لوک ورثے کی تلاش

توقیر چغتائی  بدھ 6 فروری 2019

داستان گوئی ایک فن تھا اور شہروں کی نسبت دیہی زندگی فطرت کے زیادہ قریب تھی، یہاں تک کہ بڑے بڑے شہر بھی ایک آدھ میل کی مسافت کے بعد دیہی رنگ میں ڈھل جاتے تھے۔ موجودہ دورکی نسبت لوگوں کے پاس فرصت بھی زیادہ تھی اور مشاغل بھی گنے چنے تھے۔

سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ ہر شخص موبائل فون ،کمپیوٹر اور سوشل میڈیا کے سحر میں گم گھنٹوں سر نہیوڑائے بیٹھا رہتا۔ دن بھر کام کاج کے ساتھ چوپال میں جمع ہونے کا رواج بھی موجود تھا اور رات کو دیے کی مدہم روشنی میں قصے کہانیاں سنانے کی روایت بھی موجود تھی جو تب تک جاری رہتی جب تک نیند مزید جاگنے کی اجازت نہ دیتی۔ قصے کہانیوں کے ساتھ صوفیانہ شاعری کا دور بھی چلتا اور گھر کے بزرگ ان میں سموئی دانش کی تشریح بھی کرتے چلے جاتے۔

یکا یک وقت اپنی کروٹ بدل کر پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگا اور سائنسی ایجادات نے مشین کو اتنا عروج دیا کہ انسان بھی مشین کی صورت میں ڈھل گیا۔ اُس کے پاس نہ پہلے جیسی فراغت رہی اور نہ ہی روایتی مشاغل سے جڑے وہ افراد رباقی رہے جوگھنٹوں ایک ساتھ بیٹھ کر وقت کی دھیمی رفتار سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔ لوگوں کا رہن سہن ، تہذیب و ثقافت ،گائیکی، رقص و موسیقی اور قصے کہانیاں ماضی کا قصّہ بنتے چلے گئے جنھیں سنبھالنے کے لیے بڑے بڑے تاریخی اور ثقافتی اداروں کی ضرورت تھی جو بد قسمتی سے وجود میں نہ آسکے اور اگرکوئی ادارہ وجود میں آیا بھی تو اسے مالی وسائل کی کمی نے اتنا کام نہ کرنے دیا جتنا اُس ادارے سے وابستہ افراد کرنا چاہتے تھے، ہاں انفرادی طور پر کچھ ایسے افراد ضرور سامنے آئے جنھیں اس خطے کی تہذیب و ثقافت اور تاریخ سے گہری دل چسپی تھی یا وہ یہ چاہتے تھے کہ انتہائی تیز رفتاری سے ختم ہونے والے ثقافتی ورثے کوکسی نہ کسی طرح محفوظ کر لیا جائے۔

ملک کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی قومی زبانیں بھی صدیوں پرانے سماجی ، ثقافتی ، ادبی ورثے کی امین ہیں، لیکن اس ورثے کو جمع کرنے کے لیے اتنی کوشش نہیں کی گئی جس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ’’ لوک ورثہ‘‘ نے کچھ کام ضرورکیا ہے مگر بہت سارا کام کرنا پھربھی باقی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر سعید بھٹہ پنجابی ادب اور تاریخ و ثقافت سے جڑا ایسا منفرد نام ہے جو زمانہ طالب علمی سے پنجاب کی تاریخ و ثقافت،ادب اور لوک ورثے کو جمع کرنے کی خواہش دل میں لیے قریہ قریہ گھوم رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں اُن سے قبل بھی کئی نام اس شعبے میںسر گرم رہے اور اُن کے بعد آنے والے کئی نوجوان بھی اپنی تاریخ و ثقافت کے مشتاق ہیں مگر ہم ایسے بہت کم افراد سے واقف ہیں جوکسی مالی فائدے اور نمود ونمائش کی پرواہ کیے انتہائی روشن خیالی سے اپنے گمشدہ ورثے کی کڑیاں تلاش کرکے انھیں آنے والی نسلوں کے سامنے لانے اور اپنے شاگردوں کی درست رہنمائی کے قائل ہوں۔

سعید بھٹہ کا تعلق اُس خاندان سے ہے جس کی نس نس میں صوفیانہ شاعری خون کی طرح دوڑتی ہے۔ جس طرح اُن کے باپ دادا کو اپنے علاقے میں صوفیاء سے کم رتبہ نہیں دیا جاتا بالکل اُسی طرح ان کی تحریر وگفتگوکی چاشنی بھی قارئین کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔

ڈاکٹر سعید بھٹہ نے لگ بھگ چوبیس سال پہلے ایسے بزرگوں کی تلاش شروع کی جو اپنے آبا واجداد سے نسل در نسل پنجاب کی تاریخ و ثقافت سے جڑی کہانیاں سنتے چلے آرہے تھے اور اُن کے ذہن میں علاقائی تاریخ و ثقافت کی کڑیاں زنجیرکی شکل میںصدیوں کے ساتھ بندھی ہوئی تھیں ۔ ڈاکٹر سعید بھٹہ کی شخصیت کے یوں توکئی پہلو ہیں مگر ان کو قریب سے دیکھنے اور جاننے والے اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ وہ پنجاب کی تہذیب و ثقافت پر صرف روایتی انداز سے کام نہیں کرتے بلکہ اسے جدید اور ترقی پسند سوچ کے ساتھ جوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ اپنے بزرگوں سے لوک شاعری کے درس و تدریس کے بعد انھوں نے جن اساتذہ کے پاس بیٹھ کر پنجابی ادب اور تہذیب و ثقافت کا تحقیقی کام شروع کیا ان میں دوسروں کے علاوہ محمد آصف خان کا نام سر فہرست ہے۔

محمد آصف خان نے بے سروسامانی کی حالت میں جس طرح پنجابی ادبی بورڈ کے دفتر سے سہ ماہی پنجابی رسالے ’’ تماہی پنجابی ادب ‘‘ کو جاری رکھا اور اُس کا علمی ، ادبی اور ثقافتی معیار برقرار رکھا اُس کی مثال شاید مشکل سے ہی ملے۔ انھوں نے پنجاب کی تاریخ کے ساتھ موئن جودڑو، ہڑپہ،گندھارا، سواں اور برصغیرکے مختلف علاقوں میں پروان چڑھنے اور فنا ہونے والی تہذیبوں پر بھی انتہائی بمختلف اور بھرپور انداز سے لکھا۔

گمشدہ ورثے کو تحقیق و تلاش کے بعد درست طریقے سے قارئین تک پہنچانے کا کام یوں تو بہت سارے افراد اور ادارے کر رہے ہیں مگر ایسے محققین آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں جو اسے پایہ ٔ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کتابوں کے بجائے پا پیادہ سفر کرتے ہوئے ان شخصیات کو تلاش کریں جو اس خزانے کو کتابوں کے بجائے زبانی Oral بیان کرنے پر قادر ہوں۔ سعید بھٹہ حصول علم کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیں جہاں اُستاد کی سند حاصل کرناکوئی مشکل کام نہیں مگر اس مسند پرفائز دیگراساتذہ سے وہ اس لیے مختلف ہیں کہ وہ گمشدہ تاریخی اور ثقافتی ورثے کواپنی تحقیقی گٹھڑی سے نکال کر مستقبل کے معماروں تک پہنچانے کا فریضہ بھی انجام دے رہے ہیں ۔ ان کی انکساری اور فقیرانہ مزاج کی چھائوں میں بیٹھے طالب علم کسی ایک علاقے سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ پنجاب کے کونے کونے اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے علم و ادب کے متوالے بھی ان کی تحقیق و تنقیدسے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

ڈاکٹر سعید بھٹہ کی جمع شدہ لوک داستانوں اور ثقافتی ورثے سے متعلق چھپی کتابوں کی فہرست درجن بھر سے زیادہ ہے اور ان کی تحریروں کی فہرست بھی طویل ہے جو اس مختصرکالم میں بیان کرنا ہمارے لیے انتہائی مشکل ہے مگر پچھلے دنوں’’سانجھ‘‘ پبلی کیشن کی طرف سے “The Eleventh Hour Man ” کے نام سے چھپی ان کے دو شاگردوں ڈاکٹر طارق بلوچ اور ڈاکٹر ظہیر وٹو کی کتاب سے ان کی شخصیت اورکام پر مزید روشنی ڈالتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔