- آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے نئے ٹیکس اقدامات پر بریفنگ مانگ لی
- رفح پر اسرائیلی حملے سے حماس ختم نہیں ہوگی، امریکا
- مسلح ملزمان نے سابق ڈی آئی جی کے بیٹے کی گاڑی چھین لی
- رضوان اور فخر کی شاندار بیٹنگ، پاکستان نے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں آئرلینڈ کو ہرادیا
- آئی ایم ایف نے ایف بی آر سے 6 اہم امور پر بریفنگ طلب کرلی
- نارتھ ناظم آباد میں مبینہ طور پر غیرت کے نام پر بھائی نے بہن کو قتل کردیا
- کراچی ایئرپورٹ پر روڈ ٹو مکہ پراجیکٹ کا افتتاح،پہلی پرواز عازمین حج کو لیکر روانہ
- شمسی طوفان سے پاکستان پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے، سپارکو
- سیاسی جماعتیں آپس میں بات نہیں کریں گی تو مسائل کا حل نہیں نکلے گا، بلاول
- جرمنی میں حکومت سے کباب کو سبسیڈائز کرنے کا مطالبہ
- بچوں میں نیند کی کمی لڑکپن میں مسائل کا سبب قرار
- مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی آوازوں کے متعلق ماہرین کی تنبیہ
- دنیا بھر کی جامعات میں طلبا کا اسرائیل مخالف احتجاج؛ رفح کیمپس قائم
- رحیم یار خان ؛ شادی سے انکار پر والدین نے بیٹی کو بدترین تشدد کے بعد زندہ جلا ڈالا
- خالد مقبول صدیقی ایم کیو ایم پاکستان کے چیئرمین منتخب
- وزیراعظم کا ہاکی ٹیم کے ہر کھلاڑی کیلئے 10،10 لاکھ روپے انعام کا اعلان
- برطانیہ؛ خاتون پولیس افسر کے قتل پر 75 سالہ پاکستانی کو عمر قید
- وزیراعظم کا آزاد کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار، ہنگامی اجلاس طلب
- جماعت اسلامی کا اپوزیشن اتحاد کا حصہ بننے سے انکار
- بجٹ میں سیلز اور انکم ٹیکسز چھوٹ ختم کرنے کی تجویز
الطاف حسین کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی، برطانوی پولیس
اسلام آ باد: اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمیشن کے بیان کے بعد لندن میں میٹروپولیٹن پولیس نے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی متنازع تقریر کے بارے میں شواہد اکھٹے کرنیکا کام شروع کردیا ہے۔
فی الحال الطاف حسین کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں ہورہی، شکایات موصول ہوئی ہیں۔ لندن میں میٹروپولیٹن پولیس کے ترجمان جیمزہیوم نے بی بی سی اردو سروس کو بتایا کہ الطاف حسین کی تقریر کا، جس پر انھیں برطانیہ اور پاکستان سے ان گنت شکایات موصول ہوئی تھیں، ترجمہ کرایا جارہا ہے۔ ترجمان کے مطابق انھیں الطاف حسین کی تقریر جے بارے میں سیکڑوں شکایات موصول ہوئی تھیں جن پر اب کارروائی کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔پولیس ترجمان سے جب یہ پوچھا گیا کہ اس ضمن میں کس قانون کے تحت کارروائی کی جارہی ہے؟، تو انھوں نے کہا کہ ایک مرتبہ تقریر کا ترجمہ حاصل کرلیا جائے اور اس کا جائزہ لے لیا جائے تو پھر اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ کس قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔
اس سوال پر کہ کیا پولیس کسی سے پوچھ گچھ بھی کرسکتی ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ اس بات کا فیصلہ ترجمے کی روشنی میں ہی کیا جائے گا۔اس سے قبل پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر ایڈم تھامسن نے کہا تھا کہ وہ انتخابات کے بعد الطاف حسین کے بیان سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ الطاف حسین کی حوالگی سے متعلق سوال پر ایڈم تھامسن کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ملزمان کی حوالگی کے تمام مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ نہیں۔ ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ نہ ہونے سے حوالگی ناممکن نہیں تاہم بہت مشکل ہے۔ برطانوی ہائی کمشنر نے کہا کہ ان کے علم کے مطابق الطاف حسین نے کہا ہے کہ انھوں نے اس قسم کا بیان نہیں دیا اور انھیں کسی اور معنی میں لیا گیا۔
ایڈم تھامسن کے مطابق تشدد کو بھڑکانے اور نفرت پھیلانے کے حوالے سے برطانیہ کے قوانین انتہائی سخت ہیں۔ برطانیہ میں پولیس حکومت سے پوری طرح آزاد ہے اور یہ پولیس کا کام ہے کہ وہ تشدد کو بھڑکانے یا نفرت کو ہوا دینے کے الزامات کی تحقیقات کرے اور اپنی رائے دے کہ آیا وہ کامیابی سے عدالتی پیروی کرسکتے ہیں یا نہیں؟۔ میٹروپولیٹن پولیس کے ترجمان نے کہا کہ ابھی اس بارے میں پولیس نے کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کا ممکنہ رد عمل کیا ہو سکتا ہے تو انھوں نے اس کی تفصیل بتانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس بارے میں آپ آئندہ 24گھنٹوں میں رابطہ کریں۔ پولیس ترجمان نے یہ بتانے سے بھی انکار کیا کہ انھیں کتنی شکایات موصول ہوئی ہیں۔
الطاف حسین کی اس تقریر کے بعد تحریک انصاف کے کارکنوں نے لندن میں پاکستانی سفارتخانے کے سامنے مظاہرہ کیا۔ سوشل میڈیا پر بھی لوگ الطاف حسین کی تقریر کے خلاف اپنے غم و غصے کا بھرپور اظہار کر رہے ہیں۔ فیس بک پر ایک پٹیشن پر بھی دستخط کرنے کی مہم جاری ہے جس کو برطانوی دارالعوم کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ دریں اثنا میڈیا رپورٹس کے مطابق الیکشن کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ایڈم تھامسن نے کہا کہ انتخابات میں یورپی یونین کے مبصروں کی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہیں،انتخابات کے ذریعے شہریوں نے حکومتوں کا احتساب کیا ہے۔ پاکستان میں حالیہ انتخابات تاریخ کے سب سے بہتر انتخابات تھے، دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔