مجروح سلطان پوری ایک لاجواب نغمہ نگار (دوسری قسط)

یونس ہمدم  ہفتہ 1 دسمبر 2018
hamdam.younus@gmail.com

[email protected]

پہلی قسط پڑھنے کیلیے یہاں کلک کیجئے: https://www.express.pk/story/1435387/268/

ہدایت کار محبوب خان کی فلم انداز اپنے زمانے کی ایک بے مثال اورکامیاب ترین فلم تھی ۔ اس فلم میں جہاں نرگس، راج کپور اور دلیپ کمار کی تثلیث کو پسند کیا گیا تھا، وہاں انداز کے دل کش گیتوں نے بھی اس فلم کوکامیابی کی سند عطا کی تھی۔

موسیقار نوشاد اور شاعر مجروح سلطان پوری کی بھی ایک ایسی لازوال فلم تھی جس نے کامیابی کی ایک نئی تاریخ رقم کی تھی اور اس فلم کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اس فلم میں پہلی بار پیانو پر خوبصورت گیت فلمائے گئے تھے اور اس خوبصورت ساز کو بڑی مہارت، خوش اسلوبی کے ساتھ اس طرح استعمال کیا گیا تھا کہ پھر پیانو ہر فلم کی ضرورت بن گیا تھا اور نصف صدی تک پیانو پرگیت فلمائے جاتے رہے اور پسندیدگی کا معیار بنتے رہے انداز میں یکے بعد دیگرے تین چار گیتوں کو پیانو پر ہی گایا گیا اور فلمایا گیا اور ہر گیت ایک سے بڑھ کر ایک تھا۔ یہ گیت گلوکار مکیش نے گائے تھے اور کیا خوب گائے تھے۔ ان گیتوں کے بول تھے:

٭ جھوم جھوم کر ناچو آج گاؤ خوشی کے گیت۔

٭ ہم آج کہیں دل کھو بیٹھے۔

٭ یوں سمجھو کسی کے ہو بیٹھے۔

٭ تو کہے اگر جیون بھر میں گیت سناتا جاؤں۔

٭ ٹوٹے نہ دل ٹوٹے نہ ساتھ ہمارا چھوٹے نہ۔

ان گیتوں میں دلیپ کمار کی اداکاری نے فلم بینوں کو مسحورکردیا تھا ۔ فلم انداز میں پیانوکے گیتوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی تھی یہ تینوں گیت گلوکار مکیش کی دھیمی دھیمی مدھر آواز میں سارے ہندوستان میں لوگوں کے دلوں میں اتر گئے تھے ۔ اس فلم میں مکیش کے علاوہ محمد رفیع، لتا منگیشکر اور شمشاد بیگم نے بھی اپنی آوازکا جادو جگایا تھا اور فلم کی لازوال کامیابی میں شاعر، موسیقار اور سنگر سب ہی برابرکے حصے دار تھے۔ اب سلطان پور جیسے چھوٹے سے قصبے کا اسرار حسن، سارے ہندوستان کا جانا مانا نغمہ نگار مجروح سلطان پوری بن چکا تھا۔ اور ہر بڑا فلم ساز و ہدایت کار اب مجروح سلطان پوری کی آرتی اتارنے میں پیش پیش تھا۔ موسیقار نوشاد نے ابتدا میں شاعر شکیل بدایونی کے ساتھ سپرہٹ گیتوں کا آغاز کیا تھا مگر اب مجروح سلطان پوری بھی ان کی ترجیح ہوتے چلے جا رہے تھے۔ فلم ’’ساتھی‘‘ میں نوشاد اور مجروح سلطان پوری کے ساتھ نے کئی خوبصورت گیتوں کو تخلیق کیا۔ اور وہ گیت تھے:

٭میرا پیار بھی تو یہ بہار بھی تو۔ ٭میرے جیون ساتھی۔ ٭کلی تھی میں تو پیاسی۔ ٭جو چلا گیا اُسے بھول جا

اور ایک گیت تو بہت ہی خاص تھا جو ہر خاص و عام کے دل کی پکار بن گیا تھا اور وہ گیت تھا:

حسن جاناں ادھر آ

آئینہ ہوں میں تیرا

اور یہ گیت گلوکار مکیش نے بھی بہت ڈوب کر گایا تھا۔

موسیقار نوشاد کے ساتھ فلم ’’دھرم کا کانٹا‘‘ میں کئی دل کش گیتوں نے جنم لیا اور یہ گیت محمد رفیع اور آشا نے گائے تھے گیتوں کے بول تھے:

٭ ترا نام لیا دل تھام لیا۔

……

یہ گوٹے دار لہنگا نکلوں جب ڈال کے

دنیا جل جائے میری متوالی چال سے

اسی زمانے میں لکشمی کانت پیارے لال کی موسیقار جوڑی بھی بڑے جوبن پر تھی۔ لکشمی کانت پیارے لال ان دنوں فلم ’’دوستی‘‘ کی موسیقی دے رہے تھے اور انھوں نے ہی مجروح سلطان پوری سے گیت لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا اس طرح فلم دوستی میں انھوں نے جو گیت لکھے وہ فلم ’’دوستی‘‘ کی کامیابی کی ضمانت بنے تھے۔ فلم ’’دوستی‘‘ کو کئی فلم فیئر ایوارڈز ملے اور پہلی بار لکشمی کانت پیارے لال کو بہترین موسیقار کے ایوارڈ سے نوازا گیا محمد رفیع کی آواز نے ’’دوستی‘‘ کے ہر گیت کو ایک نئی زندگی دی تھی۔ چند مشہور گیتوں کے مکھڑے نذر قارئین ہیںـ

٭چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے۔

٭راہی منوا دکھ کی چنتا کیوں ستاتی ہے‘ دکھ تو اپنا ساتھی ہے۔

٭ میری دوستی میرا پیار۔

جانے والو ذرا مڑکے دیکھو مجھے

ایک انسان ہوں میں تمہاری طرح

فلم دوستی کا ہر گیت سپرہٹ تھا اور صرف اپنے گیتوں کی وجہ سے یہ فلم طویل عرصے تک سینماؤں کی زینت بنی رہی تھی۔

موسیقار لکشمی کانت پیارے لال کے ساتھ مجروح سلطان پوری نے اپنے حسین گیتوں سے ایک اور فلم کو سجایا تھا وہ فلم تھی ’’میرے ہمدم میرے دوست‘‘ اس فلم میں محمد رفیع اور لتا منگیشکر کی آوازوں نے بھی بڑا جادو جگایا تھا، تمام گیت ہی سنگیت کی ایک نئی دنیا میں پہنچا دیتے تھے۔ جیسے کہ مندرجہ ذیل یہ گیت:

٭چلو سجنا جہاں تک گھٹا چلے۔

٭ چھلکائے جام آئیے آپ کی آنکھوں کے نام ہونٹوں کے نام۔

ہوئی شام ان کا خیال آگیا

وہی زندگی کا سوال آگیا

٭ اللہ یہ کیسی ادا ہے ان حسینوں میں۔

٭ نہ جا اب کہیں نہ جا دل کے سوا۔

٭ تم جاؤ کہیں تم کو ہے اختیار، ہم نے تو کیا ہے پیار

اس دور میں ہر موسیقارکی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ مجروح سلطان پوری کا ساتھ حاصل کرلے۔ اسی طرح موسیقار او۔پی نیر نے جب فلمی دنیا میں اپنی دھاک بٹھائی تو اوپی نیر کا ساتھ بھی مجروح سلطان پوری نے دیا اور گیتوں کی ایک کہکشاں سجا دی تھی اور ایک بات یہاں میں اور بتاتا چلوں کہ او۔پی نیر نے اپنی کسی فلم میں لتا منگیشکر کی آواز کا کبھی سہارا نہیں لیا فلم ’’آر پار‘‘ میں او۔پی نیر نے جب موسیقی دی تو لتا منگیشکر کی چھوٹی بہن آشا، گیتا دت اور شمشاد بیگم کو گوایا۔ مجروح سلطان پوری کے لکھے ہوئے فلم ’’آر پار‘‘ کے گیت بھی فلم بینوں کے دلوں میں اترتے چلے گئے تھے۔ اور اس زمانے میں فلم ’’آر پار‘‘ کے گیتوں ہی کی ہر طرف بہار آئی ہوئی تھی۔ اور وہ گیت تھے:

٭کبھی آر کبھی پار لاگا تیرِ نظر۔

٭محبت کر لو جی بھر لو اجی کس نے روکا ہے۔

٭ بابو جی دھیرے چلنا‘ پیار میں ذرا سنبھلنا۔

٭ یہ لو میں ہاری پیا ہوئی تری جیت رے۔

٭ ہوں ابھی میں جواں اے دل۔

او۔پی نیر کے ساتھ مل کر مجروح سلطان پوری نے سپرہٹ گیتوں کی ایک قطار لگا دی تھی۔ اب میں وہ بات بھی بتاتا چلوں کہ موسیقار او۔پی نیر نے اپنی کسی فلم میں بھی لتا منگیشکر کوکیوں نہیں گوایا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب او۔پی نیر کا نام اوم پرساد تھا اور جب اوم پرساد کو پہلی فلم ملی تو اس کی خواہش تھی کہ اپنی پہلی فلم کا گیت وہ مہان گلوکارہ لتا منگیشکر سے گوائے گا، مگر جب لتا منگیشکر نے موسیقار اوم پرساد کا نام سنا تو اس نے ایک بے نام موسیقار کے ساتھ فلم میں گانے سے انکار کردیا تھا اوم پرساد کا دل ٹوٹ گیا تھا مگر وہ ہمت نہیں ہارا تھا اس نے اپنے حوصلے پھر سے جمع کیے اور اپنے نام کو بدل ڈالا اور پھر وہ نئے نام او۔پی نیر کے ساتھ منظر عام پر آیا تھا اور جس فلم میں بھی اس نے موسیقی دی وہ گیتوں کے اعتبار سے سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی تھی۔ او۔پی نیر وہ واحد موسیقار تھا جس نے لتا منگیشکر کو اپنی کسی بھی فلم میں گوانا کبھی گوارا نہیں کیا تھا مجروح سلطان پوری کو اوپی نیئر نے اپنے سر آنکھوں پر بٹھایا تھا…  (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔