اب دوبارہ ’سب رنگ‘ نکالنے کی ہمت نہیں رہی، شکیل عادل زادہ

رضوان طاہر مبین  اتوار 26 جنوری 2020
اپنے کام کی عزت کا لطف اب آرہا ہے، اُردو کے مایہ ناز ادیب کے ساتھ ایک بیٹھک۔ فوٹو: فائل

اپنے کام کی عزت کا لطف اب آرہا ہے، اُردو کے مایہ ناز ادیب کے ساتھ ایک بیٹھک۔ فوٹو: فائل

بات کہاں سے شروع کی جائے اور پھر کہاں پر یہ لفظ تمام ہوں۔۔۔ ہمیں اپنی اس ’محرومی‘ کا اعتراف ہے کہ ’عہدِ سب رنگ‘ کے ڈھلنے کے بعد جنمے۔۔۔ لیکن کالج کے دور میں لوگوں کو یہ پوچھتے دیکھا کہ ’’سنا ہے ’سب رنگ‘ آیا ہے۔۔۔؟‘‘

یہ اکیسویں صدی میں ’سب رنگ‘ ڈائجسٹ کے احیا کا زمانہ تھا۔ پھر ’ایم اے‘ کے دوران اپنے ایک ’اسائمنٹ‘ کے سلسلے میں ہم نے پہلی بار ’سب رنگ‘ والے ’شکیل بھائی‘ سے ملاقات کی۔۔۔ مقام وہی ’پریس چیمبر‘ میں واقع ’سب رنگ‘ ڈائجسٹ کا سابقہ دفتر۔۔۔ جب ہم پہنچے، تو وہاں احباب کی محفل جمی ہوئی تھی۔۔۔ اور ہماری مذہبی تاریخ کا ایک اہم واقعہ موضوع تھا۔ کچھ دیر بعد اذن باریابی ہوا تو ہم ان کے بازو میں کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئے۔۔۔ وہ اِس دفتر کو اپنا دوسرا گھر کہتے۔ ’سب رنگ‘ کے زمانے میں اکثر وہیں سو جاتے، ایک مرتبہ تو 22 روز بعد گھر گئے!

مشہور زمانہ رسالہ ’سب رنگ‘ اپنے بلند معیار کو پست نہ کر سکا، اور رخصت ہوگیا، لیکن یہ دفتر تین برس پہلے تک آباد رہا۔۔۔ وہ نزدیک ہی واقع نجی چینل میں مامور ہوتے، تین بجے وہاں سے نکلتے اور پھر اس بیٹھک میں رونق لگ جاتی۔۔۔ چائے اور پان کے دور چلتے۔۔۔ کیا کیجیے کہ اگر اب ’سب رنگ‘ نہ تھا، لیکن یہاں کی دانش ورانہ گفتگو میں تو ’ہر رنگ‘ تھا۔۔۔

اس ملاقات کے بعد جب بھی ملے، بہت شفقت سے ملے۔۔۔ پھر ہم نے خصوصی طور پر ’ایکسپریس‘ کے لیے اُن سے وقت لیا۔۔۔ دوران گفتگو وہ تاکید کرتے رہے کہ ’’واقعات بکھر گئے ہیں، اسے ترتیب میں کر لیجیے گا۔‘‘ ’مرادآباد‘ سے ’ناظم آباد‘ تک کی اس داستان میں ’انشا‘ کا ذکر بھی ہے اور ابن انشا کا بیان بھی۔۔۔ ہماری ’ڈائجسٹ‘ کی دنیا کے اس ’’بازی گر‘‘ نے زبان وادب کا وہ پالن کیا، جس کی نظیر ذرا کم ہی ملتی ہے۔ سرحد پار کے اردو کے قاری ’فیس بک‘ پر جب یہ سنتے ہیں کہ ہم ’شکیل عادل زادہ‘ کی نگری میں زندگی کرتے ہیں، تو وہ ہماری قسمت پر بہت رشک کرتے ہیں۔

کاغذات میں اُن کا سن ولادت 1940ء درج ہے، لیکن شکیل عادل زادہ کا خیال ہے کہ وہ 1938ء میں پیدا ہوئے، جنم بھومی؛ مراد آباد، تعلق ’پنجابی سوداگرانِ دہلی‘ برادری سے، جو ہندوستان میں دلی کے علاوہ رام پور، بریلی اور مراد آباد وغیرہ میں آباد ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن کے والد ادیب اور شاعر تھے، وہ ایک رسالہ ’مسافر‘ نکالتے تھے، جس کے مدیر اردو کے ممتاز سخن وَر رئیس امروہوی تھے۔ انہیں ابا ہی صحافت میں لائے تھے۔ ابا مسلم لیگی اور ’روشن خیال‘ تھے، انہوں نے ’ادیب فاضل‘ اور ’منشی فاضل‘ کیا ہوا تھا، شعر بھی کہتے تھے۔ اُن کی اپنے کام سے اتنی وابستگی تھی کہ جب دوسری جنگ عظیم میں کاغذ کی نایابی کی وجہ سے ان کا رسالہ بند ہوا، تو انہیں صدمے سے آنتوں کی ٹی بی ہوگئی۔‘ شکیل عادل زادہ نے کچھ توقف کیا اور پھر بولے ’یہ رسالے کا معاملہ اولاد کی طرح ہوتا ہے۔۔۔ یہ بند ہوتو بڑی تکلیف ہوتی ہے، انہیں بھی ہوئی ہوگی! جب ابا کا انتقال ہوا، تو میری عمر چھے سال تھی، ایک چھوٹا بھائی اور ایک چھے ماہ کی بہن تھی۔ اس کے بعد سب کچھ بکھر گیا۔

پھر اماں نے کچھ سلائی کی، اور کچھ نانا کی اعانت سے گزارا ہوا۔ نانا کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ رہا، وہ دیوبندی مکتب فکر سے متاثر تھے۔ ابا کا انتقال ہوا، تو اتنا شعور نہ تھا۔ نانا کی رحلت پر بہت رویا، ابا اتنا یاد نہیں آتے، جتنے نانا آتے ہیں۔ لازمی مذہبی تعلیم کے لیے ’جامعہ قاسمیہ‘ میں داخلہ ہوا، اساتذہ کی بے رحمانہ مار کے سبب مجھے مدرسے سے چڑ ہوگئی۔ ماموں اور خالہ زاد بھائی حافظ تھے اور نانا کی خواہش پر میں نے بھی حفظ کیا اور تین سال تراویح بھی سنائی۔ 1954-55ء میں میٹرک کے بعد انٹر میں داخلہ لیا، وہاں اردو تقریباً ختم ہو چکی تھی، ذریعہ تعلیم ’ہندی‘ تھا۔‘‘

اپنے مطالعے کی شروعات کے حوالے سے شکیل عادل زادہ بتاتے ہیں کہ ’دو پیسے والے ناول سے یہ سلسلہ شروع ہوا، روزانہ ایک ناول پڑھ لیتا تھا۔ مختلف رسالے ’بیسویں صدی‘ اور ’شمع‘ وغیرہ بھی ایک دن میں مکمل کر لیتا۔ نویں، دسویں میں، میں نے ایک مختصر سا افسانہ لکھا، ہم جماعتوں نے کلاس ٹیچر کو بتا دیا، وہ ہمیں انگریزی پڑھاتے تھے، انہوں نے افسانہ سنا اور سراہتے ہوئے بولے کہ یہ سلسلہ جاری رکھو مگر پڑھتے بھی رہو۔

شکیل عادل زادہ کہتے ہیں کہ بٹوارے کے ہنگام میں نو سال کا تھا، اس لیے مجھے وہ وقت یاد ہے۔ انہوں نے پاکستان سے وہاں آئے ہوئے ایک عزیز کی تحریک پر ہجرت کا فیصلہ کیا، کہتے ہیں کہ چُھپ کر پاسپورٹ بنوایا، پیسوں کے لیے اماں کی ’چَمپا کلی‘ ایک ہندو مہاجن کے پاس 40 روپے کے عوض گروی رکھی۔

رات کو مراد آباد سے ریل میں بیٹھا اور صبح امرَت سر پہنچا، وہاں سے پیدل ’واہگہ‘ پار کر کے پاکستان آگئے۔ پھر امّاں کو خط لکھا کہ وہاں مجھے اپنے مستقبل کے لیے کوئی چیز اچھی نظر نہیں آرہی تھی، اس لیے میں یہاں آگیا ہوں۔ خط تو ایک ہفتے بعد پہنچا، لیکن دوستوں نے اگلے دن ہی گھر پر سب بتا دیا۔

پاکستان آیا تو 10روپے اور ایک صندوق میں کچھ کپڑے تھے، جس عزیز کے کہنے پر آیا تھا، ان کے گھر گیا، رات کے گیارہ بجے تھے، انہوں نے کہلوا دیا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں! یہ پہلا جھٹکا لگا تھا کہ خوامخواہ یہاں آگئے، پھر کسی اور شناسا کا پتا معلوم کر کے وہاں ٹھیرا۔

ہجرت کے بعد شکیل عادل زادہ واپس ہندوستان چلے گئے، لیکن قرۃ العین حیدر کی طرح وہاں رہ نہیں سکے، اس حوالے سے وہ یوں بتاتے ہیں: ’’اماں بہت پریشان تھیں، ان کے بہت خط آر ہے تھے، اس لیے تین ماہ بعد واپس چلا گیا، لیکن میں نے وہاں جو مسلمانوں کی صورت حال دیکھی، تو لگا کہ نہیں میرا پاکستان جانے کا فیصلہ صحیح تھا۔‘‘

ہم نے اس ’صورت حال‘ کی وضاحت پوچھی تو وہ بولے کہ ’مسلمانوں کے لیے کوئی گنجائش نظر نہں آتی تھی۔ مستقبل بس یہی تھا کہ دکان کھول لیں، یا کسی دکان پر کام کر لیں۔ مراد آباد میں نانا کا برتنوں کا کاروبار تھا، بڑے ماموں آرڈر لینے کے لیے ہندوستان بھر کا دورہ کرتے تھے، وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے کہ یہاں اس کا جی بہل جائے اور یہ پاکستان جانے کی ضد چھوڑ دے، اس طرح ہم نے جنوبی ہندوستان اور بہت سے شہر دیکھے، جو بعد میں ’بازی گر‘ لکھتے ہوئے بہت کام آئے۔ پھر کوئی سال، چھے مہینے میں واپس پاکستان آگیا، بہتر یہی لگا۔‘‘ ہم نے پوچھا کہ ’’والدہ نے آپ کو جانے دیا؟‘‘ تو وہ بولے کہ میں دوبارہ بھی بغیر بتائے یہاں آیا، لیکن اب کے اماں کو ایسا دکھ نہ ہوا ہوگا کہ انہوں نے سمجھ لیا ہوگا کہ اب یہ یہاں رکے گا نہیں۔‘

کراچی آنے کے بعد وہ رئیس امروہوی کے ہاں چلے گئے، وہ اِن کے والد کے دوست تھے، انہوں نے ’اردو کالج‘ میں کامرس میں داخلہ کرا دیا، دن میں کام کرتے اور شام میں کالج جاتے، بتاتے ہیں کہ ’رئیس امروہوی نے 100 روپے مہینے کے عوض اپنے اخبار ’شیراز‘ کی نگرانی سونپی، ہم سید محمد عباس اور جون ایلیا، بولٹن مارکیٹ سے آگے واقع دفتر ہی میں رہتے تھے، جون بھی مجھ سے 12 دن پہلے پاکستان آئے تھے۔ ہم دفتر سے پیدل رئیس صاحب کے گھر کھارادر جا کر کھانا کھاتے تھے۔‘

اخبار ’شیراز‘ کے حوالے سے شکیل عادل زادہ کہتے ہیں کہ اس میں ٹینڈر نوٹس، عدالتی نوٹس اور کچھ ’کے ڈی اے‘ وغیرہ کے اشتہارات آجاتے تھے۔ میں نے اخبار چار صفحوں سے ایک صفحے کا کر دیا، جس سے 800 روپے ماہانہ بچت ہوتی، اس میں ہمارے اخراجات اور رئیس صاحب کی مے نوشی کا خرچ نکل آتا تھا۔

’’جب جون ایلیا ہندوستان سے آئے تو انہیں دق تھی۔‘‘ گفتگو کے نئے موڑ پر شکیل بھائی نے گویا تمہید باندھنا شروع کی، اور بولے کہ ’’انہیں مسلسل انجکشن لگتے تھے، ان کی صحت یابی کے بعد دونوں بڑے بھائی سید محمد تقی اور رئیس امروہوی ایک علمی وادبی ماہ نامے کے ’ڈیکلریشن‘ کی عرضی لیے الطاف گوہر کے پاس گئے۔ تب ’ڈیکلریشن‘ بڑی مشکل سے ملتا تھا، لیکن ایک ’جنگ‘ کا مدیر اور ایک قطعہ نگار اور کالم نویس تھا، اس لیے انہیں ہاتھ کے ہاتھ ہی مل گیا، یوں فروری 1958ء میں ’انشا‘ جاری ہوا۔

’شیراز‘ سے علاحدگی کا سبب شکیل بھائی ایک اشتہار کے معاملے میں رئیس امروہوی سے تَناتنی بتاتے ہیں، پھر وہ اسی دفتر میں ’انشا‘ کے لیے کام کرنے لگے، لیکن رئیس صاحب سے تعلق ویسا ہی رہا۔ وہ کہتے ہیں ’تب شاید ہی کوئی ادبی پرچا ہو، جو ایک ہزار سے زیادہ چھپتا ہو، ہم نے بھی ’انشا‘ ایک ہزار سے شروع کیا۔ ادبی پرچے عموماً بلامعاوضہ ادیبوں اور شعرا کو جاتے ہیں، کچھ خریدار بھی مل جاتے ہیں۔ مجھے یہ ذمہ ملا کہ ’انشا‘ کے اشتہار بڑھاؤں، میں مختلف کمپنیوں میں ’انشا‘ پیش کرتا اور نہایت عاجزی سے درخواست کرتا تھا، اشتہار تو چار پانچ فی صد ملتے، لیکن تعلقات بہت بن گئے۔ ہر ماہ ’رسالہ‘ جانے پر بہت سے لوگ اشتہار دینے لگے۔ ’انشا‘ وہ واحد ادبی پرچا تھا، جو فائدے میں تھا، لیکن وقت کے ساتھ یہ بچت بڑھ نہ سکی۔ اسی دوران ’اردو ڈائجسٹ‘ آیا اور مقبول ہوا، تو ہم نے ’انشا‘ کی لوح کے ساتھ ‘عالمی ڈائجسٹ‘ لکھنا شروع کر دیا۔ جس پر 11سو سے اشاعت چار ہزار ہوگئی، یہ 1961-62ء کا زمانہ تھا، مگر پھر یہ چار ہزار پر ٹھیر گیا، اب اخراجات بھی بڑھ گئے تھے۔ اس عرصے میں، میں ’بی اے‘ کر کے ’ایم اے‘ عمرانیات میں پرائیوٹ امیدوار کے طور پر داخلہ لے لیا۔

شکیل عادل زادہ کہتے ہیں کہ یہ 1962-63ء کی بات ہوگی، صحیح تاریخیں اب یاد نہیں کہ جب ہم نے ’اردو ڈائجسٹ‘ کی طرز اپنانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد مضامین ختم کر کے مکمل ’فکشن‘ کردیا اور ’انشا‘ کی لوح ہٹا کر اس کا نام ’عالمی ڈائجسٹ‘ کر دیا۔ پھر بہزاد لکھنوی نے پراسرار واقعات لکھنا شروع کیے، جس سے ’عالمی ڈائجسٹ‘ 20 ہزار تک پہنچ گیا۔

شکیل عادل زادہ کے بقول ’انہوں نے ’انشا‘ میں مختلف سماجی مسائل پر مضامین لکھنا شروع کیے، پھر پانچ قسطوں میں امیر علی ٹھگ کے عنوان سے لکھا، جسے ’عالمی ڈائجسٹ‘ میں بھی دُہرایا۔ کچھ تو وہ واقعات ’کنفیشن آف اے ٹھگ‘ میڈوس ٹیلر (Meadows Taylor) کے اردو ترجمے سے لیے اور کچھ اپنے پاس سے لکھے، اس افسانوی انداز کو بہت پسند کیا گیا، وہ جون ایلیا کو سنا کر تصحیح کراتے اور پھر اپنی چھَپی ہوئی تحریر دیکھنے کا باقاعدہ انتظار کیا کرتے۔

گفتگو اب دھیر دھیرے اصل محور یعنی ’سب رنگ‘ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ وہ بولے کہ یہ طے ہو گیا تھا کہ ’عالمی ڈائجسٹ‘ میں ہم تین ہی افراد ’شراکت دار‘ ہیں۔ میں اشتہارات دیکھتا، جون ایلیا اداریہ اور کہانیاں دیکھتے، جب کہ سید محمد عباس پروف وغیرہ کا کام کرتے، وہ تو میں بھی کر لیتا تھا۔ ایک دن ہمارے ایک مشترکہ دوست نقاد محمد علی صدیقی، جو ’ڈان‘ میں تنقیدی مضامین بھی لکھتے تھے، انہوں نے میری پرچے سے ’شراکت‘ کی قانونی حیثیت پر توجہ دلائی، جس پر میں نے دستاویز کی بات چلائی، تو جون اور عباس صاحب نے کہا کہ یہ تو تقی صاحب اور رئیس صاحب کا بھی ہے!‘ گویا اس واقعے کے بعد شکیل بھائی کا سفر ’سب رنگ‘ کی طرف شروع ہوگیا۔

وہ کہتے ہیں ’مجھے یہ اعتماد ہوگیا تھا کہ میں کاغذ کی خریداری سے اشتہارات اور طباعت واشاعت کے تمام کام کر لیتا ہوں۔ ایوب خان کا دور تھا، ’ڈیکلریشن‘ ملنا ’درآمدی لائسنس‘ ملنے کی طرح تھا، میں نے بہت تگ ودو کر کے بالآخر پانچ نومبر 1969ء کو ’سب رنگ‘ ڈائجسٹ کا ’ڈیکلریشن‘ لے لیا اور چھے نومبر کو ایک چھوٹا سا رقعہ لکھ دیا کہ ’میں ’عالمی ڈائجسٹ‘ چھوڑ رہا ہوں، اگر کوئی حساب بنتا ہے، تو دے دیجیے، نہیں بنتا، تو کوئی بات نہیں۔‘ اور وہاں سے چلا آیا۔

اپنی رہائش کے حوالے سے شکیل عادل زادہ بتاتے ہیں کہ ’جب رئیس امروہوی گارڈن ایسٹ منتقل ہوئے، جہاں انہیں ’کلیم‘ میں کوٹھی ملی تھی، تو میں کھارادر کے فلیٹ میں رہنے لگا، پھر کچھ وقت کے بعد ’پاپوش نگر‘ (ناظم آباد) میں اپنے دوست فاروق مفتی کے ساتھ کرائے پر رہنے لگا۔ جون ایلیا اور عباس صاحب تو باہر نہیں نکلتے تھے، سارا کام میں ہی کرتا تھا، اس لیے رئیس امرہوی کئی بار ملنے آئے، لیکن میں کہلوا دیتا تھا کہ میں لاہور گیا ہوا ہوں۔‘

ہم نے پوچھا کہ کیا انہیں ’سب رنگ‘ کے ڈیکلریشن کی خبر ہو گئی تھی؟ تو وہ بولے کہ نہیںِ، وہ سمجھے تھے کہ میرے بہت تعلقات بن گئے ہیں، اس لیے میں کسی ’اشتہاری ایجنسی‘ سے جُڑ گیا ہوں۔

’سب رنگ‘ کے پہلے شمارے کے حوالے سے شکیل عادل زادہ نے بتایا کہ ’تیاری پہلے سے کر رہا تھا، اس لیے یکم جنوری 1970ء کو ’سب رنگ‘ جاری ہو گیا۔ دوستوں کی مدد اور کچھ جوڑے ہوئے پانچ ہزار روپے کام آئے۔ جان پہچان کےسبب ’پریس‘ نے بھی فوری پیسوں کا تقاضا نہ کیا، اشتہارات دینے والوں نے بھی ساتھ دیا۔ 160 صفحے کے رسالے میں 29-30 اشتہارات اور قیمت ڈیڑھ روپے تھی، پہلی بار پانچ ہزار چھپا، جس میں سے ساڑھے تین ہزار فروخت ہوگیا، پھر بھی فائدے میں رہا۔

قارئین میں اپنے ’تعارف‘ کے حوالے سے شکیل عادل زادہ گویا ہوتے ہیں کہ عالمی ڈائجسٹ میں، میں ’نوٹ‘ وغیرہ کے ساتھ اپنا نام دینے لگا تھا، اس لیے ’سب رنگ‘ پر میرا نام اجنبی نہ تھا۔ ابتداً ’سب رنگ‘ کو ’عالمی ڈائجسٹ‘ سے مختلف رکھا، کچھ حالات حاضرہ، کچھ معلوماتی حصہ اور کچھ ’فکشن‘، پھر دو ماہ کے بعد مکمل ’فکشن‘ کر دیا۔ تیسرے ماہ میں ہی پانچ کا پانچ ہزار ’پرچا‘ فروخت ہو گیا اور پھر پہلے سال 20 ہزار، دوسرے سال 42 ہزار، تیسرے سال 82 ہزار، پانچویں سال ایک لاکھ اور پھر ڈیڑھ لاکھ سے بھی اوپر گیا، یہ ایک ریکارڈ ہے۔

’ابن انشا‘ کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ ’’ہم ان سے بہت چھوٹے تھے، لیکن ہماری بہت اچھی دوستی ہوگئی۔ ایک دن انہوں نے ’سب رنگ‘ کے لیے ممتاز مفتی کا ایک ’طبع زاد‘ افسانہ دیا۔ ہمارے ہاں افسانے پانچ، چھے آدمیوں کی رائے کے بعد شایع ہوتے ہیں۔ وہ افسانہ معیار پر نہ اتر سکا، لیکن اب میں انہیں یہ سب کیسے کہوں، چناں چہ میں نے افسانہ دبا لیا، پھر ابن انشا لندن چلے گئے، پھر کافی دن بعد ملے اور پوچھا تو انہیں سب بتا دیا۔ انہوں نے لندن سے ایک خط لکھا، جو میرے پاس محفوظ ہے کہ ’’شکیل، ’پرفیکشنسٹ‘ بننے کی کوشش مت کرو!‘‘ کیوں کہ ’سب رنگ‘ بے قاعدہ ہونے لگا تھا۔ بھئی، جب مواد اچھا ہوگا، تبھی تو چھپے گا۔ میں نقصان برداشت کر لیتا تھا، لیکن یہ طے تھا کہ جب بھی آئے گا، معیاری رسالہ ہی آئے گا۔ ایک مرتبہ تو پونے چار سال کے وقفے کے بعد آسکا، لیکن تب بھی اتنی ہی مقبولیت کے ساتھ فروخت ہوا۔‘

ہم نے ’سب رنگ‘ کے ملک سے باہر جانے کا استفسار کیا، تو وہ بولے کہ بہت کم تعداد میں دبئی اور سعودی عرب وغیرہ جاتا تھا۔ ہندوستان اسمگل ہو کر پہنچتا اور تین روپے کا رسالہ 50 روپے میں بِکتا، اور وہاں کے دوسرے ڈائجسٹوں میں نقل بھی ہوتا۔ پانچ، چھے ہزار مشرقی پاکستان بھی جاتا تھا، جو 1971ء کے بعد بند ہوگیا۔

ہم نے شکیل بھائی سے پوچھا کہ آپ نے کبھی ابن انشا کے مشورے پر عمل نہیں کیا؟ تو وہ بولے کہ ’’کر نہیں سکتا تھا۔ ’سب رنگ‘ کے باقاعدہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ میں خود بھی لکھنے لگا۔ 1976ء میں ’بازی گر‘ شروع کیا، تو وہ بہت مقبول ہوا۔ اب جب تک ’بازی گر‘ کی قسط نہ لکھ لوں، ’پرچا‘ چھپنے نہیں جاتا تھا اور ’پرچا‘ نہ آنے کا مطلب نقصان ہے۔ عملے کے 22 افراد تھے، پھر 16 رہ گئے، ان کو ہر مہینے تنخواہ تو دینی ہوتی تھی۔ آخر ٹاور کا دفتر، اللہ والا ٹاؤن کا مکان اور پتا نہیں کیا کیا بیچا اور کنگالی کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔۔‘‘

ہم نے پوچھا کہ یہ کس زمانے کی بات ہے، تو وہ بولے کہ ’’1980ء 1985ء کی، پھر بھی کچھ نہ کچھ کرتا رہا۔‘‘

’پھر انشا جی نے ٹھیک کہا تھا؟‘ ہم نے گفتگو سے منطقی نتیجہ اخذ کرنا چاہا، تو وہ بولے کہ ’’واقعہ یہی ہے۔۔۔ انہوں نے بالکل سچی بات کہی تھی، ہم نے صرف ایک نام، معیار اور عزت کمائی ہے، لیکن کام کی عزت کا لطف اب آرہا ہے۔‘‘

میر شکیل الرحمن نے کہا کہ ’سب رنگ‘ ’جنگ‘ کے بینر تلے نکلے۔ آپ کی تنخواہ ہو اور منافع میں پانچ فی صد کے ساجھے دار بھی ہوں، 20 سال پرانی دستاویز موجود ہے۔ دبئی میں میرے ایک دوست اور بزرگ ’ملک صاحب‘ نے منع کیا کہ تم نے کبھی ملازمت نہیں کی، نہیں کر پاؤ گے!، چناںچہ میں نے دستخط نہیں کیے اور ٹالتا رہا۔‘

ہم نے پوچھا آپ کے خیال میں وہ فیصلہ درست تھا؟‘ تو وہ بولے کہ معاہدہ ہو جاتا تو بہتر تھا۔ ہمیں وسائل مل جاتے، تو ہم اسے ’ریڈرز ڈائجسٹ‘ جیسا ’پرچا‘ بنا سکتے تھے۔ پھر بعد میں جب اس معاہدے کی بات چلائی، تو انہوں نے ہامی تو بھری، لیکن تب وہ اپنے ’چینل‘ کی تیاری میں لگ گئے تھے۔ وہ چینل کے حوالے سے مشاورت کرتے تھے اور چینل شروع ہونے سے پہلے ہی میری تنخواہ باندھ دی تھی، اُدھر ملک صاحب کے انتقال کے بعد اُن کے بیٹے راشد ملک نے رابطہ کیا، انہوں نے کہا ’ہم اُتنے پیسے تو نہیں دے سکتے۔‘ اب میں بہت تھک چکا تھا، اس لیے اُس سے کچھ کم پر ’سب رنگ‘ کی فروخت کا معاملہ طے پا گیا۔

اس کی بھی نصف قیمت دی کہ باقی رقم کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد دیں گے، لیکن آج تک نہیں دی۔ پھر ’سب رنگ‘ دوبارہ آیا، وہ مجھے تنخواہ دیتے رہے، معاہدے کے مطابق دو سال کے اندر اسے ’ماہانہ‘ کر نا تھا، لیکن ہمارے دماغ میں معیاری چیز دینے کا ’’خناس‘‘ تھا، خراب چیزیں چھاپتے، تو ہر ماہ آجاتا، چناںچہ دو سال میں پانچ پرچے ہی نکال سکے، معاہدے کی رو سے یہ غلط تھا۔ انہیں شکایت ہوئی کہ نقصان ہو رہا ہے، میں نے کہا ’ڈیکلریشن‘ آپ کے نام پر ہے، آپ سنبھالیں۔ پھر انہوں نے اسے ماہ نامہ کر دیا اور برا حال ہوگیا، یہاں تک کہ اشاعت پانچ ہزار تک گر گئی، تو پھر انہوں نے بند کر دیا۔

’ڈیکلریشن‘ واپس ملنے کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ راشد ملک نے مقررہ مدت میں مطلوبہ ’ڈمیاں‘ محکمہ اطلاعات میں جمع نہیں کرائیں، تو میں نے ’ڈیکلریشن‘ کی درخواست دی، اور مجھے ’سب رنگ‘ کا ڈیکلریشن واپس مل گیا، لیکن اب نہ سرمایہ تھا اور نہ ہمت۔

اپنی بیماری سے متعلق شکیل بھائی نے بتایا کہ ’میرا 10 برس قبل ’بائی پاس‘ ہوا، اور اس سے سات برس قبل آنتوں کا کینسر ہو چکا، خوش قسمتی سے ’کینسر‘ زیادہ نہیں تھا، اس لیے آنت کا متاثرہ حصہ الگ کر دیا گیا۔‘

’آپ کو بھی ’سب رنگ‘ کا گھاؤ لگا، جیسے والد کو لگا تھا؟‘ ہمیں اُن کے والد کو رسالے کا صدمہ یاد آگیا، وہ بولے ’’بالکل، ابا کو بھی یہی تھا، لیکن اس زمانے میں علاج کی اتنی سہولتیں نہیں تھیں۔۔۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ صحافی رؤف کلاسرہ اور دیگر نے پوچھا تھا کہ ’سب رنگ‘ دوبارہ نکالیں، تو کتنے پیسے لگیں گے، میں نے کہا کم سے کم 50 لاکھ روپے تو ہونا چاہئیں۔ رؤف کلاسرہ نے کہا 10 لاکھ میں دینے کے لیے تیار ہوں، اس طرح سہیل وڑائچ، مجیب الرحمن شامی اور دیگر نے بھی کہا، الغرض پانچ آدمیوں نے مجموعی طور پر 50 لاکھ روپے دینے کی ہامی بھرلی، لیکن بات آگے نہیں بڑھی۔‘ ہم نے پوچھا کہ کیا یہ سب زبانی گفتگو ہوئی؟ تو شکیل بھائی نے بتایاکہ رؤف کلاسرہ نے اپنے کالم میں یہ سب لکھا تھا۔ پھر راول پنڈی سے ’سب رنگ‘ کے ایک عاشق نے ’ڈیکلریشن‘ خرید لیا اور کہا کہ ہم تین ماہ میں آپ کی زیر نگرانی دوبارہ ’سب رنگ‘ نکالتے ہیں، لیکن ایسا نہ ہو سکا، بہت دنوں تک اُن کا ’ڈیکلریشن‘ برقرار رکھنے کے لیے میں ’ڈمیاں‘ جمع کراتا رہا، لیکن پھر چھوڑ دیا۔‘

’تو اب دوبارہ ’سب رنگ‘ نکلنے کی امید نہیں ہے؟‘ اس سوال کا جواب ہم لاکھ چاہیں کہ اثبات میں ہو، لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’’میں تو نہیں نکال سکتا، اب ہمت نہیں رہی!‘‘

کراچی کی پُرتشدد تاریخ کے تناظر میں ہم نے شکیل عادل زادہ سے کسی ردعمل کا پوچھا، تو وہ بولے کہ ’انشا‘ میں کراچی کی سرگرمیاں لکھتے ہوئے ایک مرتبہ ’اردو کالج‘ کے خلاف کچھ جملے لکھ دیے۔ جس پر مشتاق احمد یوسفی نے بڑی انکساری سے کہا کہ ’’آپ سے گزارش ہے کہ کبھی کوئی ایسی تحریر نہ نہ لکھیے گا، جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو، یہ میری نصیحت ہے۔‘‘ میں نے آج تک اس بات کو گرہ سے باندھا ہوا ہے۔‘

ہم نے شکیل بھائی سے ’سب رنگ‘ میں تراجم کے حوالے سے پوچھا کہ وہ دیگر زبانوں سے لفظ بہ لفظ ترجمہ کر دیتے تھے یا ہماری سماجی اقدار کے لحاظ سے اِس میں کچھ تدوین بھی کرتے تھے؟ وہ کہتے ہیںکہ ’ایڈٹ‘ تو ہر چیز ہی ہوتی تھی، بلکہ ’سب رنگ‘ میں تو تقریباً چیزیں ’ری رائٹ‘ ہوتی تھیں۔ کبھی کبھی ’اداریہ‘ سیاسی ہوتا تھا۔۔۔ اس میں ہم کبھی پروا نہیں کرتے تھے۔ جو ہم ٹھیک سمجھتے تھے، لکھ دیتے تھے۔ کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ ادب میں بھی کبھی ہم نے یہ نہیں کیا کہ صاحب، پتا چلے کہ ہم لیفٹ سے دل چسپی رکھتے ہیں وغیرہ۔‘‘

’ایم کیو ایم‘ پر لکھا؟‘ ہم نے براہ راست پوچھا۔ انہوں نے نفی میں جواب دیا، تو لامحالہ وجہ پوچھی۔ وہ بولے کہ دراصل ’سب رنگ‘ کے زمانے میں، ’ایم کیو ایم‘ اتنی نہیں تھی۔

ہم نے کہا کہ ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ کراچی تجارتی شہر ہے، اس لیے یہ ادبی مرکز نہیں بن سکتا؟ جس پر وہ بولے کہ جون ایلیا کا ایک جملہ ہے کہ ’جہاں سمندر ہو، وہاں تجارت جنم لیتی ہے اور جہاں دریا ہوں وہاں تہذیب!‘ ہم نے پوچھا کہ کیا پھر کراچی میں کوئی تہذیب نہیں ہو سکتی؟ وہ بولے کہ ’’بڑے شہر میں ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘

خود نوشت لکھنے کے سوال پر شکیل عادل زادہ بولے کہ ’بہت لوگ کہتے ہیں کہ میں لکھوں۔ مختلف اخبارات میں ’کالم‘ لکھنے کی پیشکشیں ہوئیں، میں نے سوچا ہے کہ اگر ’کالم‘ لکھنے پڑے، تو پھر سیاست پر لکھنا تو میرا مزاج نہیں، اس لیے پھر اس میں، میں اپنی یادداشتیں لکھوں گا۔

ایک نجی انٹرٹینمنٹ چینل سے بطور’چیف اسکرپٹ ایڈیٹر‘ وابستہ شکیل عادل زادہ نے اس ’گروپ‘ کے خبری چینل کی اردو بھی درست کی۔ وہ مشہور ڈراما نگار نور الہدیٰ شاہ کے اسکرپٹ کو عمدہ اور مکمل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسکرپٹ اور کہانی لکھنا، دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ اسکرپٹ لکھنا تیکنیکی اور مشکل کام ہے۔ سچی بات ہے کہ میں نے کوشش کی میں تو اس میں ناکام ہو گیا۔

’مدیر‘ کو لکھنا نہیں چاہیے۔۔۔!
ہم نے شکیل عادل زادہ سے اُن کے اِس خیال کی بابت استفسار کیا کہ ’مدیر کو لکھنا نہیں چاہیے‘ تو وہ بولے کہ دیکھیے، جتنے بڑے بڑے اخبار ورسائل کے مالکان تھے، وہ لکھتے نہیں تھے، بہت سے مدیران، جو لکھ سکتے تھے، لیکن نہیں لکھتے تھے۔ ’جنگ‘ کا اداریہ سید محمد تقی لکھتے تھے، اگر کبھی وہ نہ لکھیں، تب میر خلیل لکھتے تھے۔ مدیر جب لکھنے لگتا ہے، تو پھر اس کی توجہ لکھنے میں زیادہ ہو جاتی ہے۔ میں پہلے رسالے کو 50 فی صد کاروبار کہتا تھا، لیکن اب 75 فی صد کہتا ہوں۔ آپ باقاعدہ اس کی تشہیر کرتے ہیں، اِسے دیدہ زیب بناتے ہیں۔ اس کا معیار بھی اسی میں شامل ہے، کیوں کہ معیار بھی تو رسالے کی ساکھ اچھی بناتا ہے۔

جب ’سب رنگ‘ 50 ہزار شایع ہوگا تب شادی کروں گا!
شکیل عادل زادہ کو ایک ناکام محبت کے تجربہ رہا، کہتے ہیں کہ کچھ میری وجہ سے اور کچھ دیگر صورت حال ایسی تھی کہ وہاں شادی نہیں ہو سکتی تھی۔ فروری 1972ء میں وہ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ یہ پسند اور ’ارینج‘ ملی جلی تھی۔ ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’میں نے کہا تھا جب ’سب رنگ‘ کی اشاعت 50 ہزار ہوجائے گی، تب شادی کروں گا، اور یہ جلد ہی ہوگئی! والدہ بھی شادی میں شریک ہوگئیں۔ والدہ اور میرے بہن، بھائی وہیں رہے، والدہ کے انتقال پر ہندوستان نہ جا سکا۔

’’بازی گر‘‘ قارئین کے ساتھ ’ناظرین‘ کے لیے بھی مکمل ہونے کو ہے!
شکیل عادل زادہ کہتے ہیں کہ 15 برس قبل جب ’سب رنگ‘ کے اُس وقت کے مالکان نے ’بازی گر‘ مختلف لوگوں سے لکھوایا، تو پڑھنے والے بتاتے ہیں کہ ویسا معیار نہیں تھا۔ ’بازی گر‘ کی کتابی صورت کے حقوق کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ ’جاسوسی ڈائجسٹ‘ والے معراج رسول کے بھائی اعجاز رسول سے دوستی تھی، انہوں نے 25 ہزار روپے فی کتاب مجھے دیے، لیکن یہ طے نہیں ہوا تھا کہ یہ پہلے ایڈیشن کے ہیں یا دوسرے ایڈیشن کے۔ اب ’بازی گر‘ لاہور کے ایک نجی پروڈکشن ہائوس نے سیریل بنانے کے لیے خرید لیا ہے، انہیں کہا ہے کہ اسکرپٹ تو میں نہیں لکھ سکتا، آپ لکھ کر مجھے دکھا دیں، اب وہ آخری قسط کا انتظار کر رہے ہیں۔ آخری حصے کا وہ نصف حصہ لکھ چکا ہوں، جو پچھلی اقساط کے تسلسل میں ہے، اس کی ضخامت سوا سو صفحات ہے، اب آخری حصہ لکھنا باقی ہے، جس میں اُسے ختم کرنا ہے، اگلے ماہ صاحب زادی کی شادی کی مصروفیات کے سبب یہ کام ذرا چُھوٹا ہوا ہے، توقع ہے کہ سال بھر میں مکمل ہو جائے گا۔

رام پور سے پیدل مراد آباد چل پڑے۔۔۔!
شکیل عادل زادہ بتاتے ہیں کہ اُن کی نانی رام پور سے بیاہ کر مراد آباد آئی تھیں، اس لیے بہت سے ننھیالی رشتے دار رام پور میں رہتے تھے، اُن کے ایک ماموں ذرا توتلے تھے، وہ ان کی شادی پر رام پور گئے، تو انہیں حسب عادت چھیڑ رہے تھے، کہتے ہیں کہ میں تو انہیں ذرا ’رازداری‘ سے چھیڑ رہا تھا، لیکن انہوں نے سب کے سامنے مجھے ڈانٹ دیا، جس پر خفا ہو کر شیروانی پہنے پہنے ہی مراد آبا کو چل پڑا۔ وہاں سے ریلوے اسٹیشن ہی تین کلو میٹر دور تھا۔ وہاں پہنچا تو کسی ریل گاڑی کا وقت نہ تھا، جیب میں صرف تین آنے تھے، چناں چہ ریل کی پٹری کے ساتھ ساتھ پیدل چلتا رہا، راستے میں کسی صاحب نے سائیکل پر بٹھا لیا، تو کچھ مسافت ان کے ساتھ طے کی اور پھر رات تک مراد آباد پہنچ گیا۔

ضیاالحق بولے کہ سرورق پر میری تصویر چھاپو گے تو کوئی پڑھے گا نہیں!
شکیل عادل زادہ کہتے ہیں کہ سرکاری اشتہار کے بغیر رسالہ تو چل سکتا ہے، لیکن اخبار کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ ’سب رنگ‘ کو بھی یہ بندش سہنا پڑی۔ اس کی تفصیل وہ کچھ یوں بتاتے ہیں کہ ’سی پی این ای‘ (کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز) کی تقریب میں سربراہ انور خلیل سب مدیران کا تعارف جنرل ضیاالحق سے کرا رہے تھے۔ جنرل ضیا اُن سے ملے تو بولے ’سب رنگ‘ کی بڑی تعریف سنی ہے، میں نے تو کبھی پڑھا نہیں۔ سنا ہے بہت چَھپتا ہے، بڑی خوشی ہوئی مل کے۔‘ بعد میں انہوں نے انور خلیل سے کہہ کر جنرل ضیا سے ملاقات کی، تاکہ خواتین کے ’ماہ نامے‘ کی ’ڈیکلریشن‘ کی درخواست آگے بڑھ سکے، پانچ منٹ ملاقات طے ہوئی، جو25 منٹ چلی۔ ’سب رنگ‘ پیش کیا، تو ضیا الحق بولے کہ ’’اس میں عورت کی تصویر لازمی ہے؟ میں یہ نہیں کہتا کہ میری تصویر چھاپ دو، پھر تو کوئی پڑھے گا نہیں۔‘‘ جس پر شکیل عادل زادہ نے کہا سرورق دیدہ زیب رکھنے کی خاطر ایسا کرتے ہیں۔

پھر پوچھا کہ مذہبیات پر کیا چھاپتے ہیں، تو ’تصوف‘ کے مضامین کا ذکر کیا، وہ کہنے لگے کہ تصوف کے علاوہ؟ پھر ’ڈیکلریشن‘ پر بولے اتنے رسالے ہیں، اب آپ کو کیا ضرورت ہے؟ کہا کہ کوئی اچھا ’پرچا‘ آجائے گا۔ وہ بولے کچھ کرتے ہیں، آپ ’سب رنگ‘ کے کچھ اور شمارے بھیجئے، اگلے دن محکمہ اطلاعات نے ’سب رنگ‘ منگالیے، جس کے بعد ’ڈیکلریشن‘ تو کیا ملتا، الٹا ’سب رنگ‘ کے اشتہارات اور کاغذ کا کوٹا ہی بند کر دیا گیا۔ شکیل عادل زادہ بتاتے ہیں کہ اُس وقت کمپیوٹر پر اردو نہیں آئی تھی، انہوں نے ضیاالحق کو مشورہ دیا تھا کہ وہ بالجبر اردو ٹائپ نافذ کر دیں، تاکہ اردو اخبار ترجمے کی مشقت سے بچ جائیں۔ وہ بولے کہ اس سے کاتب تو بے روزگار ہو جائیں گے!n

ماجرا ’’شکیلہ جمال‘‘ کے خطوط کا۔۔۔
شکیل عادل زادہ بتاتے ہیںکہ رسالے ’بیسویں صدی‘ میں افسانوں کے ساتھ ادیبوں کا پتا بھی شایع ہوتا تھا۔ مجھے خط کتابت کا بہت شوق تھا، یہ ’خط وکتابت‘ لکھنا غلط ہے۔ تو ہم وہاں سے پتے دیکھ کر افسانوں پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے، لیکن کبھی کوئی جواب نہ آیا۔ جب ’شکیلہ جمال‘ کے نام سے خط لکھے، تو جواب آنے لگے، اس طرح اُس زمانے کے بہت سارے ادیبوں کو لکھا۔ دلی کے ایک قلم کار سے معاملہ رومانوی ہوگیا، یہاں تک کہ وہ ملنے مراد آباد چلے آئے۔ میں انٹر میں تھا، کالج سے گھر لوٹا، تو امّاں نے بتایا کہ کوئی صاحب شیروانی پہنے ہاتھ میں بیگ لیے ’شکیلہ جمال‘ کا پوچھ رہے تھے۔

امّاں کو یہ ماجرا پتا تھا۔ انہوں نے کہہ دیا کہ ’شکیلہ جمال‘ تو بریلی گئی ہوئی ہے، البتہ ان کے بھائی شکیل ہیں، جو کالج گئے ہوئے ہیں۔ تو وہ بتا گئے کہ وہ آجائیں، تو اسٹیشن کی ’انتظار گاہ‘ میں بیٹھا ہوا ہوں۔ میں جب وہاں گیا، تو اس دوران وہ پھر گھر آگئے۔

دو بار ایسا ہوا کہ وہ یہاں اور میں وہاں، تیسرے پھیرے پر ہمارے ایک عزیز نے پوچھا، تو وہ بولے کہ میں شکیل صاحب کو تلاش کر رہا ہوں، ان کی بہن ہیں، شکیلہ جمال، ان کے لیے میں یہ کتابیں لایا تھا۔ اُن صاحب نے بتا دیا کہ ’شکیلہ‘ کوئی نہیں ہے، یہ شکیل ہی شکیلہ بن کر خط لکھتا ہے! بعد میں شکیل بھائی نے یہ ماجرا شکیل بدایونی کو بتایا تو انہوں نے وہ خطوط بمبئی منگائے اور نوشاد صاحب کو بھی پڑھوائے، وہ بھی بہت ہنسے اور بولے کہ ان سے کہو کہ یہ کھیل نہ کھیلے، چناں چہ پھر یہ سلسلہ ترک کر دیا۔ ’شکیلہ جمال‘ والے خطوط کا پلندہ واپس مل گیا، لیکن پھر کراچی آنے کے باعث وہ محفوظ نہیں رہ سکا۔

’کمرۂ امتحان‘ لکھنا غلط ہے؟
ہم نے اردو کے الف کی آواز پر ختم ہونے والے الفاظ کے آخر میں ’ہ‘ یا ’الف‘ لگانے کا معاملہ چھیڑا، تو وہ بولے کہ ’لکھنے والوں کا کام ہے کہ وہ اس کا خیال رکھیں کہ جو لفظ ہندی کا ہے وہ ’ہ‘ پر ختم نہیں ہو سکتا۔ جیسے ’روپیا‘ اور ’پیسا‘ وغیرہ۔ آپ آٹا کیوں ’ہ‘ پر ختم نہیں کرتے؟ اس لیے کہ ’ٹ‘، ’ڈ‘ اور ’ڑ‘ والے سارے لفظ ’ہندی‘ یا ’انگریزی‘ وغیرہ سے آئے ہیں، وہ الف پر ہی ختم ہوں گے۔‘ ہم نے کہا ’کمرا‘ اگر الف سے لکھیں، تو ’کمرۂ امتحان‘ کی ترکیب کا کیا ہوگا؟ وہ بولے کہ ’غلط ہے، کمرا ’الف‘ سے اس لیے ہوگا کہ پرتگالی زبان سے آیا ہے۔ اس لیے ’امتحانی کمرا‘ کہنا چاہیے۔n

اردو آپ کے گھر میں بھی اجنبی۔۔۔؟
شکیل عادل زادہ بتاتے ہیں کہ اُن کے صاحب زادے نے لندن سے آئی ٹی میں ماسٹرز کیا، گھر میں چار پانچ اخباروں میں سے صرف وہ انگریزی کا اخبار چھوتے تھے۔ ’آپ کے گھر میں بھی اردو اجنبی ہو رہی ہے؟‘ ہم نے حیرانی ظاہر کی تو وہ بولے کہ ’’ہاں۔۔۔ بیٹی نے مائیکرو بائلوجی پڑھی، وہ کچھ اردو جانتی ہے، لیکن ادب سے اسے کوئی دل چسپی نہیں۔ یہ انفرادی رجحان ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کا بیٹا علامہ اقبال نہیں ہوتا!‘‘

شکیل عادل زادہ کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ صاحب زادے شادی شدہ ہیں اور کینیڈا میں رہتے ہیںِ۔ بڑی بیٹی بھی اپنے گھر کی ہیں، چھوٹی بیٹی کی اگلے ماہ شادی ہے، وہ آرٹ پڑھاتی ہیں۔ ان کا رجحان بھی نہیں۔
’آپ نے شروع میں بچوں کو اردو کی طرف راغب نہیں کیا؟‘ ہم نے ذہن میں آنے والے بے چین سوال کو راہ دی، تو وہ بولے کہ ’’اردو میں اچھے اسکول ہی نہیں تھے!‘‘ ہم نے کہا کہ وہ تو نصابی معاملہ ہوگیا، لیکن گھر کی سطح پر؟ تو وہ بولے کہ ہم گھر میں خود اچھی اردو بولتے ہیں، لیکن اردو ادب سے انہیں کوئی دل چسپی نہیں، کوئی کتاب کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ بچپن میں بچوں کے رسائل کی طرف راغب کرنے کے ذکر پر وہ کہتے ہیں کہ ’’نہیں، وہ بھی انگریزی کے پڑھے۔‘‘

وہ نظام تعلیم کو قصوروار قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہماری ذرا بھی آمدنی بڑھتی ہے، تو ہماری ترجیح انگریزی اسکول ہوتے ہیں، پھر ہم روتے رہیں کہ اردو اور کتاب کا رواج ختم ہو رہا ہے۔۔۔ بھئی یہی ہوتا رہے گا۔ دیکھیے، جس زبان میں روزگار ملتا ہے، وہ زبان چلتی ہے۔ آپ اردو میں ایم اے کریں، کوئی ملازمت نہیں ملے گی، انگریزی میں کریں، تو فوراً مل جائے گی۔ آپ اُسے روتے رہیں، میں نہیں روتا۔ پہلے فارسی تھی، مرزا غالب اسی زمانے میں زندہ تھے، ان کے اس شعر میں پہلا مصرع مکمل فارسی میں ہے؎

بوئے گل، نالۂ دل، دوِدِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

اردو ’بولی‘ کے طور پر ہمیشہ رہے گی
’’ہم بچا نہیں سکتے اردو کو؟‘‘ ہمارے اس استفسار پر وہ کہتے ہیں کہ ’’ممکن نہیں ہے! یہ بولنے والی زبان کے طور پر ہمیشہ رہے گی، چوں کہ ہندوستان کی ’ہندی‘ اس کی معاونت کرتی ہے۔ ’ہندی‘ سے ہی اردو بنی تھی۔۔۔ سیدھی سی بات ہے۔ ورنہ اردو کیسے بنتی۔‘‘ گویا آپ ہندی رسم الخط کو اصلی مانتے ہیں؟‘ ہمارے ذہن میں فوراً یہ سوال آیا وہ بے ساختہ بولے ’نہ۔۔۔! رسم الخط کی بات دوسری ہے۔‘‘ ہم نے کہا ظاہر ہے وہ اُسے دوسرے رسم الخط میں لکھتے ہیں، تو ’ہندی‘ ہو جاتی ہے۔ تو انہوں نے اتفاق کرتے ہوئے کہا وہ دیوناگری کے بہ جائے اُسے ’خطِ نستعلیق‘ میں لکھیں، تو وہ اردو ہو جاتی ہے۔ اِدھر کچھ فارسی وعربی کے الفاظ شامل ہو جاتے ہیںِ، جس کی تعداد 30 فی صد سے زیادہ نہیں۔‘ ہم نے عربی وفارسی کے الفاظ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ الفاظ تو وہ بھی استعمال کر رہے ہیں، جیسے ’سلطان‘ نام کی تو فلم بنی۔‘ جس پر انہوں نے ٹکڑا لگایا کہ ’مغل اعظم‘ بھی بنی، لیکن اب ’مغل اعظم‘ انہی مکالموں کے سا تھ دکھائی جائے، تو وہ کوئی نہ سمجھے۔‘n

کیا تقسیم ہند نے اردو کو نقصان پہنچایا۔۔۔؟
’’بٹوارے نے نقصان پہنچایا اردو کو؟‘‘ ہمارے اس سوال پر وہ دو ٹوک انداز میں بولے ’’کوئی شبہ ہی نہیں ہے اس میں۔۔۔!‘‘
’اردو کے لیے پاکستان بنا اور الٹا اردو کو ہی نقصان ہو گیا؟‘ ہم نے استدلال کیا، تو وہ بولے کہ ’اردو کے لیے پاکستان نہیں بنا، صرف اسلام کے لیے بنا، بلکہ اسلام کے لیے بھی نہیں، مسلمانوں کے لیے بنا۔ دیکھیے، تقسیم سے پہلے کا منظر ذہن میں رکھیے، فارسی ختم ہو رہی ہے، جواہر لعل نہرو اپنے دستخط اردو میں کر رہے ہیں، ان کی شادی کا کارڈ اردو میں ہے۔ ہندو خوب اردو پڑھتے، باقاعدہ شاعری کرتے، نعت تک کہتے تھے، چکبست، فراق گورکھ پوری، بیدی اردو کا ایک بہترین سلسلہ تھا۔ میرے ایک ہندو دوست کے ابا نے اپنی بیٹی کی شادی کا خط یہاں اردو میں بھیجا۔ یہاں پاکستان کے لوگوں کو قطعاً یہ نہیں معلوم کہ وہ تو 70 فی صد ’ہندی‘ بول رہے ہیں۔ اب آپ رسم الخط کی بات کر رہے ہیں۔ ہندی رسم الخط دنیا کے مکمل ترین رسم الخطوں میں سے ایک ہے، اس میں اِعراب کی ایسی شکل بنا دی گئی ہے کہ غلط لکھا ہوا ہو تو غلط پڑھ سکتے ہیں، ورنہ کبھی غلط نہیں پڑھا جائے گا۔ اس میں ایسی ’ماترائیں‘ ہیں، جو زبر، زیر اور پیش کی خبر دیں گی، عربی، فارسی اور انگریزی میں ایسا نہیں۔‘

ہم نے ’ہندی‘ رسم الخط کے مصنوعی ہونے کا استفسار کیا، تو انہوں نے نفی کی اور کہا ہندی رسم الخط تو بہت پرانا ہے۔‘ ہم نے پوچھا کہ کیا پھر دونوں رسم الخط قدرتی ہیں، تو اُن کا کہنا تھا کہ قدرتی نہیں کہہ سکتے، ظاہر ہے رسم الخط لوگوں نے ہی کوشش کر کے بنائے۔

شکیل عادل زادہ کہتے ہیں کہ 1947ء سے پہلے اردو رسم الخط زیادہ چلتا تھا۔ ہندی، اردو کا تنازع تقسیم سے ہوا اور اس سے پہلے آزادی کی تحریکوں کے ساتھ ’ہندو مسلم‘ عصبیت شروع ہو چکی تھی۔
’اگر بٹوارا نہ ہوتا تو اردو رسم الخط غالب ہوتا؟‘ شکیل بھائی ہمارے اس براہ راست سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہوئے کہتے ہیںکہ بہت زیادہ! لیکن یہ مسلمانوں کی زبان سمجھی جاتی تھی۔ شمالی ہندوستان کے علاوہ دیگر ریاستوں کی اپنی زبانیں ہیں۔ البتہ اُن کی فلموں کی وجہ سے شہروں کی زبان ’ہندی‘ ہوگئی۔ جیسے ہمارے شہروں میں سب اردو بول لیتے ہیں، وجہ؟ ضرورت! اسی ضرورت کے تحت حیدر آباد میں ایک ’مہاجر‘ سندھی بھی جانتا ہے۔

’’اگر بٹوارا نہیں ہوتا تو کیا پھر پورے خطے کی زبان ارود ہوتی؟‘‘ ہم نے ایک تاریخی مفروضہ پیش کیا تو وہ بولے ’بٹوارا نہیں ہوتا، تو اردو کا یہ نقصان نہیں ہوتا۔ دیکھیے نقصان کیا ہوا، حساب لگا لیتے ہیں۔ ہندوستان میں ہندوئوں نے کہا یہ تو مسلمانوں کی زبان ہے اور اردو کا نام ونشان مٹا دیا، اب وہاں اردو کی کتابیں تو چھپتی ہیں، لیکن وہ سب رسمی ہے، وہاں سے میرا بھانجا تک مجھے ’ہندی‘ میں خط لکھتا ہے۔ میں وہاں ’ریختہ‘ کی کانفرنس میں گیا، وہاں کسی بورڈ پر اردو لکھی ہوئی نہیں دیکھی، دلی اسٹیشن اور کچھ سڑکوں پر بے شک اردو لکھی ہوئی ہے۔ کچھ عرصے کے بعد یہ اور ختم ہو جائے گی۔ ثابت یہ ہوا کہ جہاں ہندو بھی اردو بولتے تھے، وہاں اردو کا قلع قمع ہوگیا۔ اب آجائیں سابقہ ’مشرقی پاکستان‘ میں، وہاں اب کوئی اردو جانتا تک نہیں۔ البتہ یہاں رابطے کی زبان ہونے کے سبب اردو ’بولی‘ کی حد تک محفوظ رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔