چھٹی یلغار

سعد اللہ جان برق  منگل 15 جنوری 2019
barq@email.com

[email protected]

اس قسم کے خروج یا یلغار باقاعدہ تاریخ میں ریکارڈ شدہ موجود ہیں۔ سب سے پہلی معلوم یلغار ان لوگوں کی تھی جن کو ہم اس طرف مہرگڑہ،رحمان ڈیری(ڈی آئی خان) موئنجودڑو اور ہڑپا میں پاتے ہیں تو دوسری طرف دوآبہ دجلہ و فرات میں سومریوں کے نام سے ان کے آثار ملتے ہیں۔

یہ اولین زراعت کار لوگ تھے جو آبادی بڑھنے اور خوراک کم ہونے کی وجہ سے ’’زبردستوں‘‘ کے ہاتھوں باہر نکلنے پر مجبور ہوئے کیونکہ ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ طاقتور لوگ تو موجود وسائل پر قابض رہتے ہیں بلکہ ان کے زیادہ استحصال کی وجہ سے کمزور،بے بضاعت یا محروم لوگوں کو اپنے وطن سے نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ ایسا کل بھی تھا اور آج بھی ہے کہ جن جنت نظیر علاقوں کو دیکھنے کے لیے سیاح آیا کرتے ہیں ان کے اپنے باشندے دور درواز کے ریگزاروں ،کوئلے کی کانوں، کنٹیروں اور لانچوں میں مرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کے اپنے جنت نظیر خطوں پر چند زورآوروں کا قبضہ رہتاہے۔ یہ جن پہلی یلغار یا خروج والے لوگوں کا ذکر میں نے کیا ہے وہاں کے آثار سے پتہ چلتاہے کہ وہ پرامن اور زراعت پیشہ لوگ تھے۔ ان آثار میں بہت کچھ پایاگیاہے لیکن جنگی ہتھیار بالکل بھی نہیں ملے ہیں،گویا ان کو ہم اولین خاکی آدم کہہ سکتے ہیں اور یہ آثار خود بھی ان کے زراعت کار ہونے کا ثبوت ہیں کہ کسی دریا یا پانی کے ذخیرے کے قریب واقع ہیں۔

دجلہ وفرات میں وارد ہونے والے سومیری اپنی ایک خاص قسم کی عبادت گاہ بناتے تھے جنھیں ’’زغورت‘‘ یا زیگورات کہاجاتاہے اور علماء نے ان کے معنی’’اونچا پہاڑ‘‘کیے ہیں یا ’’مقدس پہاڑ‘‘۔ یہ دراصل وہ لوگ اپنے اولین مسکن کی عقیدت میں بناتے تھے۔ دجلہ وفرات میں پتھر نہیں ہوتے تھے چنانچہ یہ زیگورت مٹی یا کچی پکی اینٹوں کے بنائے جاتے تھے، جو ایک وسیع رقبے کو گھیر کر بتدریج ایک مخروطی شکل اختیارکرجاتی تھی یہاں پر تھوڑی سی یہودی قوم کی دروغ بیانیوں اور قصے کہانیوں کو تاریخ بنانے کی بھی بات ہوجائے کہ ایک ’’بڑے زیگورت‘‘ کو انھوں نے مینار بابل قرار دے کر اتنا مشہور کیاہوا ہے کہ حقیقت خرافات میں کھوگئی۔ خیریہ الگ موضوع ہے، سومیریوں کے بعد ایک ہزار سال یا ایک ملنیم میں اس جوف الارض یا رحم مادر سے ایک اور ’’خروج‘‘ کا بچہ نکلا جسے گھوڑے کی وجہ سے اساک کہاجاتاہے لیکن کثرت استعمال سے ساک سکتین اور یونانی تحریروں ’’سیتھین‘‘ مشہور ہوگیا۔ یہ جنگجو خانہ بدوش تھے اور ہزار سال میں ان کو ایک مرتبہ پھر کثرت آبادی اور قلت خوراک کا مسئلہ درپیش تھا۔

لیکن ان سے پہلے والے لوگ صرف ایک زراعتی جانور، بیل اور گائے پر انحصار کیے ہوئے تھے جو ایک سست رفتار اور خالص زرعی جانور ہے اور اپنے پالنے والوں کی طرح غیر جنگی۔جب کہ نئے آنے والوں کے پاس گھوڑا ایک خالص جنگی جانور تھا بلکہ اس زمانے میں یہ ہمارے زمانے کے موٹر ویکلز یا ٹینک یا ہوائی جہاز جتنا خطرناک اور ڈروانا ہتھیار تھا کہ فل ختی کے مطابق ناآشنالوگ تو صرف اس کی ہنہناہٹ سن کر بھاگنے لگتے تھے چنانچہ یہ دوسری یلغار نہایت تیزرفتاری سے بہت دور دور تک پھیل گئی۔یورپ ہندوستان اور مغربی ایشیاء ان کی زد میں تھا۔

ان میں سے کچھ گروپ اپنے آپ کو’’آریا‘‘ کہتے ہیں جو ایک  بہت بڑا غلط العام ہے تیکنیکی طور پر اگر آریا کسی کو کہاجاسکتاہے تو وہ ان سے پہلے والے اولین زراعت کار تھے کیونکہ آریا کے اصل معنی ’’ہریا‘‘ یعنی پہاڑی کے ہوتے ہیں لیکن آریائیت کے مدعی لوگوں نے اس میں وہ تمام صفات بھر دیں جو انسانوں میں ہوسکتی ہیں۔ شریف، نجیب، اصیل، بہادر، عالیٰ ظرف، سخی اور نہ جانے کیاکیا۔ چنانچہ اب اس نقطہ آریا پر تحقیقی رخ سے سوال اٹھ رہے ہیں۔

لیکن یہ الگ موضوعات ہیں، ہمیں ان خروجوں اور یلغاروں کا ذکر کرنا ہے جو فل ختی نے وسطی ایشیاء کے اس رحم مادرسے نکلتے ہوئے شمار کیے ہیں۔

تیسری یلغار یا خروج بھی ٹھیک ایک ہزار سال بعد یوچی یا یوزہی لوگوں کی نکلی تھی جنھیں مذہبی نوشتوں میں ’’یاجوج‘‘(یوئے چی)کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور انگریزی میں ’’گاگ‘‘ کے نام سے اس کا دوسرا عنصر می گاگ کی بنیاد منگول ہے یعنی گاک می گاگ یا جوج ماجوج۔

چوتھی یلغار ’’ہن‘‘اور’’ساکاوں‘‘ کی تھی جو اکثر کوشان (کوچیان) کے ساتھ گڈمڈ کردیے جاتے ہیں۔

ان یلغاروں کی ٹائمنگ خود بخود یہ بات ثابت کرتی ہے کہ قدرت کے اس عظیم سلسلہ تخلیق وتکوین میں ہر کام اپنے متعینہ طریقہ کار اور اصولوں کے مطابق ہوتاہے اور اس میں کسی انسانی قوت یا اقوام یا شخصیات کا کوئی عمل دخل نہیں چلتا۔جس طرح ماں کے پیٹ سے بچہ مقررہ وقت میں نکلتا ہے اسی طرح اس مادر ارض کا بھی ’’بچہ‘‘ کسی خروج یا یلغار کی صورت میں نکلتاہے لیکن’’پلتا‘‘ رحم مادر میں ہے۔

پانچویں یلغار چنگیزخان کے منگولوں یاجوج کی تھی اور اسے تقریباً اتنا ہی عرصہ گزرچکاہے جتنا کسی نئی یلغار کو تیار ہونے میں لگتاہے۔وہ یلغار ہمارے سامنے شروع ہوچکی ہے۔ وجہ وہی کثرت آبادی اور قلت خوراک کی ہے لیکن ہر خروج ویلغار کے پاس ہتھیار اور وسائل الگ الگ اور فطرت کے عین مطابق ہوتے ہیں، ظاہر ہے کہ پہلی یلغاروں میں استعمال ہونے والے ہتھیار اسی وقت کے مطابق ہوتے تھے بیل گھوڑا نیزہ کلہاڑی وغیرہ جو آج کارگر نہیں ہیں بلکہ ہر وہ ہتھیار جو ’’جسم‘‘ کو براہ راست مسخر کرتاہے اب کارآمد نہیں رہاہے۔ نئے دور کا ہتھیار سائنس ٹیکنالوجی اور سرمایہ ہے چنانچہ چین کی طرف سے ہونے والی اس یلغار کا مقابلہ کسی فرد یا ملک یا فوج سے نہیں ہے بلکہ یورپ میں پلنے والی اورساری دنیا کو چبانے والی بنکسٹر یا سرمایہ دارانہ مافیا سے ہے اور وہ اسے روکنے کے طرح طرح کے جتن بھی کررہی ہے۔ یہ آئی ایم ایف،عالمی بینک،یہ بینک وہ بینک۔یہ فنڈ وہ فنڈ یہ ڈبلیو ٹی او(ولڈٹریڈنگ آرگنائزیشن) وغیرہ)جس کا جنرل مینجر امریکاہے اور اس نے تمام ممالک میں اپنے’’سیلز‘‘ ایجنٹ بھی مقرر کررکھے ہیں، یہ لاکھ کوشش کریں۔بیج پھوٹ چکاہے۔ بچہ ماں کی کوکھ سے باہر آنے کو ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔