ذرا نم ہو

حمید احمد سیٹھی  اتوار 18 نومبر 2018
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

ہمارے خوشحال اور تعلیم یافتہ گھرانوں کے افراد کی تعداد مختصر و معقول دیکھی گئی ہے جب کہ غریب اور ناخواندہ لوگوں میں اس بات کا شعور ناپید ہے کہ کتنے بچے پیدا کرنے چاہئیں۔ کسی بھی شہر کی گلیوں، بازاروں، محلوں میں گھوم جائیے، افلاس زدہ قحط کے مارے ننگے پائوں، بے رنگ چہرے لیے گرتے ڈگمگاتے، ننگے بدن بچے دوڑتے کھیلتے چلتے نظر آئیں گے۔

یہ بچے اور ان کے دیگر اہل خانہ وہ افراد ہیں جو ہمارے ملک کے شہری ہونے کے باوجود گنے تو ضرور جاتے ہیں، تول میں ان کا وزن صفر ہوتا ہے۔دنیا کے چھوٹے بڑے تمام ممالک کی تعداد 195 ہے جن میں چند درجن ترقی یافتہ ہونگے۔ اکثریت ترقی پذیر اور غریب ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان Top Five میں شامل ہے۔ بدقسمتی دیکھئے کہ اس کے اوپر والے چاروں کا نام دنیا میں نہایت معتبر گردانا جاتا ہے جب کہ پاکستان جوکہ ایٹمی طاقت بھی ہے کئی لحاظ سے بہت بہت نچلے مقام پر ہے۔

چین کی آبادی اگرچہ اس وقت بھی دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ یعنی 138 کروڑ ہے، پچیس سال قبل دگنی تھی جسے فیملی پلاننگ کے سخت ترین قوانین پر عمل کر کے کنٹرول کیا گیا ہے اور اب اسے کارآمد بنا لیا گیا ہے۔ بھارت کی آبادی جو کہ 133 کروڑ ہے۔ اگرچہ ملک پر بڑا بوجھ ہے لیکن صنعتی میدان اور انفرمیشن ٹیکنالوجی میں کامیابی کی منزلیں طے کرنے کے باوجود ملک مشکل حالات سے دوچار ہے۔ اس کی مشکلات پاکستان سے ملتی جلتی ہیں کہ وہاں بھی مذہبی دہشتگردی موجود ہے اور غربت و افلاس قابو میں نہیں۔

انڈیا کا جنگی جنون بھی اس کی ترقی و امن کی راہ میں حائل ہے۔ امریکا کی آبادی گو 32 کروڑ سے زیادہ ہے لیکن وہ بڑا اور وسیع ملک ہونے کے علاوہ سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے خوشحال اور طاقتور ہے جب کہ اس کا جنگی جنون اس کی معاشی ترقی میں کسی حد تک رکاوٹ ہونے کے باوجود کامیاب ہے۔ امریکا نے طاقت کے بل بوتے پر اپنی ٹانگیں ساری دنیا میں پھیلا کر اپنی طاقت اور معیشت کو ترقی دی ہے۔

انڈونیشیا آبادی میں چوتھے نمبر پر ہے لیکن ا س کی صلح جو حکمت عملی نے اس کی خوشحالی و ترقی میں معاونت کی ہے اس کی آبادی 26 کروڑ ہے لیکن اس کی معیشت کامیابی کی منزلیں مار رہی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی پانچویں طاقت پاکستان سے پہلے چند درمیانی آبادی والے ممالک کا ذکر ہوجائے جن کی سائنس و ٹیکنالوجی اور معیشت کی ترقی ان کی خوشحالی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

برطانیہ کی آبادی صرف پانچ کروڑ ہے اور یہ وہ ملک ہے جس کی سلطنت اتنی دور تک پھیلی ہوئی تھی کہ تب اس کی نو آبادیوں پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اس کے مہم جو کینیڈا امریکا آسٹریلیا اور ہندوستان تک پہنچے۔ انھوں نے ہر ملک میں ترقیاتی کام بھی کیے اور ایک عرصہ تک حکمرانی بھی کی۔ اس کے تعلیم اور سائنسدانوں نے ان تمام ملکوں میں تعلیم عام کرنے کے بعد واپسی کا سفر کیا لیکن اس ملک کا نام اقوام عالم میں منفرد ہے۔ اس کا ادب، سائنس، ثقافت، آرٹ میں بلند مقام ہے۔

پاکستان کے بیشتر ادب، میڈیسن اور علم کے علاوہ سائنس کے طالبعلموں نے برطانیہ سے فیض حاصل کیا اور ہزارہا لوگوں نے رزق کی خاطر اس ملک کو چنا۔ اب بھی پاکستان کے بیشمار افراد یہاں پراپرٹی مالکان ہیں اور علاج و حصول علم کے لیے برطانیہ کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستان میں ریلوے، انہار اور تعلیم کے شعبے برطانیہ کے مرہون منت ہیں۔ جاپان کی افرادی قوت ساڑھے بارہ کروڑ جب کہ جرمنی کی 8 کروڑ اور ترکی کی 8 کروڑ ہے۔

جرمنی اور جاپان کی قوت  موٹر انڈسٹری ہی نہیں دیگر آلات میں بھی ہیں۔ جنگ عظیم کے نقصان کے باوجود انھوں نے اپنی افرادی قوت کو تعلیم یافتہ اور ہنرمند بنایا جس کے سبب وہ مضبوط معیشت کے مالک ہیں۔ روس ٹوٹنے اور بکھرنے کے باوجود اپنی ساڑھے چودہ کروڑ آبادی کے ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی کی قوت و فن کے حرب کے سبب ایک بہت بڑی طاقت ہے اور الگ تھلگ رہ کر بھی مضبوط معیشت رکھتا ہے۔

امریکا کا پڑوسی ملک کینیڈا جس کے پاس وسیع زرخیز زمین اور پانی کی فراوانی ہے صرف چار کروڑ آبادی رکھتا ہے۔ وہ اگر چاہے تو صرف نیاگرافال سے 40 لاکھ Kw پیدا کرلے، ترقی یافتہ اور خوشحال ہے، جس کے حکمرانوں نے نقل مکانی کرکے وہاں آباد ہونے کے خواہشمندوں کے لیے دل کشادہ رکھا ہوا ہے۔ ایک چھوٹے ملک ناروے نے جس کی آبادی صرف ساڑھے پانچ کروڑ ہے، پچاس ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کو قبول کر رکھا ہے۔ ان پاکستانیوں کی تنظیم ہر سال چودہ اگست کی تقریب منعقد کرنے کے لیے پاکستان سے مہمانوں کو مدعو کرتی ہے۔ میں بھی ایک بار گیا۔ ناروے امن پسند اور خوشحال افراد کا ملک ہے۔ میرا ایک میزبان دوست وہاں سے ہر خاص دن پر مجھے یاد رکھتا ہے جس کا نام پرویز ملک ہے۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک پاکستان اگر اس بے تحاشہ آبادی پر کنٹرول نہ بھی رکھتا لیکن اگر ہر بچے کو تعلیم صحت اور ہنر مندی سے لیس کرتا تو آبادی بربادی نہ کہلاتی۔ اگر اس کے حکمران کوانٹٹی پر کوالٹی کو ترجیح دیتے تعداد کی بجائے استعداد کو پیش نظر رکھتے تو نکمے اور محنت سے عاری لوگوں کو دسترخوانوں پر جاکر حرام خوری کی عادت نہ پڑتی۔ خیرات کرنا نیکی ہے لیکن اس کے لیے معذوروں کی بجائے ہٹے کٹوں کو بد عادت نہ پڑنی چاہیے۔ حکومت اور اصلاحی ادارے اگر اب بھی بھکاریوں اور گدا گروں بلکہ پیشہ ور حرام خوروں کے تدارک کے لیے واضح حکمت عملی بنا لیں تو ملک پانچویں بڑی خوشحال اور مضبوط طاقت میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ زندگی کا لطف طاقت تندرستی اور کشادہ دستی میں ہے جو موجودہ حالات میں ہمارے ہاں مفقود ہے۔

لیکن اقبال نے سچ کہا تھا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے۔ صرف اس کا بنجر پن دور کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔