مسئلہ کشمیر کا فوری حل: چور کو پکڑ کر چھترول کی جائے!

میاں عمران احمد  منگل 6 اگست 2019
بھارت نے کشمیریوں پر انسانیت سوز تشدد کے بعد اب کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کردی ہے۔ (فوٹو: فائل)

بھارت نے کشمیریوں پر انسانیت سوز تشدد کے بعد اب کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کردی ہے۔ (فوٹو: فائل)

چوری ہوجانے کے بعد چور کو فوراً پکڑ کر چھترول کرنا اور اپنا سامان برآمد کروانا، تھانے میں ایف آئی آر درج کروانے سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ پاکستان کی شہ رگ پر چوری ہوچکی ہے۔ اب شور مچانے اور ایف آئی آر درج کروانے سے بہتر ہے کہ چور کو پکڑا جائے، چھترول کی جائے اور اپنے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔

لیکن بھارت کی جانب سے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے فیصلے کے بعد پاکستان چور پر حملہ کرکے نقصان کا ازالہ کرنے کے بجائے پوری دنیا میں بھارت کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جو بھارت کو صرف بیانات کی حد تک شرمندہ کرنے کا باعث بنے گا۔ پاکستان اگر یہ معاملہ بین الاقوامی عدالت میں لے جاتا ہے اور عدالت ہندوستان کے خلاف فیصلہ دے بھی دیتی ہے، تو ہندوستان اس پر عمل نہیں کرے گا، کیونکہ ہندوستان نے کشمیر کے معاملے پر آج تک اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کیا تو عالمی عدالت کے فیصلے پر کیسے عمل کرے گا۔ لمحہ فکریہ ہے کہ نہ تو اقوام متحدہ آج تک بھارت کا کچھ بگاڑ سکا ہے اور نہ ہی دیگر عالمی ادارے کچھ کرسکے ہیں۔

یہ خبر بھی پڑھئے: کشمیر سے متعلق بھارتی اقدام پر پاکستان نے اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا

ایک خیال یہ ہے کہ ہندوستان نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑا مارا ہے۔ جو معاملہ صرف دو ممالک کے مابین تھا وہ آج پوری دنیا کے درمیان ہے۔ بھارت نے صرف اس حد تک تو پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے کہ دنیا ہندوستان کو برا بھلا کہے گی، غیر جمہوری ہونے کا طعنہ دے گی، انسانی حقوق کی تنظیمیں ہندوستان کے خلاف مورچہ نکالیں گی، مہذب دنیا میں نریندر مودی کےخلاف احتجاج ہوں گے اور او آئی سے کے اجلاس میں ہندوستان کو برا بھلا کہہ کر قرارداد منظور کرلی جائے گی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے ہندوستان کی صحت پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا ہندوستان ان اقدامات سے دباؤ میں آجائے گا؟ کیا ہندوستان آرٹیکل 370 کے خاتمے کا فیصلہ واپس لے گا؟ کیا ہندوستان اپنی دھونس جمانے سے باز آجائے گا؟

یہ خبر بھی پڑھئے: بھارت کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم اور 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان

میری رائے کے مطابق ان اقدامات سے ہندوستان کے عمل پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ ماضی قریب میں جو فلسطین کے ساتھ ہوا، اس پر پوری دنیا کا سرد رویہ سب کے سامنے ہے۔ حتیٰ کہ جب امریکا نے اپنا قونصل خانہ یروشلم منتقل کیا تھا، تب بھی ماہرین کا خیال تھا کہ ایک کہرام مچ جائے گا، مسلم دنیا اٹھ کھڑی ہوگی، امریکا کے اس فیصلے کو پوری دنیا رد کردے گی۔ لیکن سب نے دیکھا کہ کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ روایتی مذمتی بیان دیئے گئے اور گونگلوں پر سے مٹی جھاڑ دی گئی۔ اس میں او آئی سی کا کردار سب سے زیادہ کمزور رہا۔ بھارت نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے فلسطین کے معاملے کا بغور جائزہ ضرور لیا ہوگا۔ فلسطین کے معاملے پر پوری دنیا کی خاموشی نے بھارت کی ہمت بڑھائی ہے۔ ماضی میں دنیا کے کتنے ممالک کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں؟ یہ دنیا بھی جانتی ہے اور بھارت بھی اس سے بخوبی واقف ہے۔ لہٰذا ہندوستان کا اپنا فیصلہ واپس لینا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔

یہ بلاگ بھی پڑھئے: آرٹیکل 35 اے اور بھارتی سازش

بھارت آرٹیکل 370 کو صرف اس صورت میں واپس لے سکتا ہے جب کشمیر کے اندر سے ایسا ردعمل سامنے آئے جو براعظم ایشیا کے سکون کو غارت کردے۔ کشمیر کے اندر بھارت کے خلاف ایسی آگ لگے جو بجھانے سے مزید بھڑکنے لگے۔ بھارتی فوج کے ساتھ ایسی قیامت برپا ہو جو دنیا کو ہلا کر رکھ دے۔ کشمیر کے اندر سے ایسی مزاحمت آئے کہ دنیا ماضی کی مزاحمتوں کو بھول جائے۔ یاد رکھیے کہ یہ مزاحمت پاکستان کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔

ہندوستان یہ فیصلہ واپس لینے پر اس وقت غور کرے گا جب پاکستان کشمیر میں دراندازی کرے، بارڈر پر حالات کشیدہ ہوں، پاکستان اور ہندوستان کی باقاعدہ جنگ شروع ہو اور اس روایتی جنگ کو ایٹمی جنگ میں بدلنے سے روکنے کےلیے امریکا، برطانیہ، روس اور چائنا سمیت تمام بڑی طاقتیں مداخلت کریں اور ہندوستان کو اپنا فیصلہ واپس لینے کےلیے مجبور کریں۔ اس کے علاوہ کوئی موثر حل نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

میاں عمران احمد

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔