’احتجاجی چوروں‘ نے ٹرمپ سمیت کئی عالمی رہنماؤں کا ڈی این اے چُرا لیا

ویب ڈیسک  جمعرات 20 فروری 2020
طاقتور سربراہانِ مملکت کا ڈی این اے ورلڈ اکنامک فورم، 2018 کے دوران چوری کیا گیا۔ (فوٹو: فائل)

طاقتور سربراہانِ مملکت کا ڈی این اے ورلڈ اکنامک فورم، 2018 کے دوران چوری کیا گیا۔ (فوٹو: فائل)

نیویارک: دی ’’ارنسٹ پروجیکٹ‘‘ نامی ایک آن لائن گروپ نے چار عالمی رہنماؤں کا ڈی این اے انٹرنیٹ پر نیلامی کےلیے پیش کردیا ہے۔ گروپ کا کہنا ہے کہ ڈی این اے کے یہ تمام نمونے 2018ء میں منعقدہ ’’ورلڈ اکنامک فورم‘‘ ڈاووس کے دوران مختلف عالمی رہنماؤں کے زیرِ استعمال رہنے والی چیزوں پر موجود ہیں جنہیں چوری کرکے محفوظ کرلیا گیا تھا۔

گروپ کا مؤقف ہے کہ دنیا بھر کی سرمایہ دار کمپنیاں اور حکومتیں ایک عام انسان کا حساس ڈیٹا ہر وقت جمع کرتی رہتی ہیں، چاہے صارف کو اس کی خبر ہو یا نہ ہو؛ اور چاہے یہ عمل صارف کی مرضی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ صارفین کا ذاتی ڈیٹا کاروباری فائدے اور سیاسی مفاد تک کے لیے استعمال بھی کیا جاتا ہے جبکہ سرمایہ دار ادارے اس کی خرید و فروخت بھی کرتے ہیں جو تخلیہ (پرائیویسی) اور اخلاقیات، دونوں ہی کے خلاف ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ یہ مسئلہ بھی سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔

جن طاقتور عالمی رہنماؤں کا ڈی این اے چوری کیا گیا ہے ان میں امریکی صدر ٹرمپ، جرمن چانسلر انجیلا مرکل، فرانسیسی صدر ایمانوئل میخواں اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتین یاہو کے نام لکھے گئے ہیں تاہم اس فہرست میں دیگر عالمی رہنما بھی شامل ہیں۔

ڈی این اے کے یہ نمونے نیپکنز، کافی کپ، جار، ٹوٹے ہوئے بالوں، سگریٹ فلٹرز، گلاسوں اور ناشتے کے کانٹوں پر محفوظ حالت میں موجود ہیں جن کی بولی 1200 ڈالر (تقریباً ایک لاکھ 85 ہزار روپے) ڈالر سے لے کر 65000 ڈالر (ایک کروڑ پاکستانی روپے) سے شروع کی جائے گی۔ البتہ یہ نہیں بتایا گیا کہ کس چیز پر کونسے عالمی رہنما کا ڈی این اے موجود ہے۔

ارنسٹ گروپ کا مؤقف ہے کہ ڈی این اے کی شکل میں جب طاقتور عالمی رہنماؤں کا نجی ڈیٹا دنیا میں فروخت ہوگا تو انہیں اس معاملے کی سنگینی کا احساس ہوگا، اور شاید تب کہیں جاکر ایک عام شہری کی نجی معلومات کو تحفظ دینے کےلیے ٹھوس اقدامات بھی کیے جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔