- پاکستان اور امریکا کا ٹی ٹی پی اور داعش خراسان سے مشترکہ طور پر نمٹنے کا عزم
- سینٹرل ایشین والی بال لیگ میں پاکستان کی مسلسل تیسری کامیابی
- نئے قرض پروگرام کیلیے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات شروع
- آئین معطل یا ختم کرنے والا کوئی بھی شخص سنگین غداری کا مرتکب ہے، عمر ایوب
- آئی سی سی نے پلیئر آف دی منتھ کا اعلان کردیا
- آزاد کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کا نوٹیفکیشن دیکھنے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان
- خواجہ آصف کا ایوب خان پر آرٹیکل 6 لگانے اور لاش پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ
- سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی ڈاکٹروں کیلئے خوشخبری
- پاک فوج کے شہدا اور غازی ہمارے قومی ہیرو ہیں، آرمی چیف
- جامعہ کراچی میں فلسطینی مسلمانوں سے اظہاریکجہتی کیلیے ’’دیوار یکجہتی‘‘ قائم
- نان فائلرز کی سمیں بلاک کرنے کیلیے حکومت اور ٹیلی کام کمپنیاں میں گروپ بنانے پر اتفاق
- 40 فیصد کینسر کے کیسز کا تعلق موٹاپے سے ہوتا ہے، تحقیق
- سیکیورٹی خدشات، اڈیالہ جیل میں تین روز تک قیدیوں سے ملاقات پر پابندی
- سندھ میں گندم کی پیداوار 42 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد رہی، وزیر خوراک
- انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گر گئی
- برازیل میں بارشوں اور سیلاب سے ہلاکتیں 143 ہوگئیں
- ہوائی جہاز میں سامان رکھنے کی جگہ پر مسافر خاتون نے اپنا بستر لگا لیا
- دانتوں کی دوبارہ نشونما کرنے والی دوا کی انسانوں پر آزمائش کا فیصلہ
- یوکرین کا روس پر میزائل حملہ؛ 13 ہلاک اور 31 زخمی
- الیکشن کمیشن کے پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن پر عائد اعتراضات کی تفصیلات سامنے آگئیں
بچوں کا پکنک پر جانے سے انکار، والدین وائی فائی راؤٹر ساتھ لے گئے
برسبین: پچھلے عشرے میں پروان چڑھنے والی نسل نے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ ہی کو اپنا سب کچھ سمجھ رکھا ہے۔ آسٹریلیا میں ایسے ہی بچوں نے اپنے والدین کے ساتھ پکنک پر جانے سے انکار کردیا، جس پر وہ ’’گھر کے سب سے مصروف فرد‘‘ یعنی وائی فائی راؤٹر کو آرام اور تفریح دینے کی غرض سے اپنے ساتھ پکنک پر لے گئے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ آسٹریلیا کی رہائشی کیسی لینگان اور ان کے شوہر نے اپنے تین بچوں کے ساتھ اچھا وقت گزارنے کے لیے پکنک کا پروگرام بنایا مگر ان کے دو بچوں نے یہ کہہ کر جانے سے انکار کردیا کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے ان کی ساری تفریح ہوجاتی ہے اس لیے وہ فیملی پکنک پر جانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
بچوں کا یہ جواب سن کر کیسی اور ان کے شوہر نے عجیب حرکت کی۔ انہوں نے اپنے بچوں سے کہا کہ پکنک کا مقصد اپنی روزمرہ مصروفیات میں سے وقت نکال کر تفریح کرنا ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ان کے گھر میں لگا ہوا وائی فائی راؤٹر، جس کی بدولت سارے گھر والے ہر وقت انٹرنیٹ سے جڑے رہتے ہیں، گھر کا سب سے مصروف فرد ہے۔ لہذا، گھر کے اس سب سے مصروف فرد کو بھی آرام اور تفریح کی ضرورت ہے۔
یہ کہہ کر انہوں نے پکنک پر جاتے ہوئے وائی فائی راؤٹر کو بھی اپنے ساتھ لے لیا۔ لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ کیسی اور ان کے شوہر نے اس وائی فائی راؤٹر کے ساتھ بالکل ویسا ہی برتاؤ کیا جیسے وہ گھر کا اہم فرد ہو۔ راستے میں جگہ جگہ وائی فائی راؤٹر کی تصویریں کھینچی گئیں، اسے سیر کرائی گئی، ساحل کی ریت پر آرام کروایا گیا، غرض وہ سب کچھ کیا گیا جو پکنک پر جانے والے ماں باپ اپنے بچوں کےلیے کرتے ہیں۔
پکنک کے بعد کیسی نے یہ تمام تصویریں سوشل میڈیا پر اپنے جاننے والوں کے ساتھ شیئر بھی کروائیں اور سارا قصہ بھی تحریر کردیا۔ ان کے نزدیک، وائی فائی راؤٹر اس گھر کا سب سے مصروف اور ذمہ دار ترین فرد ہے جو ایک لمبے عرصے سے مسلسل سارے گھر والوں کو انٹرنیٹ تک رسائی فراہم کررہا ہے۔ اس طرح یہ راؤٹر ان کے پورے گھرانے کےلیے تفریح اور معلومات، دونوں کا اہم ترین ذریعہ بھی ہے۔
کیسی نے ایک ویب سائٹ کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے سوچا کہ اگر ہمارے بچے یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں پکنک پر جانے کی کوئی ضرورت نہیں تو پھر گھر کے اس فرد کو لازماً آرام اور تفریح ملنی چاہیے جو سب سے زیادہ کام کرتا ہے‘‘۔
اس خبر کے وائرل ہونے کے بعد ایک اور بحث چھڑ گئی ہے: کیا اپنے بچوں کے ساتھ والدین کا یہ رویہ مناسب تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری نئی نسل نے ٹیکنالوجی کی اس قدر غلامی اختیار کرلی ہو کہ وہ حقیقی تفریح کے احساس اور اس کی اہمیت و ضرورت ہی سے محروم ہوگئی ہو؟ کیا اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنے کے مقابلے میں بے جان آلات کے ساتھ رہنا زیادہ اچھا سمجھا جانے لگا ہے؟
غرض اس پوسٹ سے کئی ایسے سوالات نے جنم لیا ہے جن کا براہِ راست تعلق ٹیکنالوجی اور انسان کے باہمی ربط ضبط سے ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔