بچھڑا

ایس نئیر  بدھ 30 اکتوبر 2013
s_nayyar55@yahoo.com

[email protected]

زمیندار کا بیٹا چودہ برس کی عمر کو پہنچ چکا تھا، جب زمیندار کی گائے نے ایک خوبصورت بچھڑے کو جنم دیا۔ زمیندار کو ایک اچھوتا آئیڈیا سوجھا اس نے اپنے بیٹے کو حکم دیا ’’جب گائے کا بچھڑا چارا کھانا شروع کرے گا تو یہ تمہاری ذمے داری ہو گی کہ بچھڑے کو اپنے کاندھے پر سوار کر کے چھت پر لے جاؤ، وہاں اسے چارا کھلاؤ اور پھر اپنے کاندھے پر سوار کر کے اسے نیچے لا کر چھوڑ دو۔ صبح، شام دونوں وقت یہ بچھڑا اپنی خوراک چھت پر ہی کھائے گا اور دونوں وقت تم اسے اپنے کاندھے پر سوار کر کے سیڑھیوں کے ذریعے اوپر لے کر بھی جاؤ گے اور نیچے بھی تم ہی لاؤ گے۔ خبردار! اگر اس کام کے لیے تم نے کسی ملازم سے کوئی مدد لی تو تمہیں میری طرف سے سخت سزا ملے گی۔‘‘ نو عمر بیٹا باپ کا یہ عجیب و غریب حکم سن کر پریشان تو ضرور ہوا لیکن سر تسلیم کیے بغیر کوئی راستہ بھی نہ تھا۔ پھر یہ عمل معمول بن گیا۔ نو عمر زمیندار، عمر کے اس حصے میں تھا جو بڑھوتری کی عمر کہلاتی ہے۔

ہاتھ پیر، قد و قامت اور طاقت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ مسیں بھیگ رہی تھیں اور دوسری طرف گائے کا بچھڑا بھی بڑھوتری کی منزلیں طے کر رہا تھا۔ دونوں ’’بچوں‘‘ کے وزن میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا لیکن یہ عمل اتنے غیر محسوس انداز میں آگے بڑھ رہا تھا کہ زمیندار کے بیٹے کو اس کا مطلق احساس نہ ہوا کہ بچھڑے کا وزن تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ شروع کے چند ہفتوں میں اسے اپنے کاندھوں میں تھوڑی بہت تکلیف کا احساس ہوا جو بعد میں بالکل معدوم ہو گیا یہ ایسا ہی درد تھا ، جو کسی ایسے شخص کو محسوس ہوتا ہے، جو نئی نئی ورزش شروع کرتا ہے۔ لیکن بعد میں اس کا جسم اس مشقت کا عادی ہو جاتا ہے اور جسم کے پٹھے کھل جاتے ہیں۔ فقط ایک سال کے بعد ہی گاؤں کے لوگوں کو یہ منظر بڑا حیرت انگیز معلوم ہونے لگا کہ پندرہ سالہ نوجوان کتنی آسانی کے ساتھ ایک خاصے بھاری بھرکم بچھڑے کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر دوڑتا ہوا سیڑھیاں چڑھ جاتا ہے اور اس کی سانس تک نہیں پھولتی۔ گاؤں کے کئی منچلوں نے محض شوق میں آ کر یہی عمل دہرانے کی کوشش کی لیکن انھیں یہ مشقت بڑی بھاری لگی۔ کسی کا سانس پھول گیا تو کوئی آدھی سیڑھیوں تک ہی یہ فاصلہ طے کر سکا۔

کئی ایک نے تو یہ بھاری پتھر اٹھایا ضرور لیکن چوم کر واپس رکھ دیا لیکن نوجوان زمیندار کے لیے یہ مشقت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشقت نہ رہی بلکہ ایک دلچسپ کھیل بن گیا۔ ایک معمول بن گیا۔ اسے بچھڑے کا وزن محسوس ہی نہیں ہوتا تھا، جب کہ دوسرے لوگ بچھڑے کی جسامت دیکھ کر ہی خوفزدہ ہو جاتے اور نوجوان زمیندار کی صحت پر رشک کرتے۔ آپ کے خیال میں اس عجیب و غریب ورزش کے عمل کی کامیابی میں اصل اور بنیادی کردار کس کا تھا؟ نوجوان زمیندار کا؟ بچھڑے کا؟ یا پھر نوجوان زمیندار کے باپ کا؟ جی ہاں! اصل کردار نوجوان کے باپ کا ہی تھا جس نے یہ پلان ترتیب دیا تھا۔ اس کے خیال میں اگر ضرورت کے مطابق وسائل کو بڑھانے کی پالیسی کو معمول کا حصہ بنا لیا جائے تو کبھی وسائل کی کمی کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ وسائل اور ضروریات غیر محسوس انداز میں متوازن ہوتے چلے جاتے ہیں اور دونوں کی مانگیں ایک دوسرے کی کمی کو اس طرح پورا کر دیتی ہیں کہ کہیں پر بھی خلا محسوس نہیں ہوتا لیکن یہ سب کچھ سوچنے اور اس پر عمل کرنے یا کروانے کے لیے ایک ویژنری دماغ کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایک ایسی پلاننگ یا منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے جو مستقبل میں پیش آنے والی ضروریات کا ادراک رکھتے ہوئے وسائل کی فراہمی کا بندوبست کرے تا کہ وقت آنے پر وسائل کی قلت کا شکار ہونے سے بچا جا سکے اور ضروریات بھی پوری ہو سکیں۔ یہ صرف زمیندار، بچھڑے اور زمیندار کے بیٹے کی علامتی کہانی نہیں بلکہ فرد، خاندان، برادری، قبیلے اور قوموں کی زندگی اور مستقبل کا دارو مدار اسی پالیسی پر ہوتا ہے۔ جس قوم کو رہبری کے لیے ایسی ویژنری قیادت میسر آ جاتی ہے، وہ تاریخ میں زندہ رہتی ہے۔ خوشحالی، طمانیت اور آسائشات اس قوم کا مقدر بن جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں انگریز قوم نے دنیا کی تاریخ میں جو مثال قائم کی ہے، دنیا کی کوئی بھی دوسری قوم ابھی تک اس مثال کا جواب دینے سے قاصر رہی ہے۔ واضح رہے کہ موجودہ واحد سپر پاور امریکی قوم کا اصل خمیر بھی دراصل اسی گورے انگریز خون سے ہی گندھا ہوا ہے۔ انگریزوں نے دنیا پر جتنے عرصے بھی حکمرانی کی اور کر رہے ہیں، ان میں تین چیزیں بڑی اہم تھیں۔ ایک حب الوطنی۔دو۔ آنیوالے دور کے بارے میں بڑی باریک بینی کے ساتھ منصوبہ بندی کرنا۔

تین، فرد کی بجائے اداروں کو مستحکم کرنا۔ یہ تین صفات اس قوم میں ایسی رچ بس گئیں تھیں کہ صرف انھی صفات کے بل بوتے پر اس قوم نے دنیا کو زیر و زبر کر کے رکھ دیا۔ چند ہزار انگریز پورے برصغیر کے ڈیڑھ صدی تک سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔ انھوں نے مقامی لوگوں کو تو اپنوں سے غداری پر اکسایا لیکن کسی ایک گورے نے بھی اپنی قوم سے غداری کرنے کے بارے میں سوچا تک نہیں بلکہ صرف ایک انگریز ڈاکٹر نے ایک مغل بادشاہ کی بیٹی کے علاج کے عوض منہ مانگے انعام کی پیشکش کے باوجود بجائے اپنی ذات کے لیے کچھ مانگنے کے، اپنی قوم کے لیے تجارت کا پروانہ مانگا، جس نے آگے چل کر ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی۔ برصغیر میں انگریز کے بنائے ہوئے نہری نظام، ریلوے ٹریک اور سرکاری عمارتیں آج سو برس کے بعد بھی، بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی کے باوجود، ہماری ضرورتیں پوری کر رہی ہیں۔ ہم آج تک بادشاہوں اور سلطانوں کے زیر سایہ صدیوں تک رہنے کے باوجود فرد کی غلامی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے اور انھی کی اولاد کو بڑے فخر کے ساتھ حق حکمرانی سونپتے چلے آ رہے ہیں۔

انگریز نے اپنے طاقتور بادشاہ کو فقط علامت کا رنگ دے کر پارلیمنٹ یعنی عوام کو، عوام کی حکمرانی سونپ دی۔ ہماری سیاسی قیادتوں کی بصیرت کا عالم یہ ہے کہ آج کی تازہ ترین سرخیاں کچھ اس طرح کی خبریں سنا رہی ہیں۔ ’’سردیوں میں گیس کے پریشر میں مزید کمی کا اندیشہ ہے، سی این جی سیکٹر کو گیس کی فراہمی ناممکن ہو گی بلکہ صنعتی صارفین کے لیے بھی بڑی کٹوتی کرنا لازمی ہو گا‘ بجلی اٹھارہ روپے خرید کر نو روپے یونٹ فراہم نہیں کر سکتے، کراچی میں ٹارگٹڈ کلنگ 10 ہلاک، سبسڈی کلچر کا خاتمہ ضروری ہے‘ ’’دواؤں کی قیمتوں میں 18 سے 20 فیصد تک اضافہ ناگزیر ہو چکا ہے‘‘ ۔ ’’دسمبر تک آئی ایم ایف کی فرمائش پر 70 اشیاء کی قیمتوں پر جی ایس ٹی کا نفاذ کرنا ہوگا‘‘۔ وغیرہ کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں؟ ایک دلچسپ حقیقت بھی ساتھ ساتھ سن لیں کہ صرف ہمارے صوبہ سندھ کے وسائل جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک سے کئی گناہ زیادہ ہیں اور جاپان میں نہ بجلی کی کمی ہے، نہ گیس کی اور نہ ہی روزگار کی۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا جواب بڑا سیدھا ہے اور وہ یہ کہ ان قوموں کے کاندھوں پر ہلکا پھلکا بچھڑا اس وقت ہی رکھ دیا گیا تھا جب یہ قومیں ان کا وزن اٹھا سکتی تھیں اور آج ہمارے ناتواں کاندھوں پر جب پوری گائے لاد دی جاتی ہے تو ہماری ٹانگیں کیوں نہیں کانپیں گی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔