دنیا کو سوچنا ہوگا

سعید پرویز  جمعـء 27 مارچ 2020

وباؤں کا زمین پر نازل ہونا سنتے اور پڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ اپنی 75 سالہ عمر میں ڈینگی، کانگو اور نگلیریا (جو علاقائی وبائیں ہیں) کے بعد پوری دنیا میں بیک وقت پھیلی وبا ’’کورونا‘‘ کو بھی دیکھ لیا بلکہ اس کے ساتھ جی رہے ہیں، مر رہے ہیں۔

اکیسویں صدی میں ہم گزر رہے ہیں چل رہے ہیں۔ سائنس عروج حاصل کرچکی، نائب اللہ یعنی انسان کی ترقی دیکھ کر چاند ستارے سہمے جاتے ہیں، انسان زندگی کو کھوجتا کھوجتا جانے کہاں سے کہاں نکلا جا رہا ہے، مگر اللہ کے اختیارات اس کے اپنے ہیں۔ اللہ نے جتنے اختیارات تک اپنے نائب کو رسائی دینا تھی وہ دے دی، جہاں تک نائب اللہ کو جانا تھا جا چکا، اللہ نے ایک خاص حد کے بعد ڈھیلی لگامیں کھینچ لیں۔

23 مارچ  یوم پاکستان ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم دن۔ صبح کا آغاز توپوں کی گھن گرج کے ساتھ ہو چکا۔ توپوں کے دہانوں سے نکلتے گولوں کے ساتھ فوجی ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے بلند کرچکے، بس 23 مارچ 2020کے دن اتنا ہی ہونا تھا، سو ہو چکا۔ باقی فوجی پریڈ، اسلحے کی نمائش، فضائی مارچ، سول اور فوجی تمغوں، اعزازات کی تقسیم یہ سارے پروگرام ملتوی کردیے گئے۔

وائرس ’’کورونا‘‘ کے ہوتے ہم کسی بھی قسم کا اجتماع نہیں کرسکتے۔میں بھی گھر کے اندر قیدی بن کر بیٹھا ہوں، کئی دن گزر چکے، قلم پکڑا، نہ ہی کچھ لکھا۔ بس پڑھ رہا ہوں، قرۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کا دریا‘‘ برسوں بعد پھر پڑھ رہا ہوں، جنگل جنگل، دریا دریا، آشرم آشرم، کٹیاؤں میں کبھی ندی کنارے، تیز بارش میں بھیگتے سبزے، پھول پھلواری اور سات سروں میں ڈھونڈتے سچ کے مسافر نے نوازا، بس ابھی تو ابتدا میں چل رہا ہوں، آگ کے دریا میں اترا ہوں۔ ’’آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔‘‘

یہ 23 مارچ 2020 تھی۔ شاہ لطیف، سچل سائیں، قلندر بادشاہ کی سندھ دھرتی پر پندرہ روزہ بندش یا کہہ لیجیے کہ ’’نیم کرفیو‘‘ لگا دیا گیا ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ پندرہ دن تک لوگ اپنے گھروں میں رہیں۔ شدید ضرورت پر گھر سے نکلیں اور ضرورت پوری کرکے واپس گھر چلے جائیں۔ علما کرام سمیت تمام مکتبہ فکر حکومت سندھ کے ہمنوا ہیں۔ پوری دنیا کی حالت ہی ایسے ہوچکی ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہونا تھا کہ خانہ کعبہ کا طواف بند ہوگیا۔ مسجد نبوی میں نمازیں نہیں ہو رہیں۔ طواف اور نمازیں اللہ کے فرشتے ضرور کر رہے ہوں گے، پڑھ رہے ہوں گے اور باطن کی آنکھ رکھنے والے یہ مناظر دیکھ رہے ہوں گے۔

بہرحال پوری دنیا کو سوچنا ہوگا کہ یہ وبا کیوں نازل ہوئی؟اس سوال کا جواب بھی پوری دنیا خوب اچھی طرح جانتی ہے۔ دنیا والوں نے دل دکھانے کے وہ سارے ہی کام کر ڈالے جو جو انھیں سمجھ آئے۔ انسان کی سب سے افضل و اعلیٰ عبادت حقوق العباد کا پورا کرنا ہے اور یہی کام ہم نہیں کر رہے۔ باقی عبادتیں کر رہے ہیں مگر ان میں بھی خلوص نہیں ہے، دکھاوا ہے۔ انسانوں کو نقصان پہنچانے والے کام بے رحم، انسانیت سے عاری لوگ کیے جا رہے ہیں، ملاوٹ زدہ اشیا بنائی جا رہی ہیں، جعلی دوائیں بنائی جا رہی ہیں، مردہ جانوروں کی ہڈیوں، چربی سے پکانے کا تیل بنایا جا رہا ہے، حرام اور مکروہ جانوروں کا گوشت انسانوں کو کھلایا جا رہا ہے، کتے، گدھے، مرے ہوئے جانور اور مرغیاں ہوٹلوں میں کھلائی جا رہی ہیں اور یہ کام رکنے میں ہی نہیں آ رہے۔ روزانہ لوگ پکڑے جاتے ہیں، مگر یہ انسان دشمن کام پھر بھی جاری ہیں۔

ہمارے برصغیر میں تو ’’کورونا وائرس‘‘ اس شدت سے ابھی تک سامنے نہیں آیا جس شدت سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کورونا کی زد میں ہیں۔ چین سے کورونا کی شروعات ہوئیں مگر آخر کار تین ماہ کی دن رات جدوجہد سے چین کے زبردست لوگوں نے اس وبا پر قابو پا لیا حتیٰ کہ ہمارے پاکستانی طلبا و دیگر بھی تندرست ہو چکے ہیں۔ ہمارے طلبا کے والدین اپنے بچوں کے لیے بہت پریشان تھے مگر چین نے ہمیں حوصلہ دیا کہ طلبا کا یہیں علاج ہونے دیں اور آخر وہ طلبا تندرست ہوگئے۔ امریکا اور یورپ و دیگر ترقی یافتہ ممالک نے ’’کورونا‘‘ کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ آج کورونا وائرس نے امریکا، کینیڈا اور یورپ میں انسان بڑی تیزی سے مر رہے ہیں۔

میں اپنی اہلیہ کے ساتھ جولائی، اگست 2019 کینیڈا میں گزار کر آیا ہوں۔ ہمارا قیام کینیڈا کے دارالخلافہ آٹوا میں تھا جہاں ہماری بیٹی رہتی ہے۔ میں نے دیکھا وہاں صفائی کا نہایت اچھا انتظام ہے۔ ناپ تول بھی پورا ہے، ادویات سے لے کر کھانے پینے کی اشیا تمام خالص ہیں، حلال گوشت بالکل ملتا ہے، ہوٹل، کافی شاپ سب جگہ صفائی کا خاص خیال ہے۔ قانون کی انتہا درجہ پاسداری ہے۔ تمام رنگ و نسل کے لوگ اپنے اپنے مذہب اور عقیدے کے ساتھ آزاد زندگی گزارتے ہیں۔ تہذیب کا ہر سُو نظارہ ہے۔ مرد کیا، عورتیں کیا مسکرا کر دیکھتے ہیں، سلام کرتے ہیں (Goog Morning have a nice day) اس دعائیہ جملے کے ساتھ وہ صبح کا آغاز کرتے ہیں۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ حقوق العباد کا اس درجہ پاس رکھنے والوں کے ساتھ قدرت کا ایسا سلوک کیوں؟ اور ہم ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا، نیپال، بھوٹان ابھی تک بھی خاصے محفوظ ہیں۔ یہ ابھی محفوظ رہنا میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔ بس اللہ خیر کرے، خیر رکھے، سندھ حکومت نے اچھا قدم اٹھا لیا، انشاء اللہ وفاق بھی بہت جلد بہتر حکمت عملی اختیار کرلے گا۔ مجھے اپنے ملک کے لوگوں پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ چوکنا رہتے ہوئے اپنے قرب و جوار میں رہنے والوں پر نظر رکھیں گے۔ کوئی بھوکا نہ رہ جائے، اشیائے ضروری حاجت مندوں کے گھروں تک پہنچنا چاہئیں۔ انشا اللہ ایسا ہی ہوگا۔ ہم من حیث القوم بھائی چارگی کا یہ مظاہرہ کئی بار دیکھ چکے ہیں۔ اب بھی ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ مگر یہ عجیب گھڑی ہے کچھ سجھائی نہیں دے رہا، یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ ایران جیسے ملک میں اتنا برا حال وہ قوم جس نے حق کا پرچم بلند کیے رکھا، اور اقتصادی پابندیوں کو ٹھوکروں میں اڑا دیا، وہاں کورونا نے تباہی مچا رکھی ہے۔ وہاں بھی نمازیں نہیں ہو رہیں، مساجد بند ہیں،دو تین جمعے نہیں ہوئے۔

ایسی صورت حال سے پاکستان ابھی تک بچا ہوا ہے مگر لمحہ فکریہ ہے کہ یہ سب کیا ہے! ادھر دھیان جاتا ہے تو پھر سوچ میں پڑ جاتا ہوں۔ امریکا، کینیڈا، یورپی ممالک میں فحاشی آخری حدیں پار کیے ہوئے ہے۔ عورتیں عورتیںاور مرد مرد گھر بسائے ہوئے ہیں۔ میاں بیوی بن کر رہ رہے ہیں، سر عام شیشوں کے پیچھے بے لباس عورتیں لڑکیاں کھڑی ہیں۔ آپ سجی سجائی عورت کاانتخاب کریں اور لے جائیں۔ شراب خانے عام ہیں، نائٹ کلبوں میں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ یہ عام ننگا پن اور اسے قانون کی پاسداری حاصل ہے۔ پھر میں اپنے پاک وطن کا سوچتا ہوں یہاں کون سا ایسا ناپاک کام ہے جو نہیں ہوتا! تو کیا یہ کورونا جیسا خطرناک وائرس دنیا بھر کے کالے کرتوتوں کا کیا دھرا ہے؟

پھر میرا دھیان ہندوستان کی طرف چلا جاتا ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام، آج کشمیر میں 240 دن سے جاری ظلم کا طوفان، ابھی تک شاہین باغ دہلی میں مودی کے خلاف دھرنا جاری ہے جس میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سبھی شامل ہیں۔ یوں ہی تو نہیں کہ ہندو طلبا و طالبات، جالب اور فیض کی نظمیں گا رہے۔یہ پوری دنیا کا منظر نامہ ہے اور آج اسی منظر نامے کو سامنے رکھ کر دنیا نے فیصلہ کرنا ہے کہ جہاں جہاں وہ غلط ہیں اسے صحیح کرلیں۔ زمین کھسک نہیں سکتی، کشمیر وہیں رہے گا جہاں ہے۔ کشمیر کے لوگ وہیں رہیں گے جہاں ہیں۔ افغانستان افغانیوں سمیت وہیں رہے گا جہاں ہے۔ وقت آگیا کہ انسان کو آزاد کرو۔ اگر انسان آزاد نہیں ہوگا تو آزادی کے رستے بنتے رہیں گے اور آزادی کی مزید تحریکیں جنم لیتی رہیں گی۔ ہندوستان میں بڑی آوازیں اٹھ رہی ہیں کیونکہ اب انسان کا نعرہ ہے:

ظلم کی بات کو‘ جہل کی رات کو

میں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔