کراچی کے عوام کی حب الوطنی

سیدہ کنول زہرا زیدی  جمعـء 24 مئ 2013

میرے وطن میں ایک عجیب سی فضا ہے، یہاں مفروضوں پر یقین کرکے سچائی کو پس پشت ڈالا جاتا ہے، اب ذرا اس پر ہی غور فرما لیجیے، انتخابات شروع ہونے سے قبل ان کے انعقاد کے ملتوی ہونے کی خبریں متعدد مرتبہ سامنے آتی رہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ اس سلسلے میں اس قدر کنفیوژن تھی کہ اوائل مئی تک عوام اسی پریشانی کا شکار تھے کہ آیا 11 مئی کو الیکشن رونما ہوں گے بھی یا نہیں! مگر اﷲ کے فضل سے 11 مئی کا معرکہ اپنے انجام کو پہنچا۔ انتخابات کے بعد کی صورتحال بھی بڑی دلچسپ رہی، ہم نے ان لوگوں کو ایک دوسرے سے ملاقات کرتے دیکھا جو قبل از انتخابات ایک دوسرے کے سخت حریف تھے۔ وہ کہتے ہیں نا ’’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘‘۔ بس ذرا اس مصرع کی تشہیر ہوگئی۔ ہم نے چند لمحے کے لیے ہی سہی میاں اور خاں صاحب کو اکٹھا دیکھا، بہرحال یہ خوش آیند پیش رفت ہے اور قابل تحسین بھی۔

الیکشن سے پہلے چند تجزیہ کار ان انتخابات کو خونیں یا پھر 1970 کے انتخابات سے ملا رہے تھے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ان کے یہ تجزیے کسی حد تک درست ثابت ہوئے، 12 مئی کے دن ایک مرتبہ پھر اس ملک کی سلامتی و استحکام پر شب خوب مارا گیا، سب جانتے ہیں پورے پاکستان میں الیکشن کے بعد ’دھاندلی‘ کے نعرے گردش میں ہیں مگر اس نعرے کے جواب میں جتنا سخت ردعمل میرے شہر کی فضائوں میں گونجا، جس کا اہلیان کراچی کو سخت افسوس ہے لہٰذا ناچیز کی 80 کی دہائی کے نوجوانوں سے مودبانہ گزارش ہے وہ 2013 کے نوجوانوں کو تلواروں سے پاش پاش کرنے کے بجائے اپنی شفقت و محبت سے زیر کریں۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ان انتخابات میں نوجوانوں کا جوش و ولولہ کثیر تعداد میں دیکھنے میں آیا، یوتھ جس انداز میں ان انتخابات میں باہر نکلی اس سے قبل اس طرح کی صورتحال نظر نہیں آئی اور یہ ہی مثبت ’تبدیلی‘ ہے۔ اب کی دفعہ نوجوانوں نے کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کے بجائے ’پاکستان‘ کو ووٹ دیا۔ میری ناقص سوچ کے مطابق الیکشن 2013 کو 1970 کے عام انتخابات سے تشبیہ دینے والے نئی پود کے اس جنون کو دیکھ کر سوچ میں تو ضرور پڑگئے ہوں گے، جب ہی انٹرنیشنل میڈیا نے پاکستان کے حالیہ انتخابات کو خاص توجہ دی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا، جس الیکشن کا ٹرن آئوٹ 62 فیصد رہا، وہ خوشگوار یاد کے ساتھ یقیناً ’نئے پاکستان‘ کی تعمیر ہے، جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

مگر اس کے ساتھ ساتھ 12 مئی کے شعلوں کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا جس کی تپش نہ صرف اہل وطن نے بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی محسوس کی۔ مجھے کہنے دیجیے اگر نوجوانوں کا یہ جوش نہ ہوتا تو میرے وطن کو واقعی 12 مئی کے اشتعال انگیز الفاظ حقیقت کا روپ دھار لیتے، مگر واضح رہے نوجوانوں نے ہی یہ ملک بنایا تھا، نوجوان ہی اس ملک کو بچائیں گے۔ یہ ملک نفرت بھرے الفاظ سے نہیں محبتوں کے پیغامات کی تشہیر سے وجود میں آیا ہے اور یہ اس لیڈر کا اپنے ’نوجوانوں‘ سے پیار ہے جب ہی آج ’برگر‘ بن کباب، پر بھاری ہے، یہ نہ صرف تبدیلی ہے بلکہ ’مثبت تبدیلی‘ ہے۔

جیسا کہ میں نے میاں صاحب کی خاں صاحب سے عیادت کے متعلق ذکر کیا، جس میں میاں صاحب نے خاں سے ’فرینڈلی میچ‘ کی فرمائش کی۔ اگر خاں صاحب ان کی اس فرمائش کو قبول کر لیتے ہیں تویقیناً یہ پاکستان کی ترقی و تعمیر کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوگا کیونکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خاں صاحب کا اسپورٹس ماضی شاندار ہے لہٰذا دونوں طریفین بلیک میلنگ اور الزامات کی سیاست میں وقت ضایع نہیں کریں گے اور مل کر ملک و قوم کی خدمت کریں گے۔ اگر عمران خاں اپوزیشن لیڈر بن جاتے ہیں، جب بھی اسی قسم کی صورتحال سامنے آئے گی۔ ناچیز یہاں زرداری صاحب کی تعریف کرنا ان کا حق سمجھتی ہے، انھوں نے ہی پاکستان کی سیاست میں ’مفاہمت‘ کو روشناس کروایا، اگر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف، زرداری صاحب کی اس بہترین پالیسی کو اپنے عمل میں لاتی ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں اس ’فرینڈلی میچ‘ سے جیت پاکستان کی ہوگی، گو کہ بولنے والوں کو بولنے کا موقع ضرور ملے گا مگر سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا ۔

میں یہاں اس امید پر اپنی تحریر کا اختتام کرتی ہوں، انشاء اﷲ وہ وقت دور نہیں جب دنیا بھر کے لوگ میرے وطن آنے پر ناز کریں گے اور یہاں کی تعلیمی اسناد قابلیت کی ضمانت سمجھی جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔