عالمی دہشت گرد امریکی سامراج

زبیر رحمٰن  پير 28 مئ 2018
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

ہر چند کہ عالمی سامراج کے دائرے میں درجن بھر سے زیادہ ممالک شمار ہوتے ہیں، لیکن امریکا ان کا سرغنہ ہے۔ دنیا میں اس وقت 2754 ارب پتی ہیں، جن میں امریکا کے 680 ہیں، جب کہ چین 338 ارب پتیوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ بقول پروفیسر نوم چومسکی، امریکا اب تک 88 ممالک میں بلاواسطہ یا بالواسطہ مسلح مداخلت کرچکا ہے، جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا ہے۔

امریکا 1962 میں انڈونیشیا میں 15 لاکھ کمیونسٹوں کا قتل کرچکا ہے، ہند و چین میں 23 لاکھ انسانوں کا قتل، برطانیہ نے جنوبی افریقہ میں لاکھوں کا قتل کیا، امریکا نے چلی، نیکاراگوا، کولمبیا میں لاکھوں عوام کا قتل کیا، پھر عراق میں 12 لاکھ، افغانستان میں دس لاکھ، شام، یمن، صومالیہ، ایران، سوڈان اور لیبیا میں لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا، جن میں کرنل معمر قذافی کی شہادت بھی شامل ہے۔

ابھی حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا کہ ’’معاہدہ کرو ورنہ قذافی جیسا حشر ہوسکتا ہے، شمالی کوریا باز نہ آیا تو اسے ختم بھی کرسکتے ہیں‘‘۔ یہ کھلم کھلا کسی کو جان سے مارنے کی دھمکی ہے اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، یورپی یونین کو اس وقت خاموش تماشائی نہیں بننا چاہیے۔ ٹرمپ کسی اور ملک کے صدر کو دھمکی دے رہا ہے۔ ان کے اپنے ملک کے جمہوریت دشمن اسٹیبلشمنٹ نے ابراہام لنکن اور جان کینیڈی کو قتل کیا تھا اور ابھی حال ہی میں امریکا میں اسلحے کی کھلی چھوٹ کی وجہ سے سیکڑوں اسکول کے بچے جان سے جاتے رہے۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو امریکا مسلسل پاکستان میں مداخلت کرتا آرہا ہے۔ کبھی ڈرون حملے، کبھی اپنی ایجنسیوں کے ذریعے اور کبھی معاشی قدغنوں کے ذریعے، مگر اس کے مواقع پاکستان کے حکمران بشمول اسٹیبلشمنٹ خود اسے فراہم کرتے آرہے ہیں۔

جہاں تک کوریا کا تعلق ہے تو یہ درحقیقت 1945 میں آزاد ہوا تھا لیکن سامراجی مداخلت اور سازشوں کی وجہ سے 1949 میں عملی طور پر آزاد ہوا۔ پھر امریکی سامراج نے 1950 میں کوریا کے جنوبی حصہ پر قبضہ کرکے اپنی فوج اتار دی اور شمالی کوریا (سوشلسٹ کوریا) پر توسیع پسندانہ پالیسی کے تحت مداخلت کرکے جنگ مسلط کردی۔ جس کے بعد سوشلسٹ کوریا کی مدد کرنے کے لیے دنیا بھر سے کمیونسٹ گوریلا پہنچے۔ ان میں زیادہ تر ویتنام، کمبوڈیا، تھائی لینڈ، فلپائن، برما، پاکستان، جاپان اور ہندوستان سے کمیونسٹ گوریلا امریکی سامراج کی مسلح مداخلت کے خلاف 1953 تک جنگ کی۔

آخرکار اقوام متحدہ نے صلح کے لیے مداخلت کی اور یہ طے پایا کہ جنوبی کوریا سے امریکی فوج واپس چلی جائیں گی اور شمالی کوریا سے غیر ملکی کمیونسٹ گوریلا بھی واپس چلے جائیں گے۔ اس کے بعد کمیونسٹ گوریلا تو واپس چلے گئے لیکن جنوبی کوریا میں آج بھی 38000 امریکی فوج موجود ہے۔ یعنی امریکا اور جنوبی کوریا نے اقوام متحدہ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا۔ اور مزید برآں شمالی کوریا کے گرد جنگی بحری بیڑے لنگر انداز کردیے ہیں۔

شمالی کوریا نے آج تک اپنے کسی بھی پڑوسی ملک پر حملہ کیا اور نہ پراکسی وار کی۔ جب کہ امریکی سامراج دونوں کوریاؤں میں جب بھی امن کی بات آگے بڑھی اور دوستی کی جانب ہاتھ بڑھایا تو امریکا نے مداخلت کرکے اس امن کی پیش قدمی کو سبوتاژ کیا۔ اسی طرح سے اس بار بھی جب دونوں کوریا نے دوستی کی جانب پیشرفت کی، تو ٹرمپ نے پروپیگنڈا کرنا شروع کردیا کہ شمالی کوریا دباؤ میں آکر معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔

جب شمالی کوریا کے صدر کم ال ان نے اس کے جواب میں یہ کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہم دوبارہ ایٹمی تجربہ شروع کرسکتے ہیں۔ یہ ایک فطری ردعمل تھا۔ جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم شمالی کوریا کو ختم کردیں گے۔ ابھی حال ہی میں ایران سے معاہدہ کے خاتمے کے بعد یورپی یونین کے صدر نے کہا ہے کہ ’’ٹرمپ جیسے دشمن نما دوست کے رہنے سے دشمن کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔

اس سے قبل جب شام پر امریکا نے میزائل حملہ کیا تھا تو روس چین کے علاوہ جرمنی اور جاپان نے بھی مخالفت کی تھی۔جب کہ شمالی کوریا کے بانی صدر کم ال سنگ نے یہ تجویز دی تھی کہ ایک ملک دو نظام ہوسکتا ہے اور کم جون ان نے اسی فارمولے کو آگے بڑھایا اور اس تجویز پر عمل کرنے کے لیے جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان نے بھی اتفاق کیا۔ اس کے کچھ عرصہ گزرنے کے بعد امریکی سامراج اور اس کے ذیلی آلہ کار، شمالی کوریا کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا شروع کردیا۔ دونوں کوریاؤں کی دوستی کے عمل کو دیکھتے ہوئے برصغیر کے عوام میں بھی خوشی کی لہر آئی اور پاک و ہند کے دانشوروں  نے بھی آنے والے امن کے جھونکے محسوس کیے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے اگر فلسطین کے مسئلے پر نوٹس لیا ہے تو اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کے شمالی کوریا مخالف بیان پر بھی نوٹس لینا چاہیے۔ جہاں تک جوہری ہتھیاروں کی بات ہے وہ تو فرانس، اسرائیل، برطانیہ، ہندوستان اور پاکستان کے پاس بھی ہے اور امریکا کے پاس تو ہزاروں ایٹمی وار ہیڈ موجود ہیں۔ شمالی کوریا کے پاس تو صرف نو ایٹمی وار ہیڈز ہیں۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ جو ہزاروں بم لیے بیٹھا ہے وہ امن پسند اور جو نو بم لیے بیٹھا ہے وہ دہشت گرد۔

شمالی کوریا میں جاگیرداری اور سرمایہ داری ناپید ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا مقروض نہیں ہے، اس لیے بھی کہ قرضہ لیتا ہی نہیں۔ سو فیصد لوگ خواندہ ہیں، صحت مفت اور سب کے لیے، رہائش سب کے لیے، روزگار سب کے لیے، ٹرانسپورٹ کا کرایہ برائے نام۔ یہ سہولیات سوشلسٹ ملک ہونے کی وجہ سے ہیں۔ مگر وہاں انٹرنیشنل فوڈ چین، بڑی عمارتیں، بڑی گاڑیاں، موبائل فون کی بھرمار یا موٹر سائیکلوں کا انبار نہیں ہے۔

ضروریات زندگی اور سادگی کے ساتھ اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ جنوبی اور شمالی کوریا کے مذاکرات جب ایک مثبت رخ پر چل پڑے، اس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک کامیاب جوہری معاہدے کے بدلے شمالی کوریا کو بڑے پیمانے پر رعاتیوں کی یقین دہانی کرائی ہے، ساتھ ہی ٹرمپ نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر اس طرح کا کوئی معاہدہ طے نہ پایا تو شمالی کوریائی رہنما کم جون ان کا حشر لیبیا کے سابق حکمران کی طرح بھی ہوسکتا ہے۔

امریکی صدر نے مزید کہا کہ شمالی کوریا کے لیے ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ٹرمپ کے مطابق وہ شمالی کوریا کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ شمالی کوریا باز نہ آیا تو اسے ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے لیبیا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا کے لیے لیبیا کا ماڈل سامنے رکھا جائے۔ ٹرمپ نے اپنے ہی فوجی سلامتی کے مشیر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے’’لیبیا ماڈل‘‘ پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ ان کے اس بیان سے شمالی کوریا کی خوشحالی کم اور تباہی کی دھونس زیادہ نظر آتی ہے۔

امریکا کو ویتنام، لاؤس، کمبوڈیا، بولیویا، وینیزویلا کی شکست کیا یاد نہیں۔ اپنے معاشی بدتر حالات، جہاں تین کروڑ لوگ بے روزگار ہوں، وہ اپنی معیشت کو بہتر کرنے کے بجائے دوسرے کی تباہی کی بات کیونکر کرسکتا ہے۔ آج دنیا میں ہٹلر، مسولینی، ہلاکو، راون، زار شاہی، شاہ ایران، شاہ فاروق کا حشر امریکا کو یاد نہیں؟ کم جون ان کا حشر قذافی جیسا نہیں ہوگا، بلکہ ٹرمپ کا حشر ہٹلر سے بھی بدتر ہوگا۔ وہ دن جلد آنے وا لا ہے جب امریکی عوام ٹرمپ کا تختہ الٹ کر امریکا میں ایک ایسا کمیونسٹ انقلاب لائیں گے جہاں ٹرمپ جیسے انسان نما شیطان کا نام و نشان بھی نہیں ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔