قومی اتفاق رائے بنائیں

مزمل سہروردی  بدھ 1 مئ 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان کے سیاسی نظام میں خرابی کی ایک بڑی وجہ کمزور اور لاغر الیکشن کمیشن ہے۔ کمزور اور لاغر الیکشن کمیشن کی وجہ سے ہی پاکستان کا سیاسی نظام آج آلودہ بدبو دار اور اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ عوام اس نظام کو بدلنے کی بات کر رہے ہیں۔ حالانکہ میں سمجھتا ہوں نظام میں خرابی نہیں ہے۔ دراصل ہم نظام کو ٹھیک طرح چلانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ ایسی صورتحال میں کوئی بھی نظام لے آئیں اس کا یہی حال ہوگا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے گزشتہ روز جو پریس کانفرنس کی ہے، اس کے مندرجات ہم سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ کسی بھی مہذب جمہوری ملک میں کسی بھی تنظیم اور بالخصوص سیاسی تنظیم کو غیر ممالک اور پھر دشمن ممالک سے فنڈنگ لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس کی سخت سے سخت سزا ہونی چاہیے، لیکن کون دے گا؟ کیسے دے گا؟ اور اب تک کیوں نہیں دی گئی؟ اس میں اصل وجہ نظام میں خرابی ہے۔ بھارت اور افغانستان ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیل رہے ہیں، اس کا کسے پتہ نہیں ہے؟ کیا اس ملک میں ہر کام فوج نے ہی کرنا ہے، باقی ادارے اور سیاسی کیڈر کہاں ہیں؟

ہمارے ملک کے دشمن بعض تنظیموں کو ایسے ہی استعمال کرنے کی سازش کر رہے ہیں جیسے ماضی میں انھوں نے مکتی باہنی کو استعمال کیا تھا۔ لیکن زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا ہے۔ ہم نے ملک میں ایسے قوانین نہیں بنائے کہ دوبارہ کوئی مکتی باہنی نہ بن سکے۔ ہم نے ایسا سیاسی نظام نہیں بنایا کہ اس میں دوبارہ کوئی مکتی باہنی داخل نہ ہو سکے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت بھی دشمن نے ہمارے سیاسی نظام میں سرنگ لگا لی تھی۔ آج بھی دشمن ہمارے سیاسی نظام میں سرنگ لگا نے کی مذموم کوشش کر رہا ہے۔

دشمن کو ناکام بنانے کے لیے ہمارے ملک کی سیاسی قوتوں کو ریاستی اداروں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا۔ ملک کی سیاسی قوتوں کو ہوشن کے ناخن لینے ہوںگے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے عناصر جن کی سرگرمیاں ریاستی مفادات کے خلاف ہیں ، ان کے بارے میں تمام شواہد کے ساتھ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پارلیمانی قائدین کو اعتماد میں لے۔ ایسی تنظیموں کے خلاف سیاسی مقدمہ جیتنے کی بھی ضرورت ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کو اس مقدمے میں ریاستی اداروں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا۔ تب ہی مقدمہ جیتا جا سکتا ہے۔

جب دشمن اندر سے حملہ کر رہا ہو تو ایک قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی جنگ کو جیتنے کے لیے ملک میں اتفاق رائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قوم کو یک جان ہونا ہوتا ہے۔ جنگ اکیلے اکیلے نہیں بلکہ مل کر ہی لڑی جا سکتی ہے اور آج ہم تقسیم ہیں۔ جیسے ماضی میں تقسیم تھے۔

افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ حکومتی وزرا بھی کمزور نظرآتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ اپنے سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ دوسری طرف وہ قوتیں جو دشمن کے ہاتھ میں کھیل رہی ہیں، ان کے بارے میں وہ بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ان کے منہ سے لفظ نہیں نکلتا۔ کیا حکومت کو نہیں معلوم کہ کون سے گروہ ملک میں نفرت پھیلا رہے ہیں۔ کیا وزیراعظم اور وزراء کو معلوم نہیں کہ دشمن کا بیانیہ آگے بڑھانے والے کون ہیں؟۔ ملک میں نفرت کی سیاست کون کررہاکر رہا ہے۔

مجھے ڈر ہے کہ دشمن نے ہمارے سیاسی نظام میں جو سرنگ لگا لی ہے ا س کو ناکام کرنے کے لیے ہماری سیاسی قوتیں تیار نہیں ہیں۔ ان کو معاملے کی حساسیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ ایسا لگ رہا ہے حکومت کو بھی معاملے کی حساسیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں اس وقت بظاہر حکومت کے ساتھ ناراض ہیں۔ اس لیے مجھے ڈر ہے کہ حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتیں اس حساس معاملے پر ریاست اور ملی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد کی سیاست کریں گی جو نہایت افسوسناک ہو گا۔

الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق ملک کی کسی سیاسی جماعت اورالیکشن لڑنے والے کسی بھی نمایندے کو کسی بھی قسم کی غیر ملکی فنڈنگ لینے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن آج تک اپنے اس قانون پر عملدرآمد نہیں کرا سکے ہیں۔ ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے خلاف بیرون ممالک سے فنڈنگ لینے کے مقدمات الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہیں اور آج تک الیکشن کمیشن ان درخواستوں پر فیصلہ نہیں کر سکا ہے۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ ہر امیدوار الیکشن سے پہلے بیرون ملک اپنے دوستوں سے چندہ مانگتا ہے۔ جس کی قانون اور آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔قومی نمایندوں کو بیرونی فنڈنگ سے روکنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ جس میں وہ ناکام ہے ۔

ملک میں ریاستی اداروں کے خلاف بات کرنا سیاسی فیشن بن گیا ہے۔ ترقی پسند ہونے کی نشانی بن گیا ہے۔ کیا دشمن کے بیانیہ کی ترویج ہی آزادی اظہار کے زمرے میں آتی ہے۔ میرا سوال یہ بھی ہے کہ جب کوئی گروہ یا شخصیت قومی سلامتی کے خلاف کام کرتا ہے تو حکومت اس کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیتی۔قانون خود بخود حرکت میں کیوں نہیں آتا؟ ہمارے پارلیمانی ادارے خود بخود حرکت میں کیوں نہیں آتے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔