انسانیت کی خدمت اور تذلیل

نسیم انجم  منگل 1 اکتوبر 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں قابل قدر لوگوں کی کمی نہیں ہے اپنی صلاحیت و لیاقت کے اعتبار سے ہمارے ملک کے باسی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ہر شعبے اور ہر ادارے میں باکمال لوگ موجود ہیں۔ پاکستان کی مایہ ناز صف اول کی شخصیت  عبدالقدیر خان کو ہی لے لیجیے جنہوں نے اپنی انتھک محنت، اعلیٰ ترین صلاحیتوں اور علم و تجربات کی بنا پر وہ کام کیا جس کی بنا پر رہتی دنیا تک ان کا نام تاریخ کے صفحات پر جگمگاتا رہے گا، ایٹمی دھماکا کرکے پاکستان کو ایٹمی طاقت بخشنا معمولی کام نہیں تھا، اور اس خاص دن کا نام سابقہ و موجودہ وزیر اعظم  نواز شریف نے لوگوں سے پوچھا تھا اور اس کار خیر میں ہم نے بھی حصہ لیا تھا اور ’’یوم تکبیر‘‘ نام تجویز ہو گیا تھا۔ ہم ہر سال یوم تکبیر جوش و خروش سے مناتے ہیں اور عبدالقدیر خان کو اس لازوال کارنامے کی بدولت یاد رکھتے ہیں اور ان کے شاندار مستقبل کے لیے دعا گو رہتے ہیں۔ اللہ ان کی حفاظت فرمائے (آمین)۔

پاکستان میں نامور ڈاکٹروں کی بھی کمی نہیں ہے جو محض ڈگریوں اور اپنے تجربات کی بدولت ہی عظیم نہیں، بلکہ اپنے کردار کی بدولت ان کا شمار دنیا کے اعلیٰ ترین ڈاکٹروں اور بلند کردار انسانوں میں ہوتا ہے ان ہی میں ڈاکٹر ادیب رضوی بھی شامل ہیں جو انسانیت کی خدمت بغیر کسی طمع و لالچ کے کر رہے ہیں۔

حال ہی میں ہم نے یہ خبر پڑھی کہ نیورو سرجن جناب پروفیسر ہاشم ستار نے گاما نائف تیکنیک سے یمنی مریض کا علاج کیا اور کامیابی حاصل کی، یمن سے پاکستان آ کر کراچی میں علاج کرانے والے محمد دماغی ٹیومر کے مرض میں مبتلا تھے، محمد کے دماغ میں 5 مختلف حجم کے ٹیومر تھے جس سے ان کی بینائی پر اثر پڑا تھا جدید ترین ریڈی ایشن مشین گاما نائف کے ذریعے ان کا علاج ان کے معالج نیورو سرجن پروفیسر ہاشم ستار نے کیا۔ دنیا بھر میں سب سے سستا علاج پاکستان میں تھا۔ دوسرے ممالک میں مہنگا ترین علاج محمد کی پہنچ سے دور تھا اسی وجہ سے پاکستان کو ترجیح دی گئی۔

کامیاب آپریشن کے بعد نیورو سرجن پروفیسر ہاشم ستار نے کہا کہ ملک میں ماہرین کی کمی نہیں ہے، حکومت شعبہ طب کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے عالمی آگہی مہم شروع کرے، انھوں نے مزید کہا کہ گاما نائف اسٹریو تکنیک کے ذریعے علاج کے دوران مریض کو بے ہوش کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے اور ریڈی ایشن (شعاعوں) کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے، ملک میں پہلی مرتبہ وہ بھی نجی شعبے میں جدید ترین گاما نائف مشین نصب کی گئی ہے جس سے مریض کے دماغی ٹیومر کو فوکس کر کے محفوظ ریڈی ایشن دی جاتی ہے، دماغی ٹیومر کو محفوظ ریڈی ایشن دینے کے لیے انتہائی محفوظ طریقہ استعمال کیا جاتا ہے تا کہ ریڈی ایشن سے دماغ کے دیگر سیل متاثر نہ ہوں۔ دوران سیشن (علاج) مریض گفتگو کر سکتا ہے۔ ایک سیشن کا دورانیہ 30 منٹ سے ڈیڑھ گھنٹے تک کا ہوتا ہے، گاما نائف مشین سے 3 ملی میٹر حجم کے ٹیومر کا محفوظ علاج کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر ادیب رضوی اور پروفیسر ہاشم ستار ہی کی طرح بے شمار معالج ایسے ہیں جو حقیقتاً انسانیت کی خدمت تن دہی سے کر رہے ہیں اور دین و دنیا میں اپنا اعلیٰ مقام بنا رہے ہیں، کئی اسپتال بھی ایسے ہیں جہاں معمولی سی فیس کے عوض معقول علاج کیا جاتا ہے ایک بڑے اسپتال کا نام میرے ذہن میں آ گیا ہے، نام ہے اس کا انڈس اسپتال جو کہ کورنگی میں واقع ہے، زیادہ تر اس اسپتال میں مزدور طبقہ علاج کے لیے جاتا ہے، لیکن بلا کسی تفریق کے یہاں کی انتظامیہ اور ڈاکٹر علاج و معالجہ کرتے ہیں۔ اس بات کی قید نہیں ہے کہ یہ اسپتال صرف غریبوں کا ہے جو بھی چاہے وہ علاج کروا سکتا ہے۔

ہمارے علم میں وہ خاندان بھی ہے جو بے حد غریب ہے، خواتین گھروں میں کام کاج کرتی ہیں اور مرد چوکیداری یا چنگچی چلاتے ہیں، اس خاندان کے کئی افراد گردے کی پتھری کے مرض میں مبتلا ہیں، انڈس اسپتال میں ان کا آپریشن، تمام ٹیسٹ مفت کیے جاتے ہیں، بس ان کے آنے جانے کا کرایہ اس کے علاوہ کسی قسم کا خرچ نہیں، ایک نہیں ہزاروں وہ لوگ جن کی آمدنی قلیل ہے علاج کے لیے انڈس اسپتال کا رخ کرتے ہیں، تمام امراض کا علاج بغیر فیس کے کیا جاتا ہے، ڈاکٹر اور سرجن بھی نہایت تجربہ کار ہیں۔ دیار غیر سے بھی ڈاکٹروں کی ٹیم آتی ہے اور مریضوں کا معائنہ کرتی ہے، مشورے دیتی ہے اور دوائیں تجویز کرتی ہے۔ گلشن اقبال میں واقع المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی کے اسپتال کی فیس بھی بے حد مناسب ہے۔ یہاں کی خاصیت یہ ہے کہ اکثر و بیشتر آنکھوں کے علاج کے لیے مفت میڈیکل کیمپ لگائے جاتے ہیں جہاں آپریشن کی فیس وصول نہیں کی جاتی ہے۔ بہت سے مریض استفادہ کرتے ہیں اور موتیا کے آپریشن ہوتے ہیں۔ مختلف جگہوں پر لوگوں کو آگاہی دینے کے لیے سیمینار کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ضرورت مند مریضوں کو دوائیں بھی فراہم کی جاتی ہیں، جس کی کوئی فیس نہیں ہوتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایسے بھی معالج ہمارے ملک میں موجود ہیں جو مریض کی کھال بے دردی سے کھینچ لیتے ہیں اور مریض کو شفا بھی نہیں ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں الرجی کی وجہ سے ہمیں بھی بہادر آباد کے ایک اسپتال میں ایک اسپیشلسٹ کو دکھانا پڑا۔ فیس تو ان کی بہت زیادہ نہیں تھی یعنی صرف 800 روپے لیکن ان کے اسٹور سے جو دوائیں خریدیں وہ تھیں 6 ہزار روپے سے زیادہ رقم کی۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبان اپنا ہی میڈیکل اسٹور بھی کھول لیتے ہیں اکثر کلینک اور اسپتالوں میں میڈیکل اسٹور دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اس طرح ڈاکٹروں اور مالکان کو ڈبل منافع حاصل ہوتا ہے ایک طرف مریض کی فیس زیادہ تو دوسری طرف دواؤں کی فروخت کے ذریعے منافع کماتے ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ان کی لکھی ہوئی دوائیں دوسرے اسٹورز پر آسانی سے نہیں ملتی ہیں یہ بھی فارما سوٹیکل کمپنیوں اور ڈاکٹرز کی ملی بھگت ہوتی ہے کچھ معالج خود ہی دوائیں، مرہم وغیرہ تیار کرواتے ہیں، لیکن سب ایسے نہیں ہیں بلکہ اپنے مریضوں سے بے حد مخلص ہیں علاج بھی کرتے ہیں اور سیمپل کے آئے ہوئے دواؤں کے پیکٹ بھی مریضوں کو بلا قیمت دیتے ہیں۔

پچھلے دنوں ہمارے ایک عزیز کا آپریشن ہوا ۔ ہم نے جو یہ منظر دیکھا وہ انسانیت کی تذلیل کرنے کے لیے کافی تھا۔ ہوا یوں کہ آپریشن سے پہلے آرتھو پیڈک سرجن اپنے دو باڈی گارڈز کے ساتھ مریض کے کمرے میں داخل ہوئے اور بولے اگر پیسوں کا انتظام کر لیا ہے تو فوراً دے دیں ورنہ آپریشن ڈیلے ہو جائے گا۔ چیک یا پے آرڈر کی شکل میں نہیں بلکہ کیش چاہیے، مریض نے اعتماد سے جواب دیا، جی ڈاکٹر صاحب! کیش کا انتظام کر لیا ہے، انھوں نے اپنی چرمی بیگ سے ڈیڑھ لاکھ کی رقم نکالی اور ڈاکٹر کے ہاتھوں میں تھما دی۔ سرجن صاحب نے کھڑے کھڑے رقم گنی۔ اس دوران محافظ اپنے اسلحے کی نمائش کرتے ہوئے مزید چوکنا ہو گئے۔ رقم گننے کے بعد آرتھو پیڈک سرجن کے چہرے پر مسکراہٹ لہرا گئی اور پھر نرمی سے بولے۔ بیرسٹر صاحب! اب آپ سے دو گھنٹے بعد آپریشن تھیٹر میں ہی ملاقات ہو گی۔ اور آپریشن واقعی کامیاب ہوا، ان کی شہرت کا حوالہ ہی ’’کامیابی‘‘ ہے۔

گردے فروخت کرنے کا بھی گھناؤنا کھیل جاری و ساری ہے۔ ہندوستان کے تو کئی گاؤں ایسے ہیں کہ وہاں کے مکین اپنے بدن میں ایک ایک گردہ رکھتے ہیں، غربت و افلاس، تنگدستی و قرض کی وجہ سے یہ لوگ اپنے گردے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ حال ہی میں پنجاب کے حوالے سے بھی ٹی وی پر اس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ مجبور و ضرورت مند اپنا ایک گردہ 50 ہزار کا فروخت کرتے ہیں اور گردوں کا بزنس کرنے والے ڈاکٹرز لاکھوں روپے کا بیچتے ہیں۔ یہ بات ڈاکٹر بھی جانتے ہیں اور گردے فروخت کرنے والے بھی کہ ایک گردے سے زندہ تو رہا جا سکتا ہے لیکن زیادہ محنت طلب کام نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جلد ہی تھکن کا احساس غالب آ جاتا ہے۔ اب تو ہمارے ملک میں لاشوں کا کاروبار بھی چمک اٹھا ہے۔ میڈیکل کالج و یونیورسٹی ایک ایک لاکھ سے دو لاکھ تک کی لاش فروخت کرتے ہیں اور پھر اس پر تجربات کیے جاتے ہیں۔

حالات اس قدر سنگین ہیں کہ میڈیکل کے طالب علموں کو چھپکلی اور مینڈکوں سے کہیں زیادہ لاشیں بڑی آسانی سے مل جاتی ہیں۔ محض تھوڑی سی رقم میں یا بالکل مفت جس ملک میں زندہ لوگوں کی قدر و قیمت نہیں ہے وہاں مُردوں کی کیا اہمیت؟ اکثر اوقات گورکن، ورنہ طالب علم بھی لاشوں کا بندوبست بڑی آسانی سے کر لیتے ہیں۔ ان حالات میں عذاب نہیں آئے گا تو کیا آئے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔