ٹرمپ بریک تھرو کرسکتے ہیں؟

ایڈیٹوریل  اتوار 11 مارچ 2018
کیا ٹرمپ اور کم جونگ ان عالمی امنگوں کے مطابق درست سمت میں جانے کی مکمل تیاری کرچکے ہیں؟۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کیا ٹرمپ اور کم جونگ ان عالمی امنگوں کے مطابق درست سمت میں جانے کی مکمل تیاری کرچکے ہیں؟۔ فوٹو: سوشل میڈیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے رہنما کِم جونگ اْن سے ملاقات کیلیے تیار ہیں جب کہ ٹرمپ کے اپنے الفاظ یہ بھی ہیں کہ ’’اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ان دونوں ممالک کے رہنماؤں کی پہلی ملاقات ہو گی اور شدید تناؤ میں متوقع طور پرکمی کا باعث بنے گی۔‘‘

ٹرمپ اور شمالی کوریا کے مرد آہن کم جونگ ان میں ملاقات بلاشبہ ایک اہم بریک تھرو ثابت ہوگی بشرطیکہ دونوں طرف سے ملاقات کے حتمی شیڈول کی منظوری تک کوئی انہونی نہ ہو جائے اور متلون مزاجی دو طرفہ خیرسگالی کی فضا کو مسموم کرنے کا باعث بھی نہ بنے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا ایک اور نائن الیون کی متحمل نہیں ہو سکتی، ایٹمی ہتھیاروں کی اندھا دھند تیاریوں کے ہولناک نیوکلیئر منظر نامہ میں دکھی اور دہشت زدہ انسانیت کو امن درکار ہے اور اس مقصد کیلیے امریکا اور شمالی کوریا کی قیادت کوکسی بامقصد بات چیت کے ذریعہ ایٹمی دھمکیوں اور ایک دوسرے کو نیست ونابود کرنے کی جارحانہ بیان بازیوں سے گریز کرنا ہو گا جب کہ امن، استحکام، ترقی، خیرسگالی اور دوطرفہ تعلقات کی معاشی بنیادوں کوفروغ دینے پر دونوں اتفاق کرتے ہیں تو اس سے بڑھ کر دنیا کو اور کیا چاہیے، امریکا اور شمالی کوریا کے مابین لفظی گولہ باری ابھی تک تو شعلہ بیانی تک محدود رہی ہے مگر دونوں صدور کی ذہنی اور نفسیاتی گرہ کشائی کیلیے اقوام متحدہ کے ماہرین کو اعتماد سازی کیلیے ایک تنی ہوئی رسی پر چلنا ہو گا میڈیا کے مطابق کم جونگ نے امریکی صدر کو ملاقات کی دعوت دی تھی۔

جنوبی کوریا کے سیکیورٹی آفس کے سربراہ چْنگ اوئی یونگ نے وہائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کو رواں ہفتے کے آغاز میں کِم جونگ اْن کے ساتھ ہونے والی ملاقات پر بریفنگ دی۔اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چْنگ کا کہنا تھا کہ کِم جونگ اْن نے جوہری پروگرام کے خاتمے، اپنے جوہری اور میزائل تجربات کو روکنے کا وعدہ کیا ہے۔

شمالی کوریا کے سربراہ کِم جونگ اْن نے جنوبی کوریائی سفارت کاروں کے ایک خصوصی وفد کی میزبانی کی تھی۔ انھوں نے دونوں ہمسایہ مگر حریف ریاستوں کے مجوزہ سربراہی اجلاس سے اتفاق بھی کیا ہے۔

امریکی صدر کی طرف سے ایک ٹوئیٹر پیغام میں کہا گیا ہے، ’’ایک ملاقات کی تیاری کی جارہی ہے‘‘۔ ٹرمپ نے اس پیشرفت کو پیانگ یانگ کو اس کا جوہری ہتھیاروں کا پروگرام ختم کرنے پر قائل کرنے کیلیے بہترین قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عرصے میں شمالی کوریا کوئی میزائل تجربہ بھی نہیں کرے گا، یہ ایک اہم پیشرفت ہے تاہم معاہدہ ہونے تک پابندیاں عائد رہیں گی۔

ادھر ترجمان وہائٹ ہاوس سارہ سینڈرز کے مطابق شمالی کوریا کا وفد امریکی صدر ٹرمپ سے جلد ملنا چاہتا ہے، ملاقات کا وقت اور جگہ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ جنوبی کوریا کے سلامتی کے شعبے کے سربراہ چْنگ اوئی یونگ کے مطابق صدر ٹرمپ نے کِم جونگ اْن کی دعوت پر رواں برس مئی میں اس ملاقات پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔

جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن نے امید ظاہر کی ہے کہ اس متوقع سربراہی کانفرنس سے  جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی راہ ہموار ہو گی۔ جرمن چانسلر نے شمالی کوریائی رہنما کِم جونگ اْن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ ملاقات کو ’امید کی ایک کرن‘ قرار دیا ہے۔ چین نے شمالی کوریا اور امریکا کی طرف سے تناؤ کے خاتمے کیلیے مثبت ردعمل پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

عالمی امن کیلیے مختلف ممالک نے مجوزہ ٹرمپ کم جونگ ملاقات پر اظہار مسرت کرتے ہوئے درحقیقت شمالی کوریا سے امریکا کے تعلقات کی برف پگھلنے کو کثیر جہتی پیش قدمی کے امکانات سے جوڑ دیا ہے، اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ شمالی کوریا کو ایٹمی اسلحہ کے انبار لگانے سے اجتناب کی ایک غیر معمولی پیشکش دنیا سے جنگجوئی کی دیوانگی کے خاتمہ کی سمت اہم قدم تصور ہو گی اور دنیا اگر ایٹمی شعلوں سے محفوظ رہے تو انسانیت پر یہ حضرت انسان کا عظیم احسان ہو گا، کوریا خود جنگوں کے اندوہ ناک تجربوں سے ہوکر نکلا ہے، آج جنوبی اور شمالی کوریا میں دوطرفہ تعلقات کی بہتری کیلیے سربراہی ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔

انضمام کی امنگوں کو بھی عوام کی حمایت حاصل ہے ایسے میں ٹرمپ اور کم جونگ ان کے مابین مذاکرات کے بڑے دوررس اثرات مرتب ہونگے، شمالی کوریا کواپنے سائبراسپیس، سیاسی، سماجی اور عسکری ڈھانچہ کو عوام کے معاشی اہداف کی طرف موڑنے میں یقینی مدد ملے گی اور اس مغالطہ کو بھی ختم ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ شمالی کوریا کریزی اور دیوانگی میں گرفتار ملک نہیں ہے جو قوموں کی برادری سے الگ تھلگ کوئی غیر انسانی جزیرہ ہے، بلکہ معروف فلم ساز مائیکل مور کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے دنیا بھر کے ملکوں کو یہ سبق دیا ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ کوئی طاقتور ملک آپ کے خلاف جارحیت سے باز رہے تو تھوڑے بہت ایٹمی ہتھیار پاس رکھ لو۔

بلاشبہ شمالی کوریا میں بھی انسان بستے ہیں اور امریکا کو کوریا سمیت دنیا بھر میں جنگوں اور شورشوں کے خاتمہ کیلیے ایٹمی ہتھیاروں کی تحدید اور پھر ان کے مکمل خاتمہ کا ایک عہدسازمعاہدہ کرکے انسانیت کو درپیش ایٹمی جنگوں سے ہونے والی ہلاکتوں سے نجات دلانے میں پیش رفت کرنا ہو گی، بہرحال شمالی کوریا اور ٹرمپ انتظامیہ کے مابین مجوزہ ملاقات نہ صرف دنیا کیلیے ایک خوشخبری ہے بلکہ امن کی بات جنگ اور نیوکلیئر تباہ کاریوں پر غالب آسکے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ اور کم جونگ ان عالمی امنگوں کے مطابق درست سمت میں جانے کی مکمل تیاری کرچکے ہیں، کوئی مہم جوئی تو نہیں ہوگی، اس بات کی یقین دہانی اور ضمانت شرط اول ہے۔

امریکا چاہے تو اسی دوران چین کو شمالی کوریا کی تالیف قلبی پر مامور کر سکتا ہے، چین پر شمالی کوریا کافی انحصار کرتا ہے، لہٰذا زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کی دو طرفہ ذہنی تیاری اور وسیع المشرب رضامندی کے لیے اقوام متحدہ، چین اور امریکا سمیت دیگر امن پسند ممالک مشترکہ ایجنڈہ لے کر آگے بڑھیں تو شمالی کوریا سے امن کی بات چیت عالمی سطح پر نتیجہ خیز ثابت ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔