ہلچل مچاتی خبریں

نادر شاہ عادل  جمعرات 23 مئ 2019

فالو اپ follow-up رپورٹر کا صحافت میں سر آئینہ سے پس آئینہ حقائق کا ایک اور عکس دکھانے کی کوشش ہے، یعنی اس سے مراد چھپی ہوئی کسی خبرکی مزید تفصیل تاکہ خبر کے تعلق زدگان کو نوید ہوکہ ان کی جان خبرکے منطقی انجام تک نہیں چھوٹے گی۔ آج اکثر مدیر اور سینئر صحافی فالو اپ کی اہمیت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں لیکن فالواپ پر توجہ صرف وہی رپورٹردیتے ہیں جنھیں شہریوں کو درپیش غیر انسانی صورتحال کا ادراک ہوتا ہے،ان میں سیاسی انارکی، انتظامی تساہل، بیوروکریٹس کی سنگدلی، بری طرز حکمرانی اور بدعنوانی کے سمندر میں تیرنے کے لیے خبرکا کوئی اضافی موتی ملنے کی تمنا ہوتی ہے، یہ پرجوش رپورٹر ہوتے ہیں جو ایک واقعہ کو اس کے ہمہ جہتی تناظر میں دیکھتے ہیں کیونکہ خبر اپنے مضمرات کے ساتھ چھپتی ہے،اس لیے قارئین بھی بیتاب ہوتے ہیں کہ کل کی خبر کا رد عمل کیا سامنے آیا ،کوئی ہلچل مچی، انتظامیہ نے اپنے ضمیر میں کوئی خلش محسوس کی، محکمہ جاتی تطہیرکا کوئی عندیہ ملا۔ فالو اپ کی ہدایت چیف رپورٹر یا ایڈیٹر خود بھی دے سکتا ہے۔ایک بار ایک بڑے اخبار کے سٹی پیچ پر ڈبل کالمی خبر چھپی جس کا ری ایکشن علاقہ تھانہ کی طرف سے شدید آیا۔

سٹی ایڈیٹر نے مجھے بلایا اورکہا کہ ’’ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اس اخبار کی خبر تیرکی طرح نشانہ پر جاکرلگتی ہے۔‘‘ وہ خبر لیاری میں منشیات کے عادی افراد کی ہلاکت سے متعلق تھی۔آخری وضاحت ایس پی کی طرف سے آئی جس میں انھوں نے مالک اخبار سے شکایت کی کہ خبر دینے والا رپورٹر تحریک بحالی جمہوریت سے تعلق رکھنے والے رہنما کا بھائی ہے۔خبر بدنیتی پر مبنی ہے، میں نے عرض کی کہ سر! اگر خبر غلط ہے تو میں گھرجانے کو تیار ہوں۔ چیف ایڈیٹر کہنے لگے نہیں بھائی، تم کام جاری رکھو۔ بعد میں مجھے  ڈان کے سینئرکرائم رپورٹر صدیق بلوچ نے کہا کہ اگر خبر کے آخر میں آپ یہ جملہ بڑھا دیتے کہ مقامی تھانہ نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ حقائق درست نہیں۔

فالو اپ پرنٹ میڈیا اور آن لائن پر آنا چاہیے، بوسٹن میں گذشتہ چند ماہ کے دوران رپورٹرز کی تحقیقاتی رپورٹس پر مبنی فلم (اسپاٹ لائٹ) Spotlight نے تہلکہ مچا دیا ، یہ خبریں مذہبی پیشواؤں کے بچوں کے ساتھ زیادتی کے اندوہناک واقعات پر مبنی تھیں ۔ رپورٹرکو ان شاندار رپورٹس پر پلٹزر پرائز سے نوازا گیا اور ہالی ووڈ نے اس پر فلم بنائی۔ یوں دیکھا جائے تو واٹرگیٹ سے لے کر کسی بھی بڑے انکشاف کی خبر کا جب تک تسلسل کے ساتھ رپورٹر یا گروپ آف رپورٹرز نے پیچھا نہ کیا ہو وہ بڑی تبدیلی کا سبب نہیں بنی ہے۔فالو اپ ایک انتباہ ہے۔

یہ ان عناصر کے لیے خطرہ ہے جو خبرکے مرکزی کردار ہوتے ہیں۔ سماج دشمن عناصر یا مافیاؤں کی رعونت آمیز ذہنیت ہوتی ہے کہ وہ پہلی خبر پر حقارت سے مسکرا دیتے ہیں ، مگر جب خبریں ان کا دیوانہ وار تعاقب کرتی ہیں تو ان کی تشویش بڑھ جاتی ہے، راتوں کی نیند حرام ہوجاتی ہے اور آخرکار جیت  خبر کی ہوتی ہے، جس کی بنیاد پر حکومت ایکشن لینے پر مجبور ہوتی ہے، سرکاری محکمے خواب غفلت سے بیدار ہوجاتے ہیں اور عدلیہ  انھیں کیفر کردار تک پہنچا دیتی ہے۔تاہم خبر اور فالو اپ کا سارا دارومدار سچ، حقائق کی تصدیق، اس کے دستاویزی ثبوت اور’’سورس‘‘کے غیر متزلزل یقین واعتماد پر ہوتا ہے، البتہ جعلیfake خبر اڑتا تیر ہے، وہ صحافت کی روح سے انحراف ہے، اس سے رپورٹرکی ساکھ متاثر ہوتی ہے، ادارہ بے وقارکہلاتا ہے، رپورٹر نظروں سے گرجاتا ہے اور صحافت مفت میں بدنام ہوجاتی ہے۔

تحقیقاتی رپورٹنگ میں کامران خان نے چار عشرے قبل کراچی کے شام کے اخبار ڈیلی نیوز میں اپنی شناخت بنائی، وہ منشیات اورجرائم کی خصوصی خبریں دیتے تھے۔ منشیات کے عالمی اور ملکی سوداگر ان کا خاص موضوع تھے۔ واجد شمس الحسن ان کے استاد اور رہنما ایڈیٹر تھے۔کامران خان نے مہران بینک سکینڈل میں دھوم مچائی،یہ کیس آج بھی اصغر خان کیس کی صورت میں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، اس کے مرکزی کردار یونس حبیب اب اس دنیا میں نہیں رہے جو 14کروڑ روپے سیاستدانوں اور دیگر شخصیات میں بانٹنے پر مامور رہے تھے۔کامران نے اپنے صحافتی کیرئیر کا پہلا سوال جنرل ضیاء الحق سے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔

وہ راقم اور یوسف خان کے درمیان کرسی پر بیٹھے تھے، یوسف خان نوائے وقت کے بہترین رپورٹر ، ٹرانسلیٹر اور انگریزی ، اردو زبان کے ابھرتے ہوئے کالم نویس بھی تھے، مرحوم جواںسالی میں انتقال کرگئے، کامران خان کے لیے رہنما دوست کا درجہ رکھتے تھے، اور ان ہی کے کہنے پر وہ تیزی سے اٹھے اور سوال داغ دیا، یہی وہ بد نصیب پریس کانفرنس تھی جس میں شوبز پیچ کے انچارج اور مشہور صحافی اقبال احمد خان جنرل صاحب سے سوال کرتے ہوئے اپنی نشست  پر گرگئے تھے ، انھوں نے اسپتال جاتے ہوئے دم توڑدیا، ان پر دل کا دورہ پڑا تھا ۔ اے پی پی کے چیف رپورٹر عذیر احمد ان کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے تھے اور یہی وہ پریس کانفرنس تھی جب جنرل ضیاء سے آغا مسعود حسین نے پاکستان اسٹیل سے متعلق ایک چبھتا ہوا سوال پوچھا تھا جس پر جنرل صاحب نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں جانتا ہوں تمہارے دماغ میں کون سا کیڑا کلبلا رہا ہے۔ ‘‘ بعد میں جنرل عباسی نے صحافیوں کو پریس کانفرنس ختم کرنے کی اطلاع دی اور کہا کہ افسوس ہے آپ کے ساتھی اقبال احمد خان اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

رپورٹرز کی جستجو اور نئی خبریں تلاش کرنے کی مسابقت بعض اوقات مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا کی تصویر بن جاتی تھی۔ ایک دن خبر پر نظر پڑی تو یہ چشمک زنی یاد آئی خبر لیاری میں منشیات کی خرید وفروخت کے ایک نئے اسٹائل کے بارے میں تھی ۔ خبر تھی کہ منشیات فروشوں نے چرس، ہیروئن اور راکٹ وغیرہ بیچنے کے لیے بکریوں کا استعمال شروع کردیا۔ خبرکے مطابق منشیات کے اڈوں پر نشہ آور اشیا کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اب بکریوں کے تھنوں پر تھیلیاں باندھ کر ان میں منشیات کی سپلائی ہورہی ہے، منشیات فروشوں کے کارندے ان بکریوں کو علاقے میں سیروتفریح کے لیے گھماتے رہتے ہیں ، اور خریداروں کو چلتے چلتے پڑیائیں بیچتے ہیں۔

خبر انوکھی تھی اور مخالف ہمعصر اخبار کے کرائم رپورٹر کے لیے چیلنج بھی، ہوسکتا ہے اسے اس کی مسنگ میں بھی شمارکیا گیا ہو ،چنانچہ اسی  ہفتہ مخالف اخبار میں کرائم رپورٹر اس سے بڑا اسکوپ لے آیا۔رپورٹر نے انکشاف کیا کہ شہر میں چوروں اور ڈاکوؤںنے اندھیری رات میں واردات کے لیے سانڈے اور مگرمچھ کی نسل کے جانور’’گوہ‘‘ lizard-like reptile کا کامیابی سے استعمال کیا۔ رپورٹ کے مطابق چوروں نے گوہ کی کمر سے نائیلون کی رسی باندھی اور اسے کمال مہارت سے دور اونچائی پرگھر کی دیوار کی طرف اچھالا،گوہ دیوار سے چپک جاتا تھا  اور چور رسی کی مدد سے دوسری یا تیسری منزل تک پہنچتا اور واردات کرکے نیچے اترتا۔گوہ سندھ اور ملیر ،گڈاپ کے دیہی علاقوںمیں اکثر سڑکوں پر مٹرگشت کرتے اورگاڑیوں کا رستہ روکتے نظرآتے ہیں۔ یہ خبر بھی موقر اخبار کے بیک پیج پر چھپی۔ دوسرے دن پریس کلب میں ان دو خبروں کی انفرادیت اور نرالے پن پر صحافیوں میں دلچسپ  گپ شپ ہوئی۔

ایک دن کافی مزیدار خبر شائع ہوئی۔ خبرکورنگی میں پانی کی شدید قلت کے بارے میں تھی، رپورٹر نے اپنی خبر میں لکھا کہ پانی حاصل کرنے کے لیے سرکاری نلکوں پر مار پیٹ ہوئی، لوگ ایک دوسرے کو بھنبھوڑنے لگے۔ یہ خبر بھنبھوڑنے کے حوالہ سے خوب ڈسکس ہوئی، شام کو جب رپورٹنگ روم سجنے لگا تو سینئر صحافی قطب الدین احمد نے بھنبھوڑ فیم رپورٹر سے کہا ’’ کیا بات ہے بھائی یوسف! آج آپ نے ہم سب کو بھنبھوڑ کر رکھ دیا۔ ہم نے اس سے پہلے صرف کتوں کو ایک دوسرے کو بھنبھوڑتے دیکھا تھا۔ ‘‘

میں نے اپنے کیرئیر میں بلند قامت رپورٹرزکو اپنی بیٹ پرکام کرتے دیکھا ہے ، وہ ایکسکلیوسیو خبریں دیتے تھے، لیکن ان کی خبر حقائق کا طلسم ہوتی تھی، اتنی جامع خبریں دینے والے بزرگ صحافیوں اور ان کے بعد نوجوان رپورٹرز کے  ناموں کی لمبی فہرست ہے۔ گفتگو ختم کرنے سے پہلے عباس ناصر اور حسن مجتبیٰ کا ذکر کروں۔ وہ ہیرالڈ جریدہ کے لیے طرہ امتیاز ، ڈائمنڈ تھے۔ حسن مجتبیٰ امریکا سدھار گئے، عباس ناصر نے ڈان اخبار کی ادارت سنبھال لی تھی ۔اب کالم لکھتے ہیں۔

1991 کے دن تھے۔ میں روزنامہ پاکستان سے وابستہ تھا۔ جام صادق کی حکمرانی تھی۔ ایک دن میں ، عباس ناصر اور چند رپورٹرز بے نظیر بھٹو سے گفتگو ختم کرچکے تھے ، بینظیر بس کار میں بیٹھ کر جانے ہی والی تھیں کہ عباس ناصر نے انھیں’’بی بی  ایک منٹ ‘‘ کا کہہ کرروک لیا اور آگے بڑھ کر پوچھا ۔’’آپ نے وینا کی بات کی ۔ کوئی خبر ہے؟ بس اتنا کہنا تھا کہ بے نظیر نے اس دن وینا حیات کی سب سے بڑی خبر دے دی اور رخصت ہوتے ہوئے کہنے لگیں ’’میں اسی کی طرف جارہی ہوں،

to her something terrible has happened

سردار شوکت حیات  سے ملوں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔