اس دنیا میں سب چور چور

طارق محمود میاں  بدھ 28 اگست 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

بڑے بڑے چور، گرہ کٹ، فراڈیے، ڈاکو، سازشیے، گھپلے باز، لٹیرے، لوٹ ماریے، رشوت خور، بھتہ خور، کمیشن خور، ذخیرہ اندوز، کک بیکیے، بلیکیے، ملاوٹیے اور دو نمبریے۔۔۔۔یہ سب تو اب بے چارے مظلوم دکھائی دیتے ہیں کہ ہر کوئی ان کے پیچھے پڑا ہے۔ ہر وقت سر عام نشانے پر وہی ہیں۔ جس کے پاس جتنا زیادہ مال ہے وہ اتنا ہی قابل رحم ہے کہ اپنے ہی نہیں دوسروں کے جرائم بھی اس کی کلغی میں سجائے جاتے ہیں۔ ہر کوئی ان کی زبانی جوتا کاری میں مصروف ہے۔ یہ جوتے کم ہو جائیں تو قلم کو لاٹھی بنا لیتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ کام میں بھی کر لیتا ہوں کیونکہ ہاتھی جیسا جسم اور ٹرک جیسی چوری ہر ایک کو دکھائی دے جاتی ہے۔ حالانکہ اس فن میں ماہر اور بھی بہت سے ہیں۔

کوئی چوری کرے خزانے کی

کوئی آنے یا دو آنے کی

کوئی چھوٹا چور کوئی بڑا چور

اس دنیا میں سب چور چور

لتا منگیشکر کے ’’ارشادات‘‘ پر غور کرتا ہوں تو آج بہت معنی خیز دکھائی دیتے ہیں۔ چھوٹا چور دکھائی اس لیے نہیں دیتا کہ یا تو ان کی افراط بہت ہے اور ہم عادی ہو گئے ہیں یا پھر وہ ہم خود ہیں۔

میرے دفتر میں کچھ اخبارات کا چھ ماہ کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ پھر اسے ردی میں دے دیتے ہیں۔ میں ایک روز کمرے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ردی خریدنے والا فرش پر بیٹھا ہے۔ وہ تکڑی کے ایک پلے میں اخبار کا کوئی دس کلو کا ڈھیر بلند سے بلند تر کیے جا رہا تھا اور دوسرے پلڑے میں شاید دو کلو کا باٹ پڑا تھا۔ میں نے دیکھا تو اپنے آدمیوں سے کہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے، ذرا ہوش میں رہ کے وزن کراؤ۔ انھوں نے چیک کیا تو معلوم ہوا کہ ردی والے نے باٹ والے پلڑے کے کنارے میں سوراخ کر کے ایک باریک سی ٹرانسپیرنٹ تار باندھی ہوئی تھی اور اس کے دوسرے سرے پر اپنا پاؤں رکھا ہوا تھا۔ اب اس کی مرضی تھی کہ وہ جب چاہے اور جتنے وزن پر چاہے اسے چھوڑے۔

گزشتہ دنوں کلفٹن کے ایک بڑے شاپنگ مال میں کچھ نوجوانوں نے ایک روز کے لیے جگہ کرایے پر لی تا کہ وہاں اپنے ڈیزائن کیے ہوئے ملبوسات کی نمائش کریں۔ شہر کے ایک مشہور ادارے سے تربیت یافتہ ان لڑکے اور لڑکیوں نے بہت محنت سے اور اپنے پلے سے پیسے لگا کے خاصے مہنگے مہنگے لباس تیار کیے تھے۔ ان میں شادی کے جوڑے بھی تھے۔ اس ایک روزہ ڈسپلے میں ان بے چاروں نے آرڈر تو کیا حاصل کرنا تھے رات کو جب سامان پیک کر کے واپس لائے تو معلوم ہوا کہ تین قیمتی جوڑے چوری ہو چکے تھے۔

نوسر باز دکانداروں سے آپ کا بھی واسطہ پڑتا ہو گا۔ ایسے ایسے شعبدے دکھاتے ہیں کہ اسٹیج پر کھڑے ہو جائیں تو جادوگر کہلائیں۔ دفتر سے واپسی پر میں نے ایک ریڑھی پر بہت نفیس قسم کے آم دیکھے تو رک گیا۔ میں نے کہا میں تمہیں تمہارے دام پورے دوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ ایک ایک دانہ میں خود چیک کر کے لوں گا۔ وہ مان گیا۔ میں نے بہت اطمینان سے ایک ایک آم کو پرکھا۔ اس پر ہاتھ پھیر کے نرمی اور سختی کا اندازہ کیا۔ رنگت دیکھی۔ داغ چیک کیے۔ یہاں تک کہ اوپر لگے ہوئے اسٹیکر کو بھی اتار کے دیکھا کہ نیچے سوراخ تو نہیں۔ پھر کہا ’’تول دو‘‘۔ اس نے دو ایک فالتو آم نکالے، پاسنگ برابر کیا اور تھیلا میرے حوالے کر دیا۔ گھر گیا تو تھوڑی ہی دیر کے بعد اہلیہ نے بڑے فاتحانہ انداز میں تین آم میرے سامنے پٹخے اور بولیں ’’آپ بھی بس۔۔۔۔‘‘ تینوں آم نیچے سے پلپلے تھے اور ان کے منہ پر دو انچ قطر کا سیاہ دائرہ تھا۔ میں بہت دیر تک غور کرتا رہا کہ غلطی کہاں ہوئی۔ پھر یہی بات سمجھ میں آئی کہ گلے ہوئے آم دکاندار نے پہلے سے تھیلے میں ڈال کے رکھے ہوئے تھے۔

ان دکانداروں سے چالاک لوگ کیسے ہاتھ کرتے ہیں، آئیے اس کا ذکر بھی سن لیجیے۔ آج کل جمعے کی نماز کے بعد ہر مسجد کے باہر ایک مختصر سا بازار سجتا ہے جس میں سبزی، پھل اور کچھ دیگر اشیاء کی ریڑھیاں آ کے کھڑی ہو جاتی ہیں۔ اس بازار کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کوئی اپنا وقت ضایع نہیں کرتا۔ سبھی کو جلدی ہوتی ہے۔ نمازیوں کو گھر اور کام پر جانے کی اور ریڑھی والوں کو چند منٹ کے بعد جمعہ پڑھانے والی کسی اور مسجد تک پہنچنے کی جلدی۔ فٹافٹ سودے ہوتے ہیں۔ ایک روز میں نے دیکھا کہ ایک بزرگ سبزی سے بھرے ہوئے تھیلے ہاتھ میں لٹکائے ریڑھی والے سے باقی پیسے طلب کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے پانچ سو کا نوٹ دیا ہے اور ریڑھی والا کہتا تھا کہ آپ نے کوئی نوٹ نہیں دیا۔ وہ کنفیوژڈ سا تھا۔ دوسرے گاہکوں کا بھی رش تھا اور وہ شور مچا رہے تھے۔ تنگ آ کر اس نے کچھ مڑے تڑے نوٹ ان بزرگ کی ہتھیلی پر رکھ کے جان چھڑائی۔ تبھی ایک محلے دار نے مجھے کان میں بتایا کہ یہ بزرگ ہر جمعے کو اسی طرح بغیر نوٹ دیے کسی نہ کسی سے سبزی بھی لے جاتے ہیں اور پیسے بھی۔ اور کوئی انھیں ٹوک کے تو دیکھے۔ نانی یاد آ جائے گی۔

اسی طرح اسی جگہ پر ایک روز ایک اور صاحب بھی پکڑے گئے۔ ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ ہر ریڑھی پر مال تلوا کے تھیلا اس کے پاس ہی چھوڑ جاتے تھے کہ ابھی دوسری جگہ سے آ کے اٹھا لیتا ہوں۔ پیسے کہیں بھی نہیں دیتے تھے۔ پھر تیزی سے تھیلے اٹھانا شروع کر دیتے کہ پیسے تو پہلے سے دیے ہوئے ہیں۔

اب ایک ذرا نسبتاً بڑے کاروبار کا ذکر۔ میرے ایک جاننے والے پیکڈ اور فروزن فوڈ کا کام کرتے ہیں۔ انھیں معلوم ہوا کہ آج کل فرائیڈ پیاز کا کاروبار زوروں پر ہے۔ لوکل بھی اور ایکسپورٹ بھی۔ مشینری بھی زیادہ قیمتی نہیں ہے اور دس پندرہ لاکھ میں پورا پلانٹ لگ جاتا ہے۔ انھوں نے بھی لگا لیا۔ اچھی شہرت کی وجہ سے انھیں ایک مشہور فوڈ کمپنی کی طرف سے سپلائی کا آرڈر بھی مل گیا۔ بس پھر سیکڑوں بوریاں پیاز روز کٹنے اور تیل میں فرائی ہونے لگا۔ وہ اسے خشک کر کے پیک کرتے اور آگے سپلائی کر دیتے۔ کچھ دنوں کے بعد جب انھوں نے حساب کیا تو معلوم ہوا کہ بہت نقصان ہو رہا ہے حالانکہ انھیں جو ریٹ مل رہا تھا وہ مارکیٹ کا بہترین ریٹ تھا اور اس سے زیادہ پر مال بک ہی نہیں سکتا تھا۔ مارکیٹ میں ٹنوں کے حساب سے کام ہو رہا تھا اور سب کے دام ان سے کم تھے۔ انھوں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اصلی فرق تیل کے دام کا ہے۔ باقی لوگ پیاز کو فرائی کرنے کے لیے جو تیل استعمال کر رہے تھے وہ انتہائی سستا تھا۔ وہ تیل جو یورپی ممالک سے صابن بنانے کے لیے امپورٹ ہوتا ہے۔ مضر صحت اور زہریلا تیل۔ اس میں پیاز بھون بھون کے بازار میں سپلائی ہو رہا ہے اور لوگ حلیم پر ڈال کے نوش جان کر رہے ہیں۔

آپ نے دیکھا میں نے کس مہارت سے کتنوں کو چور ثابت کر دیا ہے۔ کیا باقی ہم سب سعد ہیں؟ شاید نہیں۔ یہ ایک ایسا بدبخت ہجوم ہے جو خود کو پارسا کہتا اور سمجھتا ہے لیکن اس کی بکل میں چور چھپا ہے۔ بکل میں بھی چور ہے، بغل میں بھی چور اور دل میں بھی چور۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔