے بلند
اپنا نازک سا مُکا لہرا دے
خوف سے پڑتے ہیں سیہ چہرے
کیسی صورت تمھاری ہوتی ہے
حالت جنگ طاری ہوتی ہے
تر ہتھیلی سے دستے چھوٹتے ہیں

جانتے ہو یہ کیسی دہشت ہے؟
ہے خبر، اس قدر ہراساں کیوں؟
کیوں یہ اتنا ڈرے ہوئے ہو تم؟
کس لیے تم پہ اُتری وحشت ہے؟

جس زمیں پر ہو وہ پَرائی ہے
تم نے نبیوں کی پاک دھرتی پر
دور دیسوں سے لا کے پردیسی
جھوٹ کی مملکت بنائی ہے
ہیں تمھارے نہیں یہ ارض وسما
اور اس دیس کے نہیں ہو تم
غیر ہو اور اجنبی ہو تم
اجنبی ہی سدا رہو گے یہاں
ایک پل چین تم نہ پاؤ گے
جیسے بستی میں ابن آدم کی
رہیں کُتّے ڈرے ڈرے سہمے
ایک جُنبش پہ چونکنے والے
اور سایوں پہ بھونکنے والے
یوں ہی سہمے ڈرے رہو گے تم
کاٹتے بھونکتے رہو گے تم
۔۔۔۔۔
دنیا کے تمام راہ نماؤں کے نام….
عہد التمیمی کے والد باسم التمیمی کا کھلا خط
ہم عہد التمیمی اور تمام فلسطینی بچوں کو آزاد کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں جنہیں ناجائز طور پر فوجی قید میں رکھا گیا ہے۔ عالمی برادری کو ان قید خانوں میں بچوں کو حراست میں رکھنے اور ان سے بدسلوکی کا خاتمہ کرنا ہوگا، اب بہت ہوگیا۔

اسرائیلی فوجی جیلوں میں قید عہد اور تمام فلسطینی بچوں کے نام:

ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور آپ لوگ ہمارے دلوں میں ہیں۔ ہم تب تک ہار نہیں مانیں گے، جب تک آپ لوگ آزاد نہیں ہوتے۔ آپ لوگ تنہا نہیں ہیں۔چند ہفتے قبل فوجیوں نے رات کے اندھیرے میں میرے گھر پر دھاوا بول دیا اور میری 17 سالہ بیٹی کو اٹھا کر قید خانے میں لے گئے۔ اب وہ ایک سرد کوٹھڑی میں ہے۔ میں اپنی زندگی عوامی مزاحمت کے لیے وقف کر چکا ہوں۔ اسی لیے فوج نے میری بیٹی کو پکڑا ہے۔ وہ ہمارا حوصلہ توڑنا چاہتے ہیں۔ لیکن میں Avaaz کا آٹھ سال سے رکن ہوں، میں نے اس کمیونٹی کی طاقت دیکھی ہے، ہم سب کو ناانصافی کے خلاف کھڑے ہوجانا چاہیے۔ میری بیٹی کا مقدمہ 6 فروری کو عدالت جائے گا لیکن اسرائیل کی فوجی عدالتیں 99 فی صد فلسطینیوں کو مجرم ٹھہراتی ہیں، خواہ وہ بچے ہی ہوں۔ بہ راہِ کرم صرف ایک کلک کے ذریعے نیچے میرے فوری اور ضروری مطالبے میں شامل ہوں ۔ ہم اسے براہِ راست عالمی راہ نماؤں تک لے جائیں گے۔

جب میں نے اسے عدالت میں دیکھا تو اس کا رنگ زرد تھا اور وہ کانپ رہی تھی۔ وہ زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی اور واضح طور پر تکلیف میں تھی۔ میں رونا چاہتا تھا لیکن نہ رو پایا، مجھے مضبوط رہنا ہے کہ وہ مضبوط رہے۔

پھر جج نے ضمانت دینے سے انکار کر دیا، اور اب میری بچی منصفانہ سماعت ملنے تک سلاخوں کے پیچھے مہینوں یا سالوں رہے گی۔ اس کے ساتھ اس سلوک کی کوئی وجہ نہیں ہے! اسے آتشیں اسلحے سے لیس اس افسر پر ہاتھ اٹھانے پر اسرائیلی گرفتار کر کے لے گئے، جب اس کے سپاہیوں نے اس کی چھوٹی کزن کو چہرے پر گولی مار کر اس کا سر زخمی کردیا۔ وہ اس پر 12 جرائم کا الزام لگا رہے ہیں۔

سن 2000 سے اب تک 12,000 فلسطینی بچوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ خواہ آپ اس تنازع میں جس طرف بھی ہوں، ہم سب اس پر اتفاق کریں گے کہ کسی بھی بچے کو منصفانہ سماعت کے بغیر فوجی قید خانے میں رکھنا اور بدسلوکی کا شکار نہیں بنایا جانا چاہیے۔

میں ذاتی طور پر سفارت کاروں تک پہنچا ہوں۔ لیکن مجھ اکیلے کی آواز اتنی طاقت ور نہیں۔ اسی لیے میں اب آپ سے درخواست کر رہا ہوں کہ میرے ساتھ کھڑے ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ فوجی جج اپنی طرف عالمی توجہ نہیں چاہتے، اور اسرائیلی سیاست دان نہیں چاہتے کہ قیدی بچوں کا معاملہ ان کے لیے ایک بڑا عوامی اسکینڈل بنے۔ اپنا نام شامل کریں، ہمارے پاس صرف چند دن ہیں، میں آزادی، انصاف اور اگلی نسل کے لیے بہتر دنیا بنانے میں اس تحریک کی قوت اور جذبے سے متاثر ہوں۔ اسی لیے میں آپ تک آیا ہوں، کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ اگر کوئی میری بیٹی اور تمام بچوں کو آزاد کروا سکتا ہے تو وہ Avaaz کمیونٹی ہے۔

امید اور عزم کے ساتھ ….(Avaaz ٹیم کے ساتھ ’’ باسم التمیمی‘‘ )

Avaaz ایک عالمی تنظیم ہے، جو امریکا کے شہر نیویارک میں جنوری 2007 میں قائم کی گئی۔ اس کے بانی اور سی ای او Ricken Patel ہیں۔ یہ تنظیم دنیا بھر میں انسانی حقوق کی پاس داری، آزادی صحافت اور ماحولیات کی بہتری کے لیے کام کرتی ہے۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے مظاہروں کا اہتمام بھی اس کے مشن میں شامل ہے۔ اس تنظیم کے دنیا کے 194 ممالک میں چار کروڑ ساٹھ لاکھ اراکین ہیں۔ عہد التمیمی کے والد باسم التمیمی بھی اس تنظیم کے رکن ہیں۔ انہوں نے عہد التمیمی کی فوری رہائی کے لیے جو آن لائن پٹیشن فائل کی ہے، اس پر دنیا بھر سے لاکھوں افراد نے اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ آپ بھی اس تنظیم کی ویب سائٹ پر جاکر عہدالتمیمی کی فوری رہائی کے لیے اپنی آواز بلند کرسکتے ہیں۔ تنظیم کا پتا یہ ہے:
www.avaaz.org

قید میں سال گرہ
عہد التمیمی اسرائیل کی فوجی جیل میں قید ہے، 31 جنوری کو وہ 17سال کی ہوگئی ۔ اس موقع پر امریکا سمیت دنیا بھر سے انسان دوست اور انسانی حقوق کے علم برداروں نے اسے اور اس کے گھر والوں کو تہنیت کے ہزاروں پیغامات، کارڈز اور کیک بھیجے۔ ان تہنیتی پیغامات میں امریکا میں مقیم یہودی نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جنہوں نے عہد کو سال گرہ کی مبارک باد دیتے ہوئے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے اسرائیل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

عہد التمیمی…. منزل تک پہنچنے کے لیے مزاحمت کا روشن راستہ
دنیا بھر کے مزاحمت کاروں کے محبوب انقلابی لیڈر ’’ چی گویرا‘‘ کی ایک پورٹریٹ سے مقبول ہونے والے آئرش مصوّر جمِ فٹز پیٹرک نے فلسطینی مزاحمت کی علامت دوشیزہ ’’عہد التمیمی‘‘ کی تصویر بناکر آزادی کے اس استعارے کو قابض فوج کے سامنے ڈٹ جانے پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس نے اسرائیلی جیل میں قید عہد التمیمی سے اظہار یک جہتی کے طور پر اس کی یہ تصویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی ہے، جس میں فلسطینی مزاحمت کار کو ہالی وڈ کی معروف فلم اور کامک کردار کی مناسبت سے حقیقی ’’ونڈر وومن‘‘ قرار دیا ہے۔ اس نے عہد کے اس پورٹریٹ کو ذرائع ابلاغ کے لیے کاپی رائٹ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے تاکہ دنیا کے حریت پسند اور انسان دوست عہد التمیمی کی اس تصویر کو آن لائن پھیلا کر اس کی بہادری کی ستائش اور مطالبات کی حمایت کریں۔

فلسطینیوں نے جمِ فٹز پیٹرک کے بنائے گئے عہد التمیمی کے اس پورٹریٹ کے بل بورڈز مقبوضہ بیت المقدس کی شاہ راہوں اور سڑکوں پر نصب کردیے ہیں۔ امریکی مزاحیہ اداکارہ ’’ سارہ لیورمین‘‘ نے بھی عہد التمیمی کے حق میں آواز اٹھاتے ہوئے انسان دوست یہودیوں سے سفاک اسرائیلی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا عہد التمیمی کو فوری رہا کرنے کا مطالبہ
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے قابض اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مارنے والی فلسطین کی اس بہادر لڑکی فی الفور رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ایمنسٹی انٹرنیشنل برائے مشرقِ وسطی اور شمالی افریقا میگڈالینا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل کے پاس ایک نہتی لڑکی کو مسلسل حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں، اس لیے اسرائیل بغیر کسی تاخیر کے فوری طور پر عہد التمیمی کو رہا کرے۔

میگڈالینا نے کہا کہ ایک غیر مسلح لڑکی پر دو اسلحہ بردار اسرائیلی فوجیوں پر حملے کا الزام عاید کرکے 10 سے زاید الزامات لگانا کسی طور مناسب نہیں، جب کہ ویڈیو میں صاف واضح ہے کہ ایک نہتی لڑکی فوجیوں کے لیے حقیقی خطرہ نہیں تھی اور ان حقائق کے باوجود نوعمر لڑکی کو قید و صعوبت کی سزا دینا وحشیانہ عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ عہد التمیمی کی گرفتاری اور اس کے خلاف فوجی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات نے اسرائیلی حکام کو مزید بے نقاب کردیا ہے کہ کس طرح مقبوضہ علاقوں میں قابض فوجی فلسطینی بچوں کے ساتھ ظلم و بربریت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور فوجیوں کے سامنے کھڑے ہونے والوں کو کس وحشیانہ سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کم عمر نوجوانوں کو سخت سزائیں دے کر بچوں کے تحفظ کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے، حالاں کہ اسرائیل خود بچوں کے تحفظ کے عالمی کنونشن میں فریق ہے، جس کے تحت بچوں کو کسی بھی بڑے سے بڑے جرم میں گرفتار یا قید کی سزا آخری حربے اور اقدام کے طور پر دی جاتی ہے۔ اس لیے اگر اسرائیل عہد التمیمی کو فوجی عدالت سے سزا دلواتا ہے تو وہ عالمی قوانین کو مسخ کرنے اور اسے پامال کرنے کی بدترین مثال ہوگی۔n

ظلم و جبر کی داستاں
اقوام متحدہ میں امریکا کی سرپرستی میں جو قرارداد منظور کرائی گئی، اس کی رو سے فلسطین کا 55 فی صد رقبہ 33 فی صد یہودی آبادی کو، اور 45 فی صد رقبہ 67 فی صد عرب آبادی کو دیا گیا۔ حالاں کہ اُس وقت تک فلسطین کی زمین کا صرف 6 فی صد حصہ یہودیوں کے قبضے میں آیا تھا۔ یہودی اس تقسیم سے بھی راضی نہ ہوئے اور انہوں نے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے عربوں کو نکالنا اور ملک کے زیادہ سے زیادہ حصے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔

آرنلڈ ٹوائن بی اپنی کتاب میں لکھتا ہے : ’’ وہ مظالم کسی طرح بھی ان مظالم سے کم نہ تھے جو نازیوں نے خود یہودیوں پر کیے تھے۔‘‘

دیریاسین میں 9 اپریل 1948 کے قتل عام کا خاص طور پر اس نے ذکر کیا ہے، جس میں عرب عورتوں، بچوں اور مردوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ عرب عورتوں اور لڑکیوں کا برہنہ جلوس نکالا گیا اور یہودی لاؤڈ اسپیکر پر یہ اعلان کرتے پھر رہے تھے: ’’ہم نے دیریاسین کی عرب آبادی کے ساتھ یہ اور یہ کیا ہے، اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ ہو تو یہاں سے نکل جاؤ۔‘‘

ان حالات میں14 مئی 1948 کو عین اس وقت جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطین کے مسئلے پر بحث کر رہی تھی، صہیونی منصوبہ سازوں نے رات کے دس بجے اسرائیلی ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کردیا اور سب سے پہلے امریکا اور روس نے آگے بڑھ کر اسے تسلیم کیا۔ حالاں کہ اس وقت تک اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین میں اپنی قومی ریاست قائم کرنے کا مجاز نہیں کیا تھا۔ اس اعلان کے وقت تک 6 لاکھ سے زیادہ عرب گھر سے بے گھر کیے جاچکے تھے اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے بالکل خلاف یروشیلم (بیت المقدس) کے آدھے سے زیادہ حصے پر اسرائیل قبضہ کرچکا تھا۔ اس منحوس دن کو فلسطین میں ’’یوم نکبہ‘‘ ( تباہی کا دن) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

طاقت کے نشے میں مدہوش اسرائیل نے 1967 میں تمام فلسطین پر قبضہ کر لیا اور مقامی باشندوں کو بے دخل کر دیا، یوں اس سرزمین کے اصل وارث لاکھوں کی تعداد میں اردن، لبنان اور شام میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے، مگر سام راجی اور استعماری ایجنٹوں نے انہیں یہاں سے بھی نکالنے کی سازش کی، چناں چہ ستمبر 1975ء میں اردن کی شاہی افواج نے وہاں مقیم فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کردی۔ ان کا قتل عام کیا گیا، اس کے بعد ان فلسطینیوں کو لبنان میں پناہ پر مجبور کر دیا گیا۔ اس بھیانک ظلم کو ’’ بلیک ستمبر‘‘ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔

ان 64 برسوں میں خون آشامیوں کی عالمی طاقتوں بالخصوص امریکا نے اسرائیل کو بہت زیادہ مالی و فوجی امداد دی اور ہر قسم کا تعاون کیا، حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں پیش ہونے والی اسرائیل مخالف قراردادوں کو ویٹو کرنا بھی امریکا نے اپنا وطیرہ بنا لیا، جب کہ وہ اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد بھی نہیں ہونے دیتا۔ اسی دوران اسرائیل نے لبنان پر بھی حملے کیے اور اس کے کئی علاقوں پر بھی قابض ہوگیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد مسئلہ فلسطین ایک بار پھر عالمی سیاست کا اہم ترین ایشو بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتیں مظلوم فلسطینیوں کو ان کا حق دلانے میں ناکام رہی ہیں۔ اسرائیل کو امریکا اور دیگر ممالک ہر سال اربوں ڈالر امداد دیتے ہیں تاکہ وہ اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھ سکے۔ 2011 میں فلسطینی اتھارٹی نے ایک آزاد ریاست کے طور پر اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن امریکا اور دیگر ممالک کی جانب سے اسے ناکام بنا دیا گیا۔ اس صورت حال کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ عرب دنیا کے نام نہاد اسلامی ممالک اور ان کی نام نہاد عالمی تنظیم فلسطینیوں کی جدوجہد میں محض زبانی اور کاغذی حمایت کرتی رہی ہے، بلکہ اب تو ایسے متعدد اسلامی ممالک اسرائیل کے ساتھ درپردہ یا کھلم کھلا پیار کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ تو دوسروں کو کوسنے کے بہ جائے اپنے گریبانوں میں جھانکنا زیادہ ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔