حکومت نے زرداری کے بیرون ملک جانے پر پابندی کی مخالف کر دی

نمائندہ ایکسپریس  بدھ 11 ستمبر 2013
لاء ڈویژن کے جواب میں درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کرنے کی استدعا، ڈپٹی اٹارنی جنرل کی عدم موجودگی پرسماعت ملتوی فوٹو : فائل

لاء ڈویژن کے جواب میں درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کرنے کی استدعا، ڈپٹی اٹارنی جنرل کی عدم موجودگی پرسماعت ملتوی فوٹو : فائل

اسلام آ باد:  وفاقی حکومت نے سابق صدرآصف علی زرداری کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائدکرنے کیلیے دائر درخواست جرمانہ لگا کر خارج کرنیکی استدعا کی ہے۔

جسٹس خلجی عارف حسین کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے مقدمے کی سماعت متعلقہ ڈپٹی اٹارنی جنرل کی عدم موجودگی کے باعث ایک ہفتے کیلیے ملتوی کر دی۔درخواست گزار شاہداورکزئی نے سابق صدرکو بیرون ملک جانے سے روکنے کیلیے دائردرخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ آصف علی زرداری کو اسامہ بن لادن کیخلاف ایبٹ آباد میں ہونے والے امریکی آپریشن کا علم تھا تاہم انھوں نے یہ بات مسلح افواج سے چھپائی۔ عدالت ایبٹ آبادکمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کو ہدایت کرے کہ وہ آصف زرداری سے تفتیش کریں۔

وفاقی حکومت کے جواب میں کہا گیا کہ درخواست گزارکے خدشات حقائق کے منافی اورگزارشات ناقابل عمل ہیں، عدالت ان کی درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کردے ۔وفاقی حکومت نے جواب میں موقف اپنایا کہ صدرکو ملک کے داخلی اور خارجی معاملات سے آگاہ کرنا وزیراعظم کی آئینی ذمے داری ہے،درخواست گزارکے مطابق اگر ایوان صدر میں کوئی انکوائری ہوئی ہے تو اس سے نہ تو آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور نہ ہی اس سے درخواست گزارکا کوئی حق مجروح ہوا ہے،چونکہ صدر ریاست کے سربراہ ہیں ، اس لیے ایوان صدر میں کوئی بھی میٹنگ آئین کے عین مطابق ہے۔

این این آئی کے مطابق لا ڈویژن نے جواب جمع کرایا جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل46کے تحت وزیر اعظم اندرونی معاملات، خارجہ پالیسی اور قانون سازی سے متعلق معاملات پر صدرکو آگاہ کرنے کے پابند ہیں ، ایوان صدر میں ہونے والی ملاقات میں صدرکی موجودگی کو آئین کے تناظر میں دیکھا جائے۔ نجی ٹی وی کے مطابق جواب میں کہا گیا کہ ایبٹ آباد آپریشن میں درخواست گزارکا کوئی حق متاثر نہیں ہوا، درخواست گزارکا آپریشن سے کوئی تعلق ہے نہ وہ فریق ہے تاہم میمو کیس میں جو انکوائری ایوان صدر میں ہوئی وہ قانون کے مطابق تھی، اس معاملے میںکسی بھی آئینی شق کی خلاف ورزی نہیںکی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔