- حکومت کو 15روز میں کلائمیٹ اتھارٹی کے قیام کا حکم
- تاجر دوست اسکیم کامیاب بنانے کیلیے اقدامات کیے جائیں، وزیر خزانہ
- ٹیکس کیسز کا التوا، اٹارنی جنرل آفس کی ایف بی آر کو تجاویز
- اپریل کے دوران ترسیلات زر کی مد میں 2.8 ارب ڈالر آئے
- سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کے لیے 5 سالہ پروگرام تیار
- آئی ایم ایف کا پاکستان سے پنشن پر ٹیکس کے نفاذ کا مطالبہ
- نماز میں خشوع و خضوع
- تربیت اطفال کے اہم راہ نما اصول و ضوابط
- بڑی عمر میں بال سفید ہونے کے عوامل
- ہائی بلڈ پریشر، وجوہات اور علاج
- متوازن غذا کی اہمیت اور حصول کے ذرائع
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کی سطح پر ای مارکنگ منصوبہ شروع نہیں ہوسکے گا
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کی سطح پر ای مارکنگ منصوبہ ایک بار پھر تعطل کا شکار
- دھمکیوں پر خاموش نہیں ہوں گے، جیل کیلیے بھی تیار ہیں، فضل الرحمان
- ورلڈ لیجنڈز کرکٹ لیگ، پاکستان اور بھارت کے کھلاڑی ایک مرتبہ پھر مدمقابل
- ٹی 20 ورلڈ کپ: سری لنکا نے اپنی ٹیم کا اعلان کردیا
- الشفا اسپتال سے ایک اور اجتماعی قبر دریافت، 49 ناقابل شناخت لاشیں برآمد
- بنگلہ دیش میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، آسمانی بجلی گرنے سے 74 ہلاکتیں
- اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ؛ پاکستان اور جاپان 11 مئی کو فائنل میں مدمقابل آئیں گے
- سانحہ نو مئی کے خلاف پنجاب اور سندھ اسمبلی میں قرارداد کثرت رائے سے منظور
کشمیر کے وارث
27 اگست 2019 کو جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و بربریت کا 22 واں دن تھا، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی کابینہ نے بھارت کی فضائی حدود کی بندش اور افغانستان سے تجارت کےلیے استعمال ہونے والے زمینی راستے بند کرنے پر غور کیا۔
یہ اس پاکستان کی مسئلہ کشمیر پر سنجیدگی کا عالم ہے، جو کشمیر کا وارث ہے۔ جس کے پرچم میں لپیٹ کر کشمیری بھارت کے ظلم کے نتیجے میں شہید ہونے اپنے عزیزوں کو دفن کرتے ہیں۔ وہ پاکستان جس کے وزیراعظم آئے روز دنیا کو کشمیر کی ابتر صورتحال پر متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کے وزیر خارجہ دنیا کو یہ بتا کر کہ بھارت کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کے نئے ریکارڈ قائم کررہا ہے، دباو ڈالنے کی اپیل کرتے ہیں۔ لیکن خود بھارت پر دباؤ ڈالنے کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک فضائی حدود کی بندش اور زمینی راستے بند کرنے پر صرف غور کیا ہے۔ ان سطور کی تحریر تک فیصلہ نہیں ہوا۔
غور طلب امر یہ ہے کہ جب مسئلہ کشمیر پر ہماری سنجیدگی کا یہ عالم ہے تو ہم دنیا کو کس منہ سے یہ درخواست کررہے ہیں کہ آپ کشمیر کی خاطر بھارت سے اپنے تعلقات کو خراب کرلیں۔ جب ہم کشمیر کی خاطر اپنے تجارتی مفاد چھوڑ نے کو تیار نہیں ہیں تو ہم کس طرح توقع کررہے ہیں کہ اسلامی دنیا بالخصوص عرب ممالک ہمارے کہنے پر بھارت سے اپنے تجارتی اور وسیع تر ملکی مفاد کو پس پشت ڈال کر کشمیر کاز پر ہمارے ساتھ کھڑے ہوجائیں گے۔ ایسا ممکن ہوبھی جاتا کہ اسلامی دنیا اپنے اربوں ڈالر کے ملکی مفاد کو چھوڑ کر ہماری کہنے پر کشمیر کی خاطر بھارت سے مقاطعہ کرلیتی، اگر ہم نے ماضی میں ایسا کیا ہوتا۔
پاک عرب تعلقات پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے 1990 میں سعودی عرب کی خواہش کے برعکس کویت پر سے عراق کا قبضہ چھڑانے کی مہم میں پوری طرح حصہ نہ ڈالا۔ یعنی آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ آج جس طرح ہم مودی کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے دوستی اور تعاون کو فروغ دینے میں ان کے کردار کے اعتراف میں دیے جانے والے ایوارڈ پر مایوس ہورہے ہیں، ایسے ہی عرب بھی اس وقت مایوس ہوئے ہوں گے۔
دوسرے موقع پر ہم نے وسیع تر ملکی مفاد میں یمن کی جنگ میں شمولیت سے معذرت کرکے ایک بار پھر عربوں کو مایوس کردیا۔ ایکسپو 20/20 کی ووٹنگ کے دوران بھی اس وقت کی حکومت نے ملکی مفاد میں عرب امارات کے بجائے ترکی کو ووٹ دے کر ایک بار پھر عربوں کو مایوس کیا، جبکہ بھارت نے عرب امارات کو ووٹ کیا۔ اور اب ایران کے خلاف نئی صف بندی میں بھی پاکستان کی شمولیت عربوں کی خواہش کے برعکس واجبی نظر آتی ہے۔
اور رہی بات پاکستان کی عربوں کےلیے خدمات کی، تو پاکستان نے عربوں کےلیے جو بھی خدمات سرانجام دیں، بروقت اس کا صلہ پایا۔ آخر میں میری ان دوستوں سے جو متحدہ عرب امارات کی جانب سے مودی کو ایوارڈ دئیے جانے پر گزشتہ کئی روز سے نوحہ کناں ہیں، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ آرڈر آف زید پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کو جنوری 2007 میں عطا کیا جاچکا ہے۔
اگر آپ کو سعودی عرب کی طرف سے مودی کو اعلیٰ ترین ایوارڈ دینے پر دکھ ہورہا تو یاد رکھیے سعودی آرڈر آف کنگ پاکستان اور سعودی عسکری تعلقات کے استحکام کے اعتراف چھ پاکستانی جرنیلوں کو دیا جاچکا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو بھی یہ ایوارڈ ملے، آپ بھی محنت کریں، کشکول توڑیں، نیچے والے ہاتھ کے بجائے اوپر والا ہاتھ بنیں۔ کھاؤ پوت کے بجائے کماؤ پوت بن کر دکھائیں، تو وہ وقت دور نہیں جب آپ کی ہاں میں دنیا کی ہاں ہوگی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔