’’تار آیا، تار آیا‘‘ کی صدا، سدا کے لیے رخصت

غلام محی الدین  اتوار 28 جولائی 2013
پاکستان میں تار سروس 2005 میں اور سری لنکا میں 2011 میں بند ہو چکی ہے وٹو : فائل

پاکستان میں تار سروس 2005 میں اور سری لنکا میں 2011 میں بند ہو چکی ہے وٹو : فائل

اسلام آ باد:  چودہ جولائی2013 کی رات کو جب بھارت میں ٹیلی گرام سروس ہمیشہ کے لیے بند کر دی گئی تو اس کے سا تھ ہی بر صغیر پاک و ہند اور قرب و جوار کے ممالک سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک قدیم باب بھی ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔

پاکستان میں یہ سروس 2005 میں اور سری لنکا میں 2011 میں بند ہو چکی تھی ۔ اس سروس نے خطے کے عوام کی خوشیوں اور غموں سے متعلق فوری اطلاع کو ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصہ تک جس انداز سے نباہا، وہ ہماری رفتہ و گذشتہ معاشرت کا ایک بہت ہی اہم حصہ ہے۔ اسے ہمارا مورخ یا لکھاری ہر گز نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ماضی قریب تک تار کے آنے پر لوگ جو ردعمل ظاہر کرتے تھے اس کو بھول جانا یا بھلا دینا ممکن نہیں کیوں کہ وہ اب ہماری شاعری، فوک لور، ناٹک نوٹنکی اور فلم وغیرہ کا حصہ بن چکا ہے۔

برصغیر میں ٹیلی گرام ٹیکنالوجی 1851 میں آئی۔ پہلی الیکٹرک ٹیلی گراف لائن بنگال میں ڈالی گئی تھی جسے بعد میں آگرہ، بمبئی (اب ممبئی)، کلکتہ (اب کولکتہ)، لاہور، بنارس (اب واراناسی) اور دیگر شہروں سے جوڑ دیا گیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1830 کی دہائی کے دوران دو برطانوی موجد ولیم کوک اور چارلس وہیٹ اسٹون نے الیکٹرک ٹیلی گراف سسٹم ایجاد کیا تاہم بعض مؤرخین دعویٰ کرتے ہیں کہ درحقیقت پہلا ٹیلی گراف 24 مئی 1844 کو وجود میں آچکا تھا اور اس کے موجد سیموئل مورس نے پہلا ٹیلی گرام بھیجا تھا۔ اس سے قبل امریکا میں دو ہزار میل کے فاصلے تک پیغام پہنچانے کے لیے گھڑ سوار کو دس دن لگتے تھے۔ 20 اگست 1911 کو شام 7 بجے نیویارک ٹائمز کے دفتر سے کمرشل سروس کے ذریعہ دنیا بھر میں پہلا ٹیلی گرام بھیجا گیا اور یہ پیغام 28 ہزار میل کا سفر طے کرنے کے بعد 16.5 منٹ میں واپس آیا۔ سب سے پہلے امریکا میں آغاز ہونے والا یہ نظام سب سے پہلے ( 27 جنوری 2006 کو ) اختتام پذیر بھی امریکا ہی میں ہوا۔

امریکا میں شروع کی جانے والی یہ سروس محض ایک دہائی بعد ہی برصغیر پاک و ہند (1854) میں بھی عام لوگوں کے افادے کے لیے متعارف کرا دی گئی۔ اس وقت آزادی کی جنگ لڑنے والے انقلابی برطانوی کمیونیکیشن کو ٹھپ کرنے کے لیے اکثرو بیش تر ٹیلی گرام لائن کو کاٹ دیا کرتے تھے۔ بعد میں یہ سروس فوج کے جوانوں کواچھی یا بُری خبریں مثلاً چھٹیاں، ٹرانسفر، جوائننگ، جنگ اور ایمرجنسی سے مطلع کرنے کے لیے استعمال ہوتی رہی۔

پاک و ہند کی معاشرت میں ٹیلی گرام یعنی ’’تار‘‘ آنے پر پہلا ردِ عمل اکثر نا خوش گوار ہوتا تھا، جب اور جہاں تار آیا کرتا تھا تو یہ ہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ کسی سانحے کی اطلاع ہوگی۔ بعض اوقات تو تار ملتے ہی پورا گھرانا ماتم کناں ہو جایا کرتا تھا کہ ضرور کسی کے مرنے کی خبر ہوگی اور یہ درست بھی ہے۔ ہمارے قدرے سست رو سماج میں آج بھی دکھ کی ترویج کو ترجیح دی جاتی ہے لہٰذا ہم ’’موت‘‘ کی خبر کی ترسیل بے تاخیر کرنا چاہتے ہیں سو برصغیر میں مرنے کی خبر پہنچانے کے لیے تار ہی کو ترجیح دی جاتی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تار کا نام سنتے ہی لوگ دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیتے تھے۔

مگر بعض اوقات صورتِ حال بڑی دل چسپ ہو جاتی تھی جب ڈاک بابو یا ڈاکیا تار پڑھ کر اہل خانہ کو مفہوم سمجھاتا کہ خاندان کے بڑے لڑکے کو نوکری کی کال آئی ہے یا اسی نوع کی کوئی اچھی خبر سامنے آتی تو سسکیاں قہقہوں میں بدل جاتیں۔ یاد رہے ڈاکیا اور ڈاک خانے کا انچارج ’’ڈاک بابو‘‘ ہمارے ماضی کا ایک مضبوط معاشرتی کردار ہے، اسے علاقے میں بڑی توقیر دی جاتی تھی۔ برصغیر پاک وہند کی معاشرت میں جہاں اور بہت ساری روایا ت اورچیزوں میں تبدیلی آئی ہے وہیں ڈاکیا، ڈاک بابو ، ڈاک خانہ اور ڈاک بنگلہ جیسی اصطلاحات بھی اب کم کم ہی سنائی دیتی ہیں، وجہ ایک ہی ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے۔ گذشتہ چار عشروں میں ہر سطح پر رو نما ہونے والی تبدیلی نے اس تیزی سے رنگ جمایا ہے کہ آج خاکی رنگ کی وردی والے ڈاکیے کے بارے میں نئی نسل کو سمجھانا پڑتا ہے۔

آج کے بچے کوریئر سروس کے ’’کوریئر مین‘‘ کو تو جانتے ہیں مگر پاکستان پوسٹ کے ڈاکیے سے واقف نہیں، شاید اسی لیے اب باقی بچ جانے والے ڈاکیوں نے وردی پہننا ہی چھوڑ دی ہے۔ دیہات میں رہنے والے لوگوں کو تو اب بھی یاد ہو گا کہ کھیتوں اور باغات کے درمیان بنی پگ ڈنڈیوں پر جوں ہی ڈاکیے کی سائیکل نظر آتی یا سائیکل پر لگی گھنٹی کے بجنے کی آواز سنائی دیتی تو لوگ اس کی راہ میں کھڑے ہوجاتے تھے، صرف یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کہیں ان کا کوئی خط تو نہیں آیا۔ جنہیں منی آرڈر کا انتظار ہوتا وہ صبح ہوتے ہی ڈاکیے کی سائیکل کے ہینڈل پر لگی گھنٹی کی آواز پر کان لگا کر بیٹھ جاتے تھے، ڈاکیے کے انکار پر مایوس ہوجاتے اور اگلے دن کی آس پر پھر انتظار میں بیٹھ جاتے تھے، ڈاکیا اقرار میں سر کو جنبش دیتا تو باچھیں کھل جاتیں اور ڈاکیے کو نقد انعام دیا جاتا یا پھر منہ میٹھا کرایا جاتا۔

جب کہ بڑے شہروں کا حال کچھ یوں تھا کہ شہر میں صدر پوسٹ آفس کے سامنے لوگ لائن میں لگ کر خط لکھوایا کرتے تھے۔ خط لکھنے والوں میں ریٹائرڈ ڈاکیوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی۔ لوگوں کا یہ عالم ہوتا کہ خط لکھوانے یا منی آرڈر فارم بھروانے کے لیے تجربہ کار ریٹائرڈ ڈاکیے کو ترجیح دی جاتی۔ یہ لوگ مرکزی ڈاک خانوں کے گرد صبح سے شام تک بیٹھے رہتے تھے، اَن پڑھ افراد کے خط لکھنا یا منی آرڈر فارم بھرنا ڈاکیوں کا ذریعہ آمدن اور پرسکون معاش ہوتا تھا۔ ہماری معاشرت میںایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب خط لکھنا خواندگی کا معیار تصور ہوتا تھا۔

اکثر بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ اپنے بچوں کو کم ازکم اتنا تو ضرور پڑھاؤ کہ اسے خط لکھنا آجائے۔ شادی کے وقت لڑکی کا رشتہ لانے والے سے پوچھا جاتا کہ لڑکی خط پڑھنا لکھنا جانتی ہے؟ سوال کا جواب اثبات میں ہوتا تو سسرال والے پھولے نہ سماتے تھے کہ چلو پڑھی لکھی لڑکی مل رہی ہے، سسر اتراتے پھرتے کہ پڑھی لکھی بہو بیاہ کر لا رہے ہیں۔

عشرے ڈیڑھ عشرے پہلے تک شادی بیاہ، خوشی غمی یا کسی اور اہم تقریب میں شرکت کے لیے رشتے داروں اور دوستوں کو دعوت نامے بہ ذریعہ خط یا ٹیلی گرام دیے جاتے تھے۔ امتحانی رزلٹ بھی ڈاکیا تقسیم کرتا تھا اور پاس ہونے والے بچے کا رزلٹ تب تک نہ دیتا جب تک اسے کوئی شیرینی نہ ادا کر دی جاتی۔ اگر تار وصول کرنے والا اَن پڑھ ہوتا تو ڈاکیا ہی اسے تار پڑھ کرسناتا تھا، خبر بری ہوتی توڈاکیا چہرے پر دکھ یا سنجیدگی طاری کر لیا کرتا اور اچھی اطلاع پر آواز و انداز کو خوش گوار بنا لیا کرتا۔ دکھ پر خاموشی سے مڑ جاتا لیکن اگر خبر کسی بہن ، بھائی، باپ یا کسی دوسرے رشتے دار کے آنے کی ہوتی یا رشتہ پکا ہونے کا پیغام ہوتا تو ڈاک بابو اپنی فیس لیے بغیر نہ ٹلتا۔ دیہی علاقوں میں تو شان ہی کچھ اور ہوتی۔ ڈاکیے اور منشی (خط نویس) کی بڑی آؤ بھگت ہوتی بل کہ انہیں بے شمار لوک گیتوں کا کردار بھی بنایا گیا مثلاً

تینوں دے آں گی پنج پتاسے
وے منشی خط لکھ دے
ترجمہ:’’ اے منشی خط لکھ دے میں تجھے پانچ بتاشے دوںگی‘‘۔۔۔ یا پھر
چٹھی ذرا سیاں جی نام لکھ دے
حال مرے دل کا تمام لکھ دے

دن چڑھتے ہی خاکی وردی اور پاؤں میں پشاوری چپل پہنے، سردی ہو یا گرمی ڈاکیا خطوط، لفافوں کا تھیلہ اٹھائے، ناک کہ پھننگ پر عینک ٹکائے، ڈاک بانٹنے نکل پڑتا۔ ایک بزرگ شہری نے بتایا کہ جب ہمارے محلے میں ڈاکیا آتا تھا تو سب اس کو گھیر کر بیٹھ جاتے تھے اور اپنے اپنے پیاروں کے خطوط کے بارے میں پوچھا کرتے تھے، ایک اچھی خاصی بیٹھک سی لگتی تھی مگر آج جوان نسل کو خط کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ ان کے ہاتھ انٹرنیٹ لگ گیا ہے۔ محکمہ ڈاک میں تقریباً 40 سال سروس کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہونے والے ایک ڈاکیے نے بتایا ’’ماضی میں جب میں کسی گھر میں خط ڈالنے جاتا تھا تو گھروالوں کی خوشی دیدنی ہوتی تھی جیسے ان کا کوئی کھویا ہوا مل گیا ہے۔ ’’خط ۔۔۔۔ آدھی ملاقات‘‘ کا محاورہ قابل غور ہے۔

بزرگ نے آہ بھر کر کہا ’’ آج ڈاکیے کا یہ احوال ہے کہ کس نہ می پرسد کہ بھیا کون ہو‘‘ کہنے لگا ’’تن خواہ کے علاوہ مجھے خاکی یونیفارم کے 60 روپے اور پشاوری چپلی کے 40 روپے سالانہ ملتے تھے، سال میں دو یونیفارم بھی محکمہ کے ذمے تھیں، عیدالفطر ، عیدالاضحی اوردوسرے تہواروں پر ڈاکیے کو خدمات کا خصوصی معاوضہ عیدی کے طور پر دیا جاتا تھا، اس دور میں ہمارا بڑا ٹھسا ہوا کرتا تھا، زمانہ بدل گیا ہے، اب نہ وہ خاکی وردی رہی نہ امتحانی رزلٹ ہی ڈاک سے آتا ہے، اب موبائل فون ہے، انٹرنیٹ ہے ، چیٹنگ ہے، ویب کیم ہے، منی آرڈر کی جگہ ہنڈی، فارن ایکس چینج اور منی ٹرانسفر کمپنیوں نے لے لی ہے، خط کی جگہ ای میل آگیا ہے، سو ڈاکیے کا انتظار اب کون کرے، اب تو معاشرے سے ڈاکیے کا روایتی کردار بھی ختم ہوگیا ہے ‘‘۔

جیسے جیسے وقت نے ترقی کی ویسے ویسے پیغام رسانی کا انداز بھی جدید انداز میں ڈھل گیا۔ ڈاک اورٹیلی گرام کی جگہ اب فیکس، اِی میلز، موبائل میسیج، سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ نے لے لی ہے۔ شاید اسی لیے بھارت میں 163سال پرانی ٹیلی گرام سروس کو بند کرنا پڑا۔ اِس سروس کا آغاز 1850 میں کلکتہ اور ڈائمنڈ ہاربر کے درمیان تجرباتی بنیاد پر کیا گیا اور 1854 میں اْسے عوام کے لیے کھولا گیا لیکن وقت سدا ایک سا نہیں رہتا، بڑھتے خسارے کی وجہ سے بھارتی حکومت کے مواصلاتی ادارے بی ایس این ایل نے اِسے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

اِس سروس کے ذریعے سالانہ 75 لاکھ روپے کا ریوینیو حاصل ہوتا تھا لیکن اِسے چلانے کے لیے 100کروڑ روپے سے بھی زیادہ اخراجات اٹھتے تھے، سروس کی بندش کے باعث اس سروس سے منسلک 6 ہزار سے زیادہ ملازمین بے روزگار ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے بھارت کی وزارت ٹیلی کمیونی کیشن دہلی نے کہا ہے کہ ٹیلی گرام سروس کے 5960 ملازمین کا ان ہی شہروں میں مرکزی حکومت کے دوسرے دفاتر میں تبادلہ کردیا جائے گا۔ تین ہزار ملازمین کے تبادلوں کے احکام دیے جاچکے ہیں، دوسری جانب ٹیلی گرام سروس انڈیا کے سینیئر حکام کانگریس کے نائب صدر اور وزیراعظم کے مشیر راہول گاندھی سے ان کے گھر پر ملاقات کر چکے ہیں۔ حکام نے راہول گاندھی کو بتایا ہے کہ محکمہ کو ختم کرنا مناسب نہیں اسے جدید خطوط پر آگے بڑھانے کے انتظامات کیے جانے چاہییں۔ راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے منسٹری سے بات کریں گے۔ انہوں نے یقین دلایا ہے کہ ٹیلی گرام سروس کے ملازمین کو بے روزگار نہیں ہونے دیا جائے گا۔

ریڈف کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اسمارٹ فون، ای میلز اور ایس ایم ایس نے بھارت میں ٹیلی گرام سروس کو غیر موثر کرکے رکھ دیا تھا۔ یاد رہے پاکستان میں سال 2005 میں 21 اور 22 نومبر کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کی جنرل منیجرز کانفرنس میں خسارے میں جانے والی ٹیلی گرام سروس بند کرنے کا فیصلہ بھی شاید اسی وجہ سے کیا گیا تھا۔ انٹرنیشنل ٹیلی گراف یونین (جس کا پاکستان رکن ہے) کی اجازت کے بغیر مذکورہ سروس بند نہیں کی جاسکتی تھی لہٰذا اجازت ملنے کے بعد جنوری 2006 کے پہلے ہفتے میں پی ٹی سی ایل پورے ملک ٹیلی گرام اور ٹیلیکس سہولتوں سے دستبردار ہوگئی تھی۔ واضح رہے کہ 1991 سے 2005 کے درمیان پاکستان بھر میں ٹیلی گراف دفاتر کی تعداد 497 سے گھٹ کر 299 رہ گئی تھی۔ زیادہ کمی دیہی علاقوں میں ہوئی تھی جہاں یہ تعداد 1991 میں 302 سے گھٹ کر 2005 میں محض 73 رہ گئی تھی۔

بھارت کے ٹیلی گرام سروس کے ایک ملازم کاکہنا ہے کہ بٹوارے سے پہلے ’’ تار بابو ‘ ‘ کے عہدے کے لیے تعلیمی قابلیت صرف میٹرک فرسٹ ڈویژن ہوتی تھی لیکن امتحان اور تحریری امتحان میں جو تیز دماغ کے ہوتے تھے صرف ان کو ہی اس سروس کے لیے لیاجاتا تھا۔ تمام تار افسران کو’’ڈاٹ اور ڈیس‘‘ کے بارے میں اچھی معلومات ہوتی تھی جسے بعد میں ترجمہ کیاجاتا تھا۔ اردو لغت میں ٹیلی گراف یا ٹیلی گرام کے معنی ہیں’’دور خبر پہنچانے کا آلہ‘‘۔ ایک زمانہ تھا جب لاکھوں لوگوں کے لیے یہ پیغامات پہنچانے کا سب سے تیز رفتار ذریعہ تھا، ٹیلی گرام کو عام زبان میں ’تار‘ یا ’وائر‘ کہا جاتا تھا لیکن آج اس کی اہمیت ختم ہوگئی ہے۔

آج جدیدیت اور جدت کا دور دورہ ہے لہٰذا دنیا بھرکے افراد تیز رفتار ی کی دوڑ میں شامل ہیں اور ہرکوئی یہی چاہتاہے کہ وہ اپنے احباب سے فوری رابطہ کر لے۔ اپنے مراسلات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر فوری طور پر ٹرانسفر کر لے یوں ہر کوئی آج کل ای میل اور اسکائپ ، موبائل فون اور اسی طرح کے جدیدیت کا سہارا لینے میں سرگرداں ہیں۔ نئی چیزیں اور دریافتیں زندگی کے میدان میں آچکی ہیں اور لوگ پرانے طریقۂ کار کو بھلا بیٹھے ہیں۔ زندگی اور دنیا میں یہی کام جار ی و ساری ہے کہ لوگ پرانے کو بھول کر نئے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ بھارت میں سال 1985کے دوران یہ سروس اپنے عروج پر تھی، جب یومیہ چھ لاکھ تار بھیجے جاتے تھے ، مگر اب صورتِ حال یہ ہوگئی تھی کہ تعداد گھٹ کر 4000 یومیہ رہ گئی تھی۔

بھارت میں جس دن یہ سروس بند ہو رہی تھی اس روز ٹیلی گرام دفاتر پر لوگوں کا ہجوم رہا، لوگوں نے یادگار کے طور پر اپنے عزیزوں کو ٹیلی گرام ارسال کیے۔ محکمے کے مطابق، رات نو بجے آخری ٹیلی گرام دیا گیا اور اْسے اِسی شب ڈلیور بھی کردیا گیا ۔

پاکستان کے وفاقی ادارہ شماریات کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ڈاک کے ذریعے خط وکتابت کی تعداد 35کروڑ 84لاکھ سے کم ہو کر35کروڑ25لاکھ رہ گئی ہے۔ یونیورسل پوسٹل یو نین ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھرمیں ڈاک کے ذریعے بھییجے جانے والے کل خطوط کی تعداد کا 5 سے 11 فیصد حصہ عام لوگوں کی جانب سے کیا جاتا ہے، جب کہ 80 فی صد ڈاک حکومتی عہدے داروں کی جانب سے بھیجے گئے خطوط اور کاغذات کی ہی ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔