لارڈ احمد آف پاکستان

غلام محی الدین  پير 9 ستمبر 2013
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

ہماری بی اے کی انگریزی کی کتاب میں ایک کہانی ہوا کرتی تھی جس کا عنوان تھا Shooting an elephant یہ کہانی نو آبادیاتی دور میں برما کے علاقے میں سب ڈویژنل پولیس آفیسر کے طور پر تعینات انگریزی مصنف جارج اور ویل کے ذاتی تجربے کا احوال ہے۔ جارج اور ویل کی ذمے داری کے علاقے مولمین (Moalmein) میں ایک ہاتھی پر پاگل پن کا دورہ پڑتا ہے اور اپنی زنجیر تڑوا کر بازار میں نکل آتا ہے۔ بازار میں بھگدڑ مچ جاتی ہے۔

ہاتھی اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو روندتا ہوا بھاگتا چلا جاتا ہے۔ ہزاروں مقامی لوگ ہاتھی کے ارد گرد بھاگے چلے جا رہے ہیں لیکن کوئی اسے روکنے یا معاملے کو سنبھالنے کی سبیل نہیں کرتا۔ ہر کوئی یہی سوچ رہا ہے کہ گورا صاحب بہادر ہی آ کر اس مشکل پر قابو پائے گا۔ یہ سوچ اور خواہش دراصل اس محکوم سوچ کی عکاسی کرتی ہے جو نوآبادیاتی نظام کے تسلسل کے نتیجے میں مقامی عوام الناس کے ذہن کا لازمہ بن جاتی ہے۔ جارج اورویل کہتا ہے۔ ’’مقامی لوگ مجھ سے شدید نفرت کرتے ہیں لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ انگریزوں کے خلاف بغاوت کر دے۔

یہ لوگ اپنی نفرت کا اظہار بازار میں چلتی کسی اکیلی انگریز خاتون کے کپڑوں پر پان کی پیک پھینک کرکرتے ہیں۔ وہ صرف اسی صورت میں اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں جب انھیں اس بات کا یقین ہو کہ انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ مثال کے طور پر فٹ بال کھیلتے ہوئے ایک مُنحنی سے برمی نے میری ٹانگوں میں ٹانگ پھنسا کر مجھے گرا دیا۔ جب میں نے اس فاؤل کے لیے ریفری کی طرف دیکھا ’جو خود بھی ایک برمی تھا‘ تو اس نے بے دھیانی سے دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ مقامی برمی نوجوان اپنے زدر مدقوق چہروں کے ساتھ مجھے گھورتے ہیں اور صرف اسی صورت میں مجھ پر آواز کستے ہیں جب وہ مجھ سے ایک محفوظ فاصلے پر ہوں۔

جارج اور ویل کہتا ہے کہ ہاتھی کا پاگل ہو کر بازار میں بھاگ نکلنا وہ واحد واقعہ تھا جب میں نے محسوس کیا کہ میں مقامی لوگوں کے لیے اہمیت رکھتا ہوں۔ خیر پھر واقعات کچھ ایسا رخ اختیار کرتے ہیں کہ ہاتھی تباہی مچاتا ہوا کھیتوں کی طرف نکل جاتا ہے اور صاحب بہادر بھی اپنی بندوق لیے ہاتھی کے پیچھے پہنچ جاتے ہیں۔ مصنف یہ محسوس کرتا ہے کہ وقتی طور پر ہاتھی پر پاگل پن یا مستی کا جو دور آیا تھا وہ گزر چکا ہے اور وہ کھلی جگہ پر پہنچ کر بالکل پُر سکون ہو چکا ہے لیکن اس کے پیچھے جو ہزاروں مقامی لوگوں کا مجمع جمع ہو چکا ہے وہ یہ چاہتا ہے کہ صاحب بہادر ہاتھی کا خاتمہ کر دے۔

اور ویل ہاتھی کو اس حالت میں ہلاک کرنے کے حق میں نہیں لیکن ایک نو آبادیاتی افسر ہونے کے ناطے اسے ہر گز یہ تاثر نہیں دینا کہ وہ خوفزدہ ہے کیونکہ اس سے نوآبادیاتی شان و شوکت داغ دار ہوتی ہے۔ لہذا اسے نا چاہتے ہوئے بھی ہاتھی کو ہلاک کرنا پڑتا ہے۔ یہ کہانی نو آبادیاتی دور کے تناظر میں حاکم اور محکوم کی ذہنی کشمکش کی کمال عکاسی کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی نفرت کی یہی نفسیات پروان چڑھی۔

دو روز قبل لاہور کے مقامی ہوٹل میں برطانوی دارالامراء کے پہلے مسلمان رکن لارڈ نذیر احمد آف رادھرم کی دارالامراء میں کی گئی تقاریر اور سوالات کے ریکارڈ پر مبنی کتاب ’’صداقت کی گونج‘‘ کی تقریب رونمائی کے موقع پر مجھے برسوں پہلے کلاس روم میں پڑھی یہ کہانی یاد آ رہی تھی۔ میں اس تقریب میں اس لیے موجود تھا کہ اس کتاب کے انگریزی مواد کو میں نے ہی اردو کے قالب میں ڈھالا تھا۔ اس انگریزی مسودے کو ترجمہ کرنے سے پہلے میرے لیے بھی لارڈ نذیر احمد کا یہ امتیاز پاکستان کے لیے ایک قابل فخر اعزاز تو تھا لیکن میں ان کے خیالات اور کردار سے واقف نہیں تھا۔ شاید میرے ذہن کے کسی گوشے میں ہمارے ہاں پائے جانے والے اس عام تاثر کی پرچھائیں بھی موجود تھی کہ برطانوی لوگ صرف انھی غیر ملکیوں، بالخصوص مسلمانوں کو کسی اعزاز سے سرفراز کرتے ہیں جو ان کی ہر ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ جو ان کے تصورات‘ ان کے فلسفہ حیات اور دوسرے ملکوں سے معاملہ کرنے کے لیے انھی کے اصولوں پر آنکھیں بند کر کے عمل کرتے ہیں۔

لیکن جوں جوں میں اس مسودے کو پڑھتا چلا گیا مجھ پر یہ بات آشکار ہوتی گئی کہ لارڈ نذیرکے معاملے میں صورتحال بالکل برعکس ہے۔ اوپر بیان کیا گیا استدلال اسی طرح بے بنیاد ہے جس طرح آج بھی قائداعظم پر اُنگلی اٹھانے والے انھیں اس دلیل کے ذریعے انگریزوں کا ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قائداعظم اپنی پوری سیاسی جدوجہدکے دوران ایک مرتبہ بھی جیل نہیں گئے۔ دراصل قائداعظم اپنے جذبات کا اظہار کسی پر پان کی پیک پھینک کر‘ کسی پر تضحیک آمیز آوازے کس کر یا گالی دے کر کرنے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

انھوں نے ہمیشہ اپنے موقف کی عمارت محکم استدلال‘ قانونی نقاط‘ اخلاقی اصولوں اور معروف منطق پر کھڑی کی اور جب آپ کے موقف کو ان چیزوں کی قوت حاصل ہو تو اسے ہٹ دھرمی سے رد تو کیا جا سکتا ہے، اس کی حقانیت سے انکار ممکن نہیں ہوتا۔ عالمی سطح پر امتیازی رویوں کے خلاف لارڈ نذیر کی جدوجہد مثالی ہے۔ اس کتاب کے ذریعے برطانوی دارالامراء میں ان کے جرات مندانہ کردار کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہاں میں ان کی ایک تقریر سے چند اقتباسات پیش کر رہا ہوں جو انھوں نے 2000 میں ’دہشت گردی بل‘ متعارف کرائے جانے کے موقع پر کی تھی۔

٭’’میں کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتا ہوں۔ بہت سے اراکین پارلیمنٹ اور لارڈز چندہ اکٹھا کرنے کے لیے منعقدہ تقاریب میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی خلاف تقاریر کرتے ہیں۔ اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو مستقبل میں جب میں کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کروں گا اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد کی بات کروں گا‘ تو کیا میں قانون توڑ رہا ہوں گا‘‘ ؟

٭’’دہشت گردی کی تعریف کی تشریح ضروری ہے۔ ایک شخص کے لیے جو ’’دہشت گرد‘‘ ہے، کسی دوسرے کے لیے حریت پسند ہو سکتا ہے۔ اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ حقیقی تحریک آزادی کے عناصر ترکیبی کیا ہوں گے؟ کیااس بات کا فیصلہ کسی ملک کے ساتھ کاروباری تعلقات یا اس کے حکمرانوں کے ساتھ خصوصی تعلقات کی بنا پر کیا جائے گا؟

٭’’برطانیہ میں آباد کشمیری پہلے ہی محسوس کرتے ہیں کہ بھارت سے تجارتی مفادات کی خاطر ان کی آوازوں کو خاموش کر دیا گیا ہے‘‘۔

لارڈ نذیر کی زندگی مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے۔ بالکل معمولی حیثیت سے آغاز کر کے انھوں نے اعلیٰ مقام حاصل کیا لیکن اس مقام کے حصول سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ انھوں نے اس مرتبے کو اپنے دماغ میں نہیں گُھسنے دیا۔ مقبوضہ کشمیر‘ فلسطین‘ بوسنیا‘ کوسوو اور دہشت گردی کی جنگ کے بارے میں انھوں نے جس دیانت داری کے ساتھ حق کے لیے آواز اٹھائی ویسا رویہ اختیار کرنے کی توفیق پاکستان سمیت اہم مسلمان ملکوں کے سربراہوں کو بھی نہیں ہو سکی۔

بے شک ایسے لوگوں کی زندگی ہمارے لیے مثال کا درجہ رکھتی ہے۔ اس سے اُمید کی شمع روشن ہوتی ہے‘ اندھیروں سے چھٹکارہ پانے کا یقین پیدا ہوتا‘ اپنے لیے خود راستہ ہموار کر لینے کی ہمت جنم لیتی ہے۔ برطانیہ کے دارالامراء کے ارکان لارڈز کے نام کے ساتھ ان کے علاقے کا نام منسلک کرنے کی روایت ہے‘ جیسے لارڈ نذیر احمدکو لارڈ احمد آف رادھرم کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن میں انھیں لارڈ احمد آف پاکستان لکھوں تو بھی غلط نہیں ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔